معیشت سدھارنے کا فیصلہ عمل کیسے ہوگا

ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں اور چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتائج مثبت آئیں گے؟


محمد مشتاق ایم اے September 13, 2023
نگراں حکومت نے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملک کی معیشت اور سیاست کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال میں چند روز قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں اور چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔ نیوز چینلز نے بھی اپنے نیوز بلیٹن میں اس خبر کو نمایاں طور پر پیش کیا جس میں یہاں تک بتایا گیا کہ حکومت نے ان کاموں میں ملوث اور سہولت کار سرکاری ملازمین اور افسران کی فہرستیں تیار کرلی ہیں اور ان سب کے خلاف تمام متعلقہ ادارے ایکشن میں آچکے ہیں۔


یہ خبر سن کر دل نے اس پر یقین نہ کرنے کے باوجود شکر ادا کیا کہ کوئی تو ایسی خبر اور اعلان سامنے آیا جس پر اگر کماحقہ عمل کیا جائے تو ملک کےلیے خیر کی کئی جہتیں سامنے آسکتی ہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ ایسے اعلانات تو کئی بار پہلے بھی ہوچکے ہیں، آپریشنز شروع بھی کیے گئے مگر عملی طور پر کسی کو بھی حتمی نتائج تک نہ پہنچایا جاسکا۔ کبھی سیاست آڑے آگئی، کبھی سرکاری افسران اور کبھی عدالتیں، الغرض ہم نے کبھی ایسے اعلانات کی بیل منڈھے چڑھتی نہیں دیکھی۔


اگر ملکی تاریخ میں ایک بار بھی مکمل طریقے سے ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جاتی تو ان کو دوبارہ ایسا کرنے کا موقع نہ ملتا۔ ایسے لوگ کچھ دن اپنا کام بند کرکے انڈرگراؤنڈ ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ہی کچھ حکومت کے ساتھ مل کر ان کے فیصلوں کی تائید کرکے چوروں اور اسمگلروں کو ڈھونڈنے میں اس کا ہاتھ بٹانا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر جب یہ کارروائیاں ٹھنڈی ہوتی ہیں تو وہ دوبارہ میدان میں آکر اگلا پچھلا حساب برابر کرلیتے ہیں۔ ماضی کے ان ہی تجربات کی وجہ سے ہمارا دل ابھی یہ ماننے کو تیار نہیں یہ کریک ڈاؤن کون اور کب تک کرے گا۔


نگران حکومت کے پاس اگرچہ منتخب حکومت کے مقابلے میں بہت کم اختیار ہوتے ہیں اور ان کی مدت اقتدار بھی کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے طویل المدتی اقدامات نافذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی لیکن جو بات انھیں منتخب حکومت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے لوگوں سے ووٹ نہیں لیے ہوتے جن کے چھن جانے کا خوف ہو، نہ انہوں نے منتخب نمائندوں کی طرح ہر ہفتے اپنے علاقے کا دورہ کرکے ان کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔


نگران حکومت کا سب سے بنیادی کام تو ظاہر ہے کہ آئین کے مطابق انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی ہر طرح سے مدد کرنا ہے اور پھر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرکے اپنی ڈائریاں اٹھا کر گھروں کو چلے جانا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان کے حکومت میں ہوتے ہوئے ملک میں 'جو جی چاہے وہ کرے' والی پالیسی نافذ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایسی نگراں حکومتوں کے وقت میں جرائم پیشہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ملک میں کوئی مضبوط حکومت نہیں لہٰذا وہ اپنے مکروہ دھندوں کے ذریعے بھرپور قوت سے اپنے مفاد سمیٹنے لگ جاتے ہیں۔ اس سارے کام میں ان کے تانے بانے کسی نہ کسی حکومتی یا پھر پرائیویٹ بااثر افراد کے ساتھ لازمی ملے ہوتے ہیں، کیوں اس کے بغیر ان کا کام ''خیروعافیت'' کے ساتھ مکمل ہونا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔


نگران حکومت نے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے ملکی معیشت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے کیوں کہ اس وقت ملک کی معیشت کی جو دگرگوں حالت ہے اس میں یہی عوامل کارفرما ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بجلی چوری آج کا واقعہ نہیں۔ حکومت کے مطابق سالانہ 589 ارب کی بجلی چوری کی جاتی ہے اور یہ ساری رقم ان لوگوں کے بلوں میں ڈال دی جاتی ہے جو چوری بھی نہیں کرتے اور اپنا بل بھی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کو سراہنے کےبجائے ان گناہوں کی سزا بھی دی جاری ہے جن کے وہ ذمے دار ہی نہیں۔ اسی طرح مختلف اداروں کے چھوٹے بڑے ملازمین کو دی جانے والی مفت بجلی بھی عام لوگوں کے بلوں پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے۔


ذخیرہ اندوزوں نے ایک طرف ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں تو دوسروں طرف غریب آدمی سے مہنگائی کی وجہ سے جینے کا حق تک چھین لیا ہے۔ ہر حکومت میں جب بھی کسی چیز کی کمی ہوتی ہے تو ذخیرہ اندوز دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ یہ ہر حکومت کا مسئلہ رہا ہے لیکن المیہ وہی ہے کہ زبانی کلامی دعووں کی بدولت اس مافیا کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ اسی طرح کرنسی کا کاروبار کرنے والے غیر ملکی کرنسی ذخیرہ کرکے اوپن مارکیٹ میں اس کا ریٹ سرکاری ریٹ کے مقابلے میں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں، جس سے ملک کے بیرونی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے اربوں روپوں کا اضافہ ہوجاتا ہے اور ملک میں ہر چیز مزید مہنگی ہوجاتی ہے۔ حکومت کو مجبوراً درآمدات پر پابندی لگانا پڑجاتی ہے جس سے ملک میں درآمداتی اشیا کی قمیتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوجاتا ہے۔


یہ معاملہ صرف چینی اور ڈالر کے ساتھ نہیں بلکہ ہر اس چیز کے ساتھ ہے جس کی قیمت مستقبل میں بڑھنے کے آثار ہوں یا جس کی دستیابی میں کسی رکاوٹ کا اندیشہ ہو۔ پٹرول، آٹا، ادویی لیں یا سبزی اور دالیں، سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور عام آدمی ہر روز کسی نہ کسی وجہ سے مہنگائی کا خود ساختہ عذاب جھلیتا ہے۔ ساتھ میں حکومت کے یہ بیانات کہ ہر چیز ملک میں وافر مقدار میں موجود ہے اور مقررہ ریٹ پر دستیاب ہے، لوگوں کے غصے میں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔


اب آئیے تیل، چینی اور آٹے کی اسمگلنگ کی طرف، جو آج کا مسئلہ نہیں۔ ہر حکومت نے اس کے خلاف بڑے بڑے اعلانات کیے مگر نتیجہ صفر ہی رہا، کیوں کہ ان اعلانات پر عمل کرنے کےلیے جن فیصلوں کی ضرورت تھی وہ حکومتوں کے بس کی بات نہیں تھی ،کیوں کہ ان میں بہت سے پردہ نشینوں اور الیکٹیبلز کے پر بھی کٹنے کا خدشہ تھا۔ اب نگراں حکومت نے یہ سارے کٹے ایک بار پھر کھول دیے ہیں۔ نگراں حکومت کےلیے یہ بھی بہت اچھی بات ہے کہ ملک کے سپہ سالار اعظم نے بھی اس سارے کام میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، کیوں ان مافیاز کے خلاف ایکشن اور آپریشن ملک میں موجود تمام مقتدرہ اداروں کی دو ٹوک مدد کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے اس میں ہر اس ادارے، ایجنسی اور فرد کو شامل کیا جائے جس کی وہاں ادنیٰ سی بھی ضرورت پڑسکتی ہے اور اس آپریشن کے ٹیمپو کو کم نہ ہونے دیں۔


اگر آپ واقعی یہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کام کو ادھورا مت چھوڑیے اور اسے اس کے منطقی انجام تک ضرور پہنچائیں۔ اس سے ایک طرف عوام آپ کو دعائیں دیں گے تو دوسری طرف حکومت کے بہت سارے وسائل ضائع ہونے سے بچ جائیں گے جو وہ اپنے عوام پر خرچ کرسکتی ہے۔ اب آپ نے بنیادی مسائل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ ہی دیا ہے تو اسے اب درد سے نجات دلا کر ہی چھوڑیے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں