عوامی رہنما اور عوام دوست اعلیٰ پولیس افسر
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں کھجی گراؤنڈ دہشت گردی کا مرکز تھا جہاں سے لاشیں ملتی تھیں
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں جب کراچی میں دہشت گردی عروج پر تھی اور پولیس اہلکاروں نے بھی کراچی میں خود کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے کے لیے تھانوں تک محدود کر لیا تھا۔ پولیس تھانوں کے گیٹ خوف سے بند رکھے جاتے تھے۔
پولیس اہلکار شہر میں وردی پہن کر نکلنا چھوڑ چکے تھے اور آئے دن دہشت گردی کی بڑی وارداتوں، شٹر بند ہڑتالوں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا زور تھا اور شہری ہڑتالوں، قتل و خونریزی سے تنگ آ چکے تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے حالات کی بہتری کے لیے پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر رانا مقبول احمد کو سندھ کا آئی جی پولیس تعینات کیا تھا۔
اس وقت سندھ میں بھی (ن) لیگ ہی کی مخلوط حکومت تھی جس کے وزیر اعلیٰ دادو سے تعلق رکھنے والے لیاقت جتوئیٰ تھے اور متحدہ قومی موومنٹ بھی سندھ حکومت میں شامل تھی۔
دہشت گردی کے باعث عوام ہی نہیں پولیس بھی خوفزدہ تھی اور دونوں ہی ایک دوسرے سے دور اور لاتعلق تھے جس سے سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت بھی پریشان تھی اور کراچی کے حالات سے قومی خزانہ بھی بری طرح متاثر تھا اور دہشت گردی کے خاتمے کا ٹاسک دے کر رانا مقبول احمد کو کراچی بھیجا گیا جن کے لیے پولیس مورال کو فعال کرنا بڑا چیلنج تھا۔
اعلیٰ پولیس افسروں کی مشاورت سے کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور سب سے پہلے پولیس مورال بلند کرنے کے اقدامات کیے گئے اور آئی جی کی کوشش کے موثر نتائج برآمد ہونے لگے تو آئی جی پولیس رانا مقبول احمد نے پولیس اور عوام کو قریب لانے کے لیے پبلک پولیس کمیونٹی سروس کا آغاز کیا اور متعلقہ تھانوں کے فون نمبر درج کرائے گئے۔
دہشت گردی پرکنٹرول کے بعد پولیس موبائلوں نے دن کے علاوہ رات کو بھی پٹرولنگ شروع کردی تھی اور موٹرسائیکلوں پر بھی پولیس اہلکار گشت کرنے لگے تھے۔
آئی جی سندھ دن رات کراچی میں امن کی بحالی کے لیے کوشاں تھے اور عوامی تعاون حاصل کرنے اور پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے پہلی بار پولیس موبائلوں اور موٹرسائیکل پر گشت کرنے والے پولیس اہلکار کو سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ شہریوں کی عزت کریں اور چیکنگ کے لیے روکے جانے پر پولیس اہلکاروں کو شہریوں کو سلام کرنے کا پابند بنایا گیا اور ہدایت کی گئی کہ پولیس اہلکار شہریوں کی مدد کریں اور پولیس موبائلیں رات کو ہنگامی صورت میں دوائیں، دودھ وغیرہ کی فراہمی میں مدد دیں۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں کھجی گراؤنڈ دہشت گردی کا مرکز تھا جہاں سے لاشیں ملتی تھیں اور اجڑ چکا تھا جس کو رانا مقبول نے محفوظ کرایا اور وہاں شہریوں اور پولیس کے ملاپ کی بڑی تقریب منعقد کرائی تھی۔
1999 میں جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو کراچی کے حالات میں بہتری آ چکی تھی جس سے قبل کراچی میں گورنر راج لگا کر غوث علی شاہ کو مشیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔
کراچی میں امن برقرار رکھنے کا صلہ رانا مقبول کو گرفتاری کی صورت میں ملا کیونکہ وہ نواز شریف کے قریب تھے بعد میں رانا مقبول کو رہا اور ان کی ملازمت بحال کی گئی اور ازخود انھوں نے ملازمت کا آخری حصہ لاہور میں او ایس ڈی کے طور پر گزارا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد رانا مقبول کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے معاون خصوصی پھر مشیر بنایا۔ 2018 میں انھیں (ن) لیگ نے سینیٹر منتخب کرایا اور وہ سیاسی زندگی میں بھی لاہور اور اسلام آباد میں لوگوں کی خدمت کرتے رہے اور سینیٹ میں بھی انھوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کا اعتراف اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے 12 ستمبر کو ان کی اچانک وفات پر کیا اور رانا مقبول اپنی زندگی میں نام کی طرح مقبول ہوئے اور خدا سے جا ملے۔
پولیس اہلکار شہر میں وردی پہن کر نکلنا چھوڑ چکے تھے اور آئے دن دہشت گردی کی بڑی وارداتوں، شٹر بند ہڑتالوں اور پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا زور تھا اور شہری ہڑتالوں، قتل و خونریزی سے تنگ آ چکے تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے حالات کی بہتری کے لیے پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر رانا مقبول احمد کو سندھ کا آئی جی پولیس تعینات کیا تھا۔
اس وقت سندھ میں بھی (ن) لیگ ہی کی مخلوط حکومت تھی جس کے وزیر اعلیٰ دادو سے تعلق رکھنے والے لیاقت جتوئیٰ تھے اور متحدہ قومی موومنٹ بھی سندھ حکومت میں شامل تھی۔
دہشت گردی کے باعث عوام ہی نہیں پولیس بھی خوفزدہ تھی اور دونوں ہی ایک دوسرے سے دور اور لاتعلق تھے جس سے سندھ کے ساتھ وفاقی حکومت بھی پریشان تھی اور کراچی کے حالات سے قومی خزانہ بھی بری طرح متاثر تھا اور دہشت گردی کے خاتمے کا ٹاسک دے کر رانا مقبول احمد کو کراچی بھیجا گیا جن کے لیے پولیس مورال کو فعال کرنا بڑا چیلنج تھا۔
اعلیٰ پولیس افسروں کی مشاورت سے کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور سب سے پہلے پولیس مورال بلند کرنے کے اقدامات کیے گئے اور آئی جی کی کوشش کے موثر نتائج برآمد ہونے لگے تو آئی جی پولیس رانا مقبول احمد نے پولیس اور عوام کو قریب لانے کے لیے پبلک پولیس کمیونٹی سروس کا آغاز کیا اور متعلقہ تھانوں کے فون نمبر درج کرائے گئے۔
دہشت گردی پرکنٹرول کے بعد پولیس موبائلوں نے دن کے علاوہ رات کو بھی پٹرولنگ شروع کردی تھی اور موٹرسائیکلوں پر بھی پولیس اہلکار گشت کرنے لگے تھے۔
آئی جی سندھ دن رات کراچی میں امن کی بحالی کے لیے کوشاں تھے اور عوامی تعاون حاصل کرنے اور پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے پہلی بار پولیس موبائلوں اور موٹرسائیکل پر گشت کرنے والے پولیس اہلکار کو سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ شہریوں کی عزت کریں اور چیکنگ کے لیے روکے جانے پر پولیس اہلکاروں کو شہریوں کو سلام کرنے کا پابند بنایا گیا اور ہدایت کی گئی کہ پولیس اہلکار شہریوں کی مدد کریں اور پولیس موبائلیں رات کو ہنگامی صورت میں دوائیں، دودھ وغیرہ کی فراہمی میں مدد دیں۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں کھجی گراؤنڈ دہشت گردی کا مرکز تھا جہاں سے لاشیں ملتی تھیں اور اجڑ چکا تھا جس کو رانا مقبول نے محفوظ کرایا اور وہاں شہریوں اور پولیس کے ملاپ کی بڑی تقریب منعقد کرائی تھی۔
1999 میں جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو کراچی کے حالات میں بہتری آ چکی تھی جس سے قبل کراچی میں گورنر راج لگا کر غوث علی شاہ کو مشیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔
کراچی میں امن برقرار رکھنے کا صلہ رانا مقبول کو گرفتاری کی صورت میں ملا کیونکہ وہ نواز شریف کے قریب تھے بعد میں رانا مقبول کو رہا اور ان کی ملازمت بحال کی گئی اور ازخود انھوں نے ملازمت کا آخری حصہ لاہور میں او ایس ڈی کے طور پر گزارا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد رانا مقبول کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے معاون خصوصی پھر مشیر بنایا۔ 2018 میں انھیں (ن) لیگ نے سینیٹر منتخب کرایا اور وہ سیاسی زندگی میں بھی لاہور اور اسلام آباد میں لوگوں کی خدمت کرتے رہے اور سینیٹ میں بھی انھوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کا اعتراف اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ نے 12 ستمبر کو ان کی اچانک وفات پر کیا اور رانا مقبول اپنی زندگی میں نام کی طرح مقبول ہوئے اور خدا سے جا ملے۔