وزیرستان حملے سے مذاکراتی عمل ڈی ریل بیک چینل رابطے بھی ختم
شمالی وزیرستان میں 9سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت نے مذاکرات کا ساراعمل روک دیاہے، حکومتی ذرائع
WASHINGTON, PA, US:
حکو مت اورتحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کاعمل مکمل طورپر رک گیاہے۔
چندروز قبل شمالی وزیرستان میںعسکریت پسندوں کی جانب سے 9 سیکیورٹی اہلکاروں کی بارودی سرنگ کے دھماکے میں شہادت کے بعد نہ صرف مذاکراتی عمل کو شدید دھچکا لگا ہے بلکہ حکومتی ذرائع کے مطابق ''بیک چینل رابطے'' بھی غیرموثر ہوگئے ہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ طالبان کی جانب سے پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔ کچھ سیزفائر کے دوران ہوئے اورکچھ بعد میں رونماہوئے مگر شمالی وزیرستان میں 9سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت نے مذاکرات کا ساراعمل روک دیاہے۔ انھوںنے کہاکہ اس حملے کے بعدسیکیورٹی فورسزکی جانب سے محدودپیمانے پر جوابی کارروائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں میںسیکیورٹی فورسز نے حالیہ چنددنوں میں عسکریت پسندوںکے ٹھکانوں کونشانہ بنایاہے جبکہ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ جنوبی وزیرستان میںبھی اس طرح کی محدود کارروائیاں ہوں۔
حکومتی کمیٹی کے ایک اوررکن نے بھی نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پرمذاکرات کے مکمل طورپر رک جانے کی تصدیق کی۔ انھوںنے کہاکہ ایساکوئی امکان بھی نظرنہیں آرہا کہ مستقبل قریب میں حکومتی کمیٹی کے طالبان مذاکراتی کمیٹی یا پھرطالبان شوریٰ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوجائے۔ ایسالگتا ہے کہ اب کچھ عرصے فوجی کارروائی ہی ہوگی تاہم یہ کارروائی شایدمحدودپیمانے پرہو اورایک بڑافوجی آپریشن نہ ہو۔ یادرہے کہ شمالی وزیرستان میں 9سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت سے قبل حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کو مذاکرات کے لیے بنوں ایئرپورٹ، میرانشاہ اور بلندخیل(اورکزئی ایجنسی)کے مقامات تجویز کیے تھے تاہم طالبان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آرہا تھا۔ طالبان کاالزام ہے کہ ایک توحکومت اعلان کے باوجود طالبان سے وابستہ کچھ غیرجنگجو قیدیوں کورہا نہیں کررہی اور دوسری بات یہ ہے کہ سیزفائر کے باوجود مختلف قبائلی علاقوںمیں طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نے مزید کہاکہ اگرچہ ہم اب سمجھتے ہیںکہ دونوں فریقوںکو مذاکرات ہی کی جانب آناپڑے گا مگرفی الوقت اس کے آثارنظر نہیںآتے اورعملاً مذاکراتی عمل ''ڈی ریل'' ہوچکا ہے۔
حکو مت اورتحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کاعمل مکمل طورپر رک گیاہے۔
چندروز قبل شمالی وزیرستان میںعسکریت پسندوں کی جانب سے 9 سیکیورٹی اہلکاروں کی بارودی سرنگ کے دھماکے میں شہادت کے بعد نہ صرف مذاکراتی عمل کو شدید دھچکا لگا ہے بلکہ حکومتی ذرائع کے مطابق ''بیک چینل رابطے'' بھی غیرموثر ہوگئے ہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ طالبان کی جانب سے پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔ کچھ سیزفائر کے دوران ہوئے اورکچھ بعد میں رونماہوئے مگر شمالی وزیرستان میں 9سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت نے مذاکرات کا ساراعمل روک دیاہے۔ انھوںنے کہاکہ اس حملے کے بعدسیکیورٹی فورسزکی جانب سے محدودپیمانے پر جوابی کارروائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں میںسیکیورٹی فورسز نے حالیہ چنددنوں میں عسکریت پسندوںکے ٹھکانوں کونشانہ بنایاہے جبکہ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ جنوبی وزیرستان میںبھی اس طرح کی محدود کارروائیاں ہوں۔
حکومتی کمیٹی کے ایک اوررکن نے بھی نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پرمذاکرات کے مکمل طورپر رک جانے کی تصدیق کی۔ انھوںنے کہاکہ ایساکوئی امکان بھی نظرنہیں آرہا کہ مستقبل قریب میں حکومتی کمیٹی کے طالبان مذاکراتی کمیٹی یا پھرطالبان شوریٰ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوجائے۔ ایسالگتا ہے کہ اب کچھ عرصے فوجی کارروائی ہی ہوگی تاہم یہ کارروائی شایدمحدودپیمانے پرہو اورایک بڑافوجی آپریشن نہ ہو۔ یادرہے کہ شمالی وزیرستان میں 9سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت سے قبل حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے طالبان کو مذاکرات کے لیے بنوں ایئرپورٹ، میرانشاہ اور بلندخیل(اورکزئی ایجنسی)کے مقامات تجویز کیے تھے تاہم طالبان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آرہا تھا۔ طالبان کاالزام ہے کہ ایک توحکومت اعلان کے باوجود طالبان سے وابستہ کچھ غیرجنگجو قیدیوں کورہا نہیں کررہی اور دوسری بات یہ ہے کہ سیزفائر کے باوجود مختلف قبائلی علاقوںمیں طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نے مزید کہاکہ اگرچہ ہم اب سمجھتے ہیںکہ دونوں فریقوںکو مذاکرات ہی کی جانب آناپڑے گا مگرفی الوقت اس کے آثارنظر نہیںآتے اورعملاً مذاکراتی عمل ''ڈی ریل'' ہوچکا ہے۔