معیشت کی بحالی مزید اصلاحات کی ضرورت
موجودہ سنگین معاشی حالات کے پیش نظر ایسے عناصر کے خلاف فی الفور اقدامات اٹھانے چاہیے جنھیں حال ہی میں نیب نے پکڑا ہے
اسمگلنگ، ٹیکسوں و بجلی کی چوری اور ڈالرکی ذخیرہ اندوزی جیسے جرائم کے خلاف گزشتہ چند دنوں سے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں، اس کے نتیجے میں انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت تین سو روپے سے کم ہوگئی ہے۔
چند روز قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ملک کے اعلیٰ کاروباری طبقے کو یقین دلا چکے ہیں کہ جلد ہی ملک میں 50 ارب ڈالرکی غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جائے گی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے پاکستان میں 50 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس وقت نگراں حکومت برسر اقتدار ہے، جوا گر عوام کی بہتری و بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہے تو سب کچھ کرسکتی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ معدنی اور قدرتی وسائل کے وسیع ذخیرے سے مالا مال ہمارا ملک جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
معیشت کی بحالی میں ملک کی نوجوان نسل مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی اسی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال یا اس سے کم ہے لیکن پاکستان کی معیشت ایسی گراوٹ سے دوچار ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ روپے کی قدر میں کمی اورکمر توڑ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
جہاں غیر رسمی معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا محصولات کے دائرہ کارکو وسیع کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے، وہیں جائیداد پر ٹیکس عائد کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ریئل اسٹیٹ سمیت رینٹ پر چلنے والی بیش تر صنعتیں ٹیکس کی کم شرح سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
معاشی بحالی کے لیے سیاسی استحکام بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے معاشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک میں ایک مستحکم حکومت موجود ہو، حکومتی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ادارہ جاتی اصلاحات لانے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جا رہی ہے اور ایسے سرکاری ادارے جو خسارے میں چل رہے ہیں ان کی نجکاری زیر غور ہے۔
ادھر پاکستان میں بجلی کی قیمت اور ٹیکسز کی وجہ سے بلوں میں اضافے پر ملک بھر میں شہری سراپا احتجاج ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے بھی عوامی ردعمل سے یکجہتی کرتے ہوئے بلوں میں غیر معمولی اضافہ پر تشویش کا اظہارکیا ہے، مگر ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ غیر منصفانہ تقسیم، بااثر طبقے کو اربوں روپے کی مفت بجلی کی فراہمی، بجلی چوری بھی ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہو رہی ہیں جب کہ روایتی کے ساتھ جدید اشیا تیار کر کے درآمدات میں شامل کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اپنی جگہ لیکن ہم نے کبھی اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے ہی نہیں۔ آج بھی وہی روایتی چیزیں ایکسپورٹ ہوتی ہیں جو 50 سال پہلے ہوتی تھیں۔ نئی پیداوار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔
کم از کم مہنگی اشیائے خورونوش بیچنے والوں کے خلاف منظم کارروائی کر کے کسی حد تک مہنگائی کے جن کو قابو میں لایا جاسکتا ہے، لیکن اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ Retailerہر ماہ اپنی مرضی سے کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔
موجودہ سنگین معاشی حالات کے پیش نظر ایسے عناصر کے خلاف فی الفور اقدامات اٹھانے چاہیے جنھیں حال ہی میں نیب نے پکڑا ہے اور ان کے گھروں سے کھربوں روپے کی پاکستانی، ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیاں برآمد ہوئی ہیں، اگر یہ پیسہ ملک کے خزانے میں آجاتا ہے تو اس طرح معاشی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے، لیکن اگر پلی بارگینگ کر کے ایسے عناصر کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ملک میں معاشی استحکام کا سوچنا بھی محال ہے۔
دراصل جو سیاستدان، کاروباری افراد، طاقتور سرکاری افسران، اس مملکت کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں ان کی بڑی تعداد کے ذہنوں میں قیام پاکستان اور اس کی عظیم تحریک کا کوئی خاکہ موجود نہیں ہے ا ور نہ ہی ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا اور کسی قسم کی قربانی دی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر پہلے اپنی معاشی حالت کو مضبوط بناتے ہیں، اس کے بعد عوام کے ٹیکسوں کے ذریعے ترقیاتی کام کرتے ہیں، رشوت لے کر منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی واہ واہ ہو سکے۔ نیز عوام میں تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، لیکن اب شاید ایسا نہ ہوسکے۔
عوام بیدار ہوچکے ہیں اور عوام کی بیداری کرپشن کو روکنے میں اپنا ایک اہم کردار اد ا کرسکتی ہے اس بیداری کو سوشل میڈیا نے اور زیادہ تقویت پہنچائی ہے اور بند کمروں میں ہونے والے فیصلے اب عوام کے سامنے آچکے ہیں جن سے متعلق ہر قسم کا تبصرہ ہوتا ہے۔
ضروری نہیں یہ تبصرے ٹھیک ہوں، لیکن جب سیاستدان آپس میں لڑرہے ہوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ٹی وی پر بے دریغ جھوٹ بول رہے ہوں تو پھر مملکت خداداد کا مستقبل کس طرح بہتر ہوسکتا ہے اور عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔وزارت خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کل ملکی قرضہ '' مالیاتی ذمے داری اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005'' کے تحت جی ڈی پی کے 60 فیصد کی مقررہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔
وزارت خزانہ نے اپنے مالیاتی رسک اسٹیٹمنٹ 24-2023 میں کہا ہے کہ کل عوامی قرضہ (ٹی پی ڈی) حکومت کے مقروض ہونے کا ایک پیمانہ ہے۔ نگران حکومت کی جانب سے معیشت کی بحالی کے لیے سرکاری سطح پر عملی اقدامات اٹھائے جانے تک معیشت میں بہتری کی باتیں صرف زبانی جمع خرچ ہی رہے گا۔
جب تک حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی نہیں کرے گی کچھ بھی کرنے سے فرق نہیں پڑے گا۔ ٹیکسوں کا حصول ملک کا بڑا بحران نہیں بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اصل مسئلہ ہیں، دوسری جانب میں ملک میں جاری سیاسی تناؤ کی فضاء میں اقتصادی بہتری کی کسی بھی کوشش کو کاروباری حلقے بھی محتاط انداز سے دیکھ رہے ہیں۔
مزید برآں معنی خیز اصلاحات لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ چھوٹے کاروباری طبقے کو آسانی مہیا کی جائے اور صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بااختیار بنانے کے بجائے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی بااختیار بنایا جائے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدامات غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تو نوکر شاہی کے سرخ فیتہ کلچرکو ختم کردیں گے، لیکن چھوٹا کاروباری طبقہ بدستور ایک دستاویزی کاروبار کو رجسٹر کروانے اور چلانے کے لیے بہت سے ریگولیٹری تقاضوں کا سامنا کرتا رہے گا۔ کارپوریٹ اکاؤنٹ کھلوانے سے لے کر کام سے متعلق شناختی جانچ مکمل کرنے تک ایسے کئی مسائل ہیں جو مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔
کسی بھی سنجیدہ اصلاح کا تقاضا یہ ہے کہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنا اس کے ہدف میں شامل ہونا ضروری ہے۔ہمیشہ سے ہی مراعات سے ایک طبقے کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام اور خواص میں فرق کر کے پالیسیاں بنانے سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی مد میں بڑی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ اب صنعت کاروں سمیت گھریلو صارفین بھی بجلی کے بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے اور ٹیکسوں کا دباؤ عام آدمی پر سرمایہ داروں سے زیادہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ ایکسپورٹ کم ہونے پر بھی فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔
ملک کا جتنا بڑا سرمایہ دار ہوگا وہ اتنی زیادہ مراعات لے گا، بجلی بھی بڑے افسران، بڑے صنعت کاروں یا طاقتور طبقے کے لیے مفت، عام آدمی کے لیے مہنگی ہے۔
ایکسپورٹ کی کمی سے بھی ملکی معیشت کے ساتھ عام آدمی کو ہی فرق پڑتا ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتا ہے۔ جب تک بجلی کی تقسیم تمام طبقات میں یکساں نہیں ہوگی ٹیکس برابر نہیں ہوں گے، نہ معاشی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی معاشی بحران ختم ہوسکے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں 40 اضافہ ہوا ہے جس سے ہزاروں پاور لومز بند ہونے سے کاروبار ٹھپ جب کہ مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ابھی جزوی طور پر پاور لومز انڈسٹری بند ہو رہی ہے، حالات ایسے ہی رہے تو مکمل بند ہوسکتی ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھنے سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے بیرون ملک کمپنیوں کے آرڈرز پورے نہ ہونے پر آرڈر بھی منسوخ کیے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی مارکیٹوں میں پاکستانی سامان فروخت کرنا دشوار رہا ہے۔
اب بجلی کی قیمتوں اور بلوں میں ٹیکس اضافے سے پیداواری لاگت مزید بڑھ چکی ہے کیونکہ دیگر ملکوں کے مقابلہ میں جب ہماری اشیا مہنگی ہوتی ہیں تو کوئی نہیں خریدتا۔
ہماری درآمدی اشیا دوسرے ممالک کے مقابلے میں معیاری بھی ہوں تو بھی قیمت زیادہ ہونے کے باعث عالمی مارکیٹ میں توجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی موثر پالیسی سامنے نہیں آئی جب تک ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی معاشی بحران کیسے ختم ہوگا؟
چند روز قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ملک کے اعلیٰ کاروباری طبقے کو یقین دلا چکے ہیں کہ جلد ہی ملک میں 50 ارب ڈالرکی غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جائے گی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے پاکستان میں 50 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس وقت نگراں حکومت برسر اقتدار ہے، جوا گر عوام کی بہتری و بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہے تو سب کچھ کرسکتی ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ معدنی اور قدرتی وسائل کے وسیع ذخیرے سے مالا مال ہمارا ملک جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
معیشت کی بحالی میں ملک کی نوجوان نسل مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی اسی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال یا اس سے کم ہے لیکن پاکستان کی معیشت ایسی گراوٹ سے دوچار ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ روپے کی قدر میں کمی اورکمر توڑ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
جہاں غیر رسمی معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا محصولات کے دائرہ کارکو وسیع کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے، وہیں جائیداد پر ٹیکس عائد کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ریئل اسٹیٹ سمیت رینٹ پر چلنے والی بیش تر صنعتیں ٹیکس کی کم شرح سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
معاشی بحالی کے لیے سیاسی استحکام بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے معاشی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک میں ایک مستحکم حکومت موجود ہو، حکومتی سطح پر ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ادارہ جاتی اصلاحات لانے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جا رہی ہے اور ایسے سرکاری ادارے جو خسارے میں چل رہے ہیں ان کی نجکاری زیر غور ہے۔
ادھر پاکستان میں بجلی کی قیمت اور ٹیکسز کی وجہ سے بلوں میں اضافے پر ملک بھر میں شہری سراپا احتجاج ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے بھی عوامی ردعمل سے یکجہتی کرتے ہوئے بلوں میں غیر معمولی اضافہ پر تشویش کا اظہارکیا ہے، مگر ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ غیر منصفانہ تقسیم، بااثر طبقے کو اربوں روپے کی مفت بجلی کی فراہمی، بجلی چوری بھی ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے برآمدات بھی کم ہو رہی ہیں جب کہ روایتی کے ساتھ جدید اشیا تیار کر کے درآمدات میں شامل کرنے کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اپنی جگہ لیکن ہم نے کبھی اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے ہی نہیں۔ آج بھی وہی روایتی چیزیں ایکسپورٹ ہوتی ہیں جو 50 سال پہلے ہوتی تھیں۔ نئی پیداوار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔
کم از کم مہنگی اشیائے خورونوش بیچنے والوں کے خلاف منظم کارروائی کر کے کسی حد تک مہنگائی کے جن کو قابو میں لایا جاسکتا ہے، لیکن اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ Retailerہر ماہ اپنی مرضی سے کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔
موجودہ سنگین معاشی حالات کے پیش نظر ایسے عناصر کے خلاف فی الفور اقدامات اٹھانے چاہیے جنھیں حال ہی میں نیب نے پکڑا ہے اور ان کے گھروں سے کھربوں روپے کی پاکستانی، ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیاں برآمد ہوئی ہیں، اگر یہ پیسہ ملک کے خزانے میں آجاتا ہے تو اس طرح معاشی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے، لیکن اگر پلی بارگینگ کر کے ایسے عناصر کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر ملک میں معاشی استحکام کا سوچنا بھی محال ہے۔
دراصل جو سیاستدان، کاروباری افراد، طاقتور سرکاری افسران، اس مملکت کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں ان کی بڑی تعداد کے ذہنوں میں قیام پاکستان اور اس کی عظیم تحریک کا کوئی خاکہ موجود نہیں ہے ا ور نہ ہی ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا اور کسی قسم کی قربانی دی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر پہلے اپنی معاشی حالت کو مضبوط بناتے ہیں، اس کے بعد عوام کے ٹیکسوں کے ذریعے ترقیاتی کام کرتے ہیں، رشوت لے کر منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کی واہ واہ ہو سکے۔ نیز عوام میں تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کس قسم کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، لیکن اب شاید ایسا نہ ہوسکے۔
عوام بیدار ہوچکے ہیں اور عوام کی بیداری کرپشن کو روکنے میں اپنا ایک اہم کردار اد ا کرسکتی ہے اس بیداری کو سوشل میڈیا نے اور زیادہ تقویت پہنچائی ہے اور بند کمروں میں ہونے والے فیصلے اب عوام کے سامنے آچکے ہیں جن سے متعلق ہر قسم کا تبصرہ ہوتا ہے۔
ضروری نہیں یہ تبصرے ٹھیک ہوں، لیکن جب سیاستدان آپس میں لڑرہے ہوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ٹی وی پر بے دریغ جھوٹ بول رہے ہوں تو پھر مملکت خداداد کا مستقبل کس طرح بہتر ہوسکتا ہے اور عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔وزارت خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کل ملکی قرضہ '' مالیاتی ذمے داری اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005'' کے تحت جی ڈی پی کے 60 فیصد کی مقررہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔
وزارت خزانہ نے اپنے مالیاتی رسک اسٹیٹمنٹ 24-2023 میں کہا ہے کہ کل عوامی قرضہ (ٹی پی ڈی) حکومت کے مقروض ہونے کا ایک پیمانہ ہے۔ نگران حکومت کی جانب سے معیشت کی بحالی کے لیے سرکاری سطح پر عملی اقدامات اٹھائے جانے تک معیشت میں بہتری کی باتیں صرف زبانی جمع خرچ ہی رہے گا۔
جب تک حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی نہیں کرے گی کچھ بھی کرنے سے فرق نہیں پڑے گا۔ ٹیکسوں کا حصول ملک کا بڑا بحران نہیں بلکہ بے دریغ بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اصل مسئلہ ہیں، دوسری جانب میں ملک میں جاری سیاسی تناؤ کی فضاء میں اقتصادی بہتری کی کسی بھی کوشش کو کاروباری حلقے بھی محتاط انداز سے دیکھ رہے ہیں۔
مزید برآں معنی خیز اصلاحات لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ چھوٹے کاروباری طبقے کو آسانی مہیا کی جائے اور صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بااختیار بنانے کے بجائے مقامی سرمایہ کاروں کو بھی بااختیار بنایا جائے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدامات غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تو نوکر شاہی کے سرخ فیتہ کلچرکو ختم کردیں گے، لیکن چھوٹا کاروباری طبقہ بدستور ایک دستاویزی کاروبار کو رجسٹر کروانے اور چلانے کے لیے بہت سے ریگولیٹری تقاضوں کا سامنا کرتا رہے گا۔ کارپوریٹ اکاؤنٹ کھلوانے سے لے کر کام سے متعلق شناختی جانچ مکمل کرنے تک ایسے کئی مسائل ہیں جو مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔
کسی بھی سنجیدہ اصلاح کا تقاضا یہ ہے کہ کاروبار میں آسانی پیدا کرنا اس کے ہدف میں شامل ہونا ضروری ہے۔ہمیشہ سے ہی مراعات سے ایک طبقے کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام اور خواص میں فرق کر کے پالیسیاں بنانے سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی مد میں بڑی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ اب صنعت کاروں سمیت گھریلو صارفین بھی بجلی کے بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے اور ٹیکسوں کا دباؤ عام آدمی پر سرمایہ داروں سے زیادہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ ایکسپورٹ کم ہونے پر بھی فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔
ملک کا جتنا بڑا سرمایہ دار ہوگا وہ اتنی زیادہ مراعات لے گا، بجلی بھی بڑے افسران، بڑے صنعت کاروں یا طاقتور طبقے کے لیے مفت، عام آدمی کے لیے مہنگی ہے۔
ایکسپورٹ کی کمی سے بھی ملکی معیشت کے ساتھ عام آدمی کو ہی فرق پڑتا ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتا ہے۔ جب تک بجلی کی تقسیم تمام طبقات میں یکساں نہیں ہوگی ٹیکس برابر نہیں ہوں گے، نہ معاشی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی معاشی بحران ختم ہوسکے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں 40 اضافہ ہوا ہے جس سے ہزاروں پاور لومز بند ہونے سے کاروبار ٹھپ جب کہ مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ابھی جزوی طور پر پاور لومز انڈسٹری بند ہو رہی ہے، حالات ایسے ہی رہے تو مکمل بند ہوسکتی ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھنے سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے بیرون ملک کمپنیوں کے آرڈرز پورے نہ ہونے پر آرڈر بھی منسوخ کیے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی مارکیٹوں میں پاکستانی سامان فروخت کرنا دشوار رہا ہے۔
اب بجلی کی قیمتوں اور بلوں میں ٹیکس اضافے سے پیداواری لاگت مزید بڑھ چکی ہے کیونکہ دیگر ملکوں کے مقابلہ میں جب ہماری اشیا مہنگی ہوتی ہیں تو کوئی نہیں خریدتا۔
ہماری درآمدی اشیا دوسرے ممالک کے مقابلے میں معیاری بھی ہوں تو بھی قیمت زیادہ ہونے کے باعث عالمی مارکیٹ میں توجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی موثر پالیسی سامنے نہیں آئی جب تک ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی معاشی بحران کیسے ختم ہوگا؟