اسرائیلی وفد کی پہلی بار سعودی عرب آمد یونیسکو اجلاس میں شرکت
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی پر امریکا ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے
سعودی عرب میں اعلی الاعلان پہلی بار ایک اسرائیلی وفد کی آمد ہوئی یہ وفد یونیسکو کے عالمی اجلاس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب میں ہونے والے یونیسکو کے عالمی اجلاس میں شرکت کے لیے جہاں دیگر ممالک کے وفد نے شرکت کی وہیں اسرائیل سے بھی ایک وفد پہنچا۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں پہلی بار اسرائیلی وفد سعودی عرب کے دورے پر پہنچا ہے۔ اس سے قبل ایک آدھ بار خفیہ ملاقاتوں اور دوروں کی خبریں آئی تھیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی ہمیشہ سختی سے تردید کی گئی ہے تاہم اب پہلی بار ایک اسرائیلی وفد کو سعودی عرب آنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل بہتر تعلقات کے لیے گرم جوشی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ طویل عرصے سے امریکا اپنے روایتی اتحادی سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
اگر امریکا ایسا کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ خطے میں اس کی سب سے بڑی سفارتی جیت ہوگی۔
تاہم سعودی عرب ہمیشہ سے امریکا کو باور کراتا آیا ہے کہ فلسطین کے دوریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا اور اب بھی وہ اپنے موقف پر قائم ہے۔
اسرائیل نے 2017 میں یونیسکو پر تعصب کا الزام لگاتے ہوئے تنطیم کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم اسرائیل اب بھی عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن کا ایک فریق ہے۔
ابھی حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل، اردن، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے راستے یورپ اور بھارت کے درمیان ریلوے اور سمندری راستہ بنانے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب میں ہونے والے یونیسکو کے عالمی اجلاس میں شرکت کے لیے جہاں دیگر ممالک کے وفد نے شرکت کی وہیں اسرائیل سے بھی ایک وفد پہنچا۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں پہلی بار اسرائیلی وفد سعودی عرب کے دورے پر پہنچا ہے۔ اس سے قبل ایک آدھ بار خفیہ ملاقاتوں اور دوروں کی خبریں آئی تھیں لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی ہمیشہ سختی سے تردید کی گئی ہے تاہم اب پہلی بار ایک اسرائیلی وفد کو سعودی عرب آنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل بہتر تعلقات کے لیے گرم جوشی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ طویل عرصے سے امریکا اپنے روایتی اتحادی سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
اگر امریکا ایسا کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ خطے میں اس کی سب سے بڑی سفارتی جیت ہوگی۔
تاہم سعودی عرب ہمیشہ سے امریکا کو باور کراتا آیا ہے کہ فلسطین کے دوریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا اور اب بھی وہ اپنے موقف پر قائم ہے۔
اسرائیل نے 2017 میں یونیسکو پر تعصب کا الزام لگاتے ہوئے تنطیم کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم اسرائیل اب بھی عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن کا ایک فریق ہے۔
ابھی حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل، اردن، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے راستے یورپ اور بھارت کے درمیان ریلوے اور سمندری راستہ بنانے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی ہے۔