برداشت اور درگزر کی حکمت عملی
بلوچستان اب قانون کی عملداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی سر فہرست ہے
بلوچستان غربت، ناخواندگی، بے روزگاری کے حوالے سے تو بلوچستان سرفہرست ہی تھا مگر اب قانون کی عملداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی سر فہرست ہے۔
انگریزی کے موقر اخبار میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سی ٹی ڈی گوادر نے دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونے والی ہونے ایک خاتون کے جنازے میں شریک ہونے والے 13 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
مولانا خالد سیفی اور دیگر 12افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پولیس اور مقامی مجسٹریٹ نے اس عورت کی میت مقامی سول سوسائٹی کے کارکنوں کے حوالے کی تھی اور میت کی تدفین تربت کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ ان گرفتاریوں پر انسانی حققوق کی تنظمیوں سے تعلق رکھنے والے کارکن حیرت زدہ ہیں کیونکہ نماز جنازہ پڑھنا اور پڑھانا کوئی جرم نہیں ہے۔
جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 4 اپریل 1979ء کو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمود احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں پھانسی دی تھی تو بھٹو صاحب کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش میں نماز جنازہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اگرچہ حکام کی جانب سے گڑھی خدا بخش کے مخصوص افراد کو اس مقدس فریضہ میں شرکت کی اجازت ملی، ان میں بھٹو خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں تھا۔
اسی طرح جب بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی ایک فوجی آپریشن میں جاں بحق ہوئے تھے تو ان کے گاؤں کے چند لوگ ان کے جنازہ میں شریک ہوئے تھے مگر کسی فرد کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہوا تھا۔
بلوچستان گزشتہ 23 برسوں سے مسلسل بدنظمی اور چپقلش کا شکار رہا ہے۔ اس صدی کے آغاز پر بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد نواز مری نامعلوم افراد کے حملے میں قتل ہوئے تھے، اس وقت کی حکومت نے مری قبیلہ کے سردار خیر بخش مری کو جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سردار خیر بخش مری اور ان کے ساتھیوں نے نواز مری کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا مگر خیر بخش مری کی گرفتاری سے بلوچستان میں احساسِ محرومی بڑھ گیا۔
سیاسی کارکنوں اور ریاست کے درمیان فاصلے بڑھنے کا عمل شروع ہوا۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت سے بلوچستان عملاً انارکی کا شکار ہوا۔ دوسرے صوبوں سے بلوچستان میں آباد ہونے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلائ، صحافیوں، انجنیئرز، خواتین اور سول افسروں اور کاروباری افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔
کئی سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے اور کچھ کی لاشیں ملنے لگیں۔ ہزارہ برادری کی آبادیوں اور ایران جانے والے قافلوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔ کوئٹہ مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا شکار ہوا۔
2013ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان معاہدے کے تحت نیشنل پارٹی کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ڈھائی سال کے لیے وزیر اعلیٰ بنے، اگلے ڈھائی سال نواب ثناء اﷲ زہری وزیراعلیٰ بنے۔ ڈاکٹر مالک کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا۔
انھوں نے صوبے میں امن و امان بہتر بنانے ، تعلیم ، صحت اور ذرایع ابلاغ کی ترقی کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں فرقہ وارانہ حملوں میں کمی آئی۔ ایک گروپ کے دہشت گردوں کے لشکر کو منتشر ہونا پڑا۔ ڈاکٹر مالک نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے حق کو عملی شکل دی۔ صوبہ میں بہت سے اسکول، کالج اورکئی جامعات قائم ہوئیں۔ ڈاکٹر مالک نے بعض جلا وطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔
ان مذاکرات کے حوالہ سے یہ بات عام ہوئی کہ خان آف قلات سمیت کئی انتہا پسند رہنما ملک میں واپس آجائیں گے۔
معاہدہ کے مطابق ڈھائی سال کی مدت ختم ہونے پر ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوئی اور ثناء اﷲ زہری کی حکومت قائم ہوئی مگر جو بنیادی کام ڈاکٹر مالک کے دور میں شروع ہوئے تھے ان پر عملدرآمد جاری نہیں رہا۔ اچانک بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) وجود میں آئی اور جام کمال کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد عبدالقدوس بزنجو اقتدار میں آئے مگر مجموعی طور پر صورتحال زیادہ بہتر نہ ہوئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے تحت گوادر شہر کو جدید شہر میں تبدیل ہونا تھا مگر گوادر کے ماہی گیروں کو روزگار کے حق سے محروم کر دیا گیا جس کی بناء پر سیکڑوں سال سے سمندر سے روزی کمانے والے خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔
ان شہریوں کو اپنے گھروں میں آنے کے لیے شناختی دستاویزات دکھانے پڑتے ہیں۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کو ماہی گیروں کے حقوق کے لیے تحریک چلانا پڑی۔ اس تحریک کی گوادرکے شہریوں نے بھرپور حمایت کی۔ مولانا ہدایت الرحمن کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ وفاقی حکومت کو اس احتجاجی تحریک کے کچھ مطالبات ماننے پڑے۔
گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار اور اطراف کے شہروں میں حالات خراب ہوئے۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل نے الزام لگایا کہ انھیں سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ حکومتی وزراء اور قبائلی جرگہ کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے نتیجہ میں کراچی کوئٹہ شاہراہ پر ٹریفک بحال ہوا مگر دوسری طرف سرمچاروں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت دو قسم کی قوتیں متحرک ہیں۔ ایک سرمچاروں کا گروہ ہے جو بندوق سے بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے۔
ایک گروہ پاکستان کے آئین کے تحت مسائل کا سیاسی حل کا خواہاں ہے۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ماضی کی حکومتوں کی پیروی کرنے کے بجائے برداشت، درگزر اور براہِ راست مذاکرات کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ اس حکمت عملی سے پاکستان کے آئین کے سایہ میں مسئلہ بلوچستان کے حل کے خواہاں گروہوں کی پوزیشن مستحکم ہوگی۔