معیشت بحالی کی حکومتی کوششیں

بلاشبہ نگراں حکومت اس بار وہ فیصلے لے گی جوکہ عوام میں غیر مقبول سمجھے جاتے ہیں


Editorial September 14, 2023
فوٹو: فائل

موجودہ نگراں حکومت نے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری کو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد بہت سے شہروں میں اس سلسلے میں کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔

دوسری جانب جنرل عاصم منیر نے معیشت کے حوالے سے اچھے فیصلے کیے ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمتوں کے حوالے سے اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ تھا، بارڈرز پر سختی کر کے اس کو انتہائی کم کر دیا گیا ہے، اسے سراہنا چاہیے، جب کہ خلیجی ممالک اور چین سے بڑی سرمایہ کاری کی توقعات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اورگرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ سنبھل گئی ہے۔

اگر نگران حکومت، ملک میں بجلی چوری، چینی، ایرانی پٹرول اور ڈالر کی اسمگلنگ پر مکمل قابو پا لے تو ملکی معیشت کہیں زیادہ بہتر ہوجائے گی۔ بلاشبہ نگران حکومت اس بار وہ فیصلے لے گی جوکہ عوام میں غیر مقبول سمجھے جاتے ہیں، ان کو آئے ہوئے ابھی ایک ماہ ہوا ہے لیکن ان کے فیصلوں سے لگتا ہے کہ وہ اس بار کچھ نیا کریں گے۔

گزشتہ دنوں نگراں وزیر توانائی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جب تک بجلی کی چوری نہیں رُکتی اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تب تک اُن افراد کے لیے بجلی کی قیمتیں کم نہیں کی جا سکتیں جو باقاعدگی سے اپنے بِل ادا کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی سالانہ چوری بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور اس چوری کی وجہ سے جو لوگ بل ادا کرتے ہیں انھیں بجلی مہنگی ملتی ہے۔

یہ بجلی چوری ٹوٹل بلنگ کا 60% فیصد بنتی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان صرف ان پانچ ڈیسکوز کے اندر 79 ارب یونٹ کی بجلی چوری ہوتی ہے یا تو لوگ بل نہیں دیتے یا بجلی چوری کرتے ہیں جس سے مالی طور پر 1100 ارب روپے اور پشاور، حیدرآباد، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں 489 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔

مردان اور شکار پور میں سرے عام بجلی چوری ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں صوبائی انتظامیہ نے کبھی اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ 60 فیصد لوگ بل ہی نہیں دیتے جس وجہ سے ان کا جتنا بھی بوجھ ہوتا ہے اس کو وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو بل دے رہے ہیں، اسی وجہ سے بل میں اتنا زیادہ اضافہ ہوکر آرہا ہے، جو کمپنیاں بجلی بنا کر دے رہی ہیں، وہ صارف سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں۔

اتنی مہنگی بجلی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اس کے اوپر کام ہی نہیں کیا، نہ کوئی ڈیم بنائے نہ کوئی بجلی گھر بنائے تاکہ عوام کوکچھ ریلیف مل سکتا، اب عوام کو 59 روپے فی یونٹ بل ادا کرنا پڑرہا ہے۔

بجلی چوری کے عمل کو روکنے کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے، تبھی اس کے تھوڑے بہت فوائد سامنے آئیں گے۔ ایک یا دو ماہ کا کریک ڈاؤن اور اس کے بعد خاموشی مسئلے کا حل نہیں ہو گی۔

بارڈر سے ایرانی تیل کا اس طرف آنا اور ہمارے روپے کا ڈالرز میں منتقل ہوکر باہر جانا ہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ یہ اسمگلنگ اسی طرح رک سکتی تھی، جس طرح آرمی چیف نے اپنے ادارے پر سختی کرکے روکنے کا حکم دیا ہے۔ جب بارڈرز محفوظ ہو جائیںگے، پھرکسٹم، ایف آئی اے اور صوبائی پولیس کے لیے روک تھام آسان ہوجائے گی۔

اسی طریقے سے معیشت کسی ایکشن سے نہیں بلکہ ایک مسلسل پراسس کے ذریعے ٹھیک ہوگی۔ اچھے کام پر شاباش اور غلط کام پر باز پرس ہی ہجوم کو قوم بناتا ہے۔اس وقت اہل وطن غیر معمولی مہنگائی کی زد میں ہیں۔ پٹرول اور بجلی بھی اس دور میں ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ '' قیمتوں کے آسمان کو چھونے'' والا محاورہ بھی پامال نظر آتا ہے۔

یہ دو ایسی چیزیں ہیں کہ جب ان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو گویا تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ چوں کہ قیمتوں پرکنٹرول کا بھی کوئی نظام و انتظام نہیں، اس لیے ہر تاجر قیمتوں میں من چاہا اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ دودھ، سبزی، آٹا، دال، چاول، پکوان کا تیل، عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس ضمن میں دیہاڑی دار طبقہ، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔ دوسری جانب مراعات کی آڑ میں مفت کی بجلی کا چلن عام ہے، خود اشرافیہ جو لاکھوں روپے تنخواہیں لیتی ہے، آخرکیوں بجلی کا بل نہیں دیتی، کیوں پٹرول ان کے لیے مفت ہوتا ہے؟ بجلی کی کمپنیاں تو بجلی کی فراہمی کے مصارف لیں گی۔

دراصل مفت بجلی حکومت کی غیر قانونی مہربانی ہے تو بجلی کی کمپنیاں عوام پر بے جا بوجھ مختلف مد میں ڈال کر اپنی رقم کھری کر لیتی ہیں ۔

ان مفت خوروں میں اشرافیہ ہی نہیں، وہ بھی آتے ہیں جو کنڈے لگا کر رضاکارانہ طور پر اپنی بجلی کو مفت تصور کرتے ہیں۔ IMF اس طرف بارہا اشارہ کرچکی ہے کہ مراعات یافتہ لوگوںکی دی گئی مراعات ختم کی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف حاصل ہو، ان کی بات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے نگراں حکومت IMF کے پاس درخواست لے کر چلی گئی کہ ہمیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے بلوں پر قسطیں متعین کرنے دیں۔

جن ترقی پذیر ممالک نے آئی ایم ایف سے 1986تا 2016کے دوران قرضہ لیا۔ ان ممالک کے عوام بنیادی اصلاحات پر پابندی کے زیر اثر اکثریت میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور بنیادی سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ارباب اقتدار اور پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا اور اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کرنا ہوں گی کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے باہر آنا ہے۔ مہنگی بجلی کے منصوبوں سے کیسے جان چھڑانی ہے، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے لانا ہے، بیمار صنعتوں کی بحالی اور عام آدمی کی زندگی میں کیسے آسانیاں لائی جاسکتی ہیں۔

ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہوئی اور اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ اس پر ہمارے نگرانوں کی جانب سے بھی کوئی آواز نہیں آرہی، مہنگائی کے جن پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی اچھی خبر دور دور تک سنائی نہیں دے رہی۔ بجلی کے بلوں نے عوام کا ذہنی سکون چھین لیا ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے ان کے صبر و ہمت کی رہی سہی کسر نکال دی ہے، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور بھی بے لگام ہیں۔ دکاندار من مانے نرخوں پر اشیا فروخت کر رہے ہیں۔

عوام کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں مگر مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں حکومت بے بس نظر آتی ہے شہروں اور قصبوں میں '' بجلی کا بل دیں یا روٹی کھائیں'' کے نعرے پہ مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔

قوم کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ بجلی چورکون ہیں، کتنے بند کارخانوں کو کیپسٹی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں، ٹیکس نادہندوں کا بوجھ بجلی کے بلوں میں متعدد ٹیکسوں کی صورت کیوں عوام پر لادا جارہا ہے اور بجلی کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدے جس اسپیڈ کے ساتھ کیے گئے تھے، اُن سے بھی تو کوئی حساب کتاب لیا جائے۔

ویسے اگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سبسڈی غریبوں کو دو امیروں کو نہیں تو اس میں کیا غلط ہے، بجلی، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور عوام کی تنگ دستی کا شور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس تک جا چکا ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم ہے جب کہ 29 فیصد آبادی 15 سے 29 سال کے جوانوں پر مشتمل ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی جس شرح سے بڑھ رہی ہے اور جتنے جوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے، اس کے لیے اسے اگلے پانچ سالوں میں 45 لاکھ نئے روزگار پیدا کرنے ہوں گے۔ جو بات زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد خصوصاً حاملین ڈگری میں بے روزگاری کی شرح دیگر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان گریجویٹس کو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہے نہ معیشت فارغ ہونے والوں کو جذب کر پا رہی ہے۔ مطلوبہ ہنروں اور فنی مہارت کا حصول روزگار کی فراہمی اور معاشی خوش حالی کے لیے لازمی ہے لیکن بڑی مانگ کے باوجود پاکستان میں خصوصی تکنیکی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں داخلہ کی شرح کم ہے۔ تعلیم اور روزگار کے مابین ایک متحرک رشتہ قائم اور برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

معاشرے کے غریب طبقات میں ترقی کے ثمرات تقسیم کرنے کے لیے اچھے معاوضے اور مناسب ملازمتوں کی فراہمی ایک اہم بنیادی طریقہ کار ہے۔ بیروز گاری کے مسئلے پر قابو پانے کا موثر حل یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کر کے انھیں ہنر مند بنا دیا جائے۔ ہنرمند کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔چار برس سے عالمی معیشت بھی بحران کا شکار چلی آرہی ہے۔ پاکستانی معیشت بھی اس کی زد میں آئی ہے۔

اب بہتری کے اشارے سامنے آ رہے ہیں اور پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے۔

اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں اور سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔

پاکستانی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں