جنسی اسکینڈل اور ضابطہ اخلاق
ایک بڑے اخبار نے اسکول کے پرنسپل سے پولیس کی تفتیش کی تفصیلات شائع کیں
تعلیمی اداروں میں جنسی اسکینڈل اور ان اسکینڈلز کی سوشل میڈیا پر تشہیر کئی نئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کراچی کے علاقے گلشن حدید میں ایک غیر نجی اسکول کے پرنسپل کا خواتین اساتذہ کے ساتھ اسکینڈل کسی طرح آشکار ہوا۔
اخبارات میں شایع ہونے والی ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ اسکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کو ٹھیک کرنے والے شخص نے ان وڈیوزکو دیکھا۔ پرنسپل کے بقول اس شخص نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
سی سی ٹی وی ٹھیک کرنے والے شخص کو پرنسپل کے قریبی رشتہ داروں نے اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا، یوں معاملہ گلشن حدید پولیس کے علم میں آگیا۔یوں معاملہ پولیس والوں کے ذریعہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ محکمہ تعلیم کے افسروں نے جب تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ یہ اسکول محکمہ تعلیم کے پرائیوٹ اسکولز ونگ میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔
بہرحال ایک اعلیٰ افسر نے صورتحال کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اسکول میں زیر تعلیم دو سو کے قریب طلبہ کے مستقبل کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ان طلبہ کو قریبی اسکولوں میں منتقل کیا جائے گا۔
پولیس اہلکاروں نے صحافیوں کو بتایا کہ کوئی متاثرہ خاتون سامنے نہیں آئی۔ پولیس برآمد کی گئی وڈیوز میں نظر آنے والی خواتین کے پتے تلاش کر رہی ہے۔ کچھ اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ دو خواتین سامنے آئی ہیں۔ ان خواتین نے الزام لگایا کہ اسکول کے پرنسپل نے ملازمت دینے کے لیے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
ایک بڑے اخبار نے اسکول کے پرنسپل سے پولیس کی تفتیش کی تفصیلات شایع کیں۔ ان تفصیلات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرنسپل نے کچھ خواتین سے تعلقات کا اقرارکیا ہے۔
اب پولیس والے اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ کوئی متاثرہ خاتون اپنی شکایت لے کر تھانے نہیں آئی، یوں یہ کیس کمزور ہوگیا ہے۔ پولیس حکام نے مزید کہا کہ کچھ متاثرہ خواتین کے گھروں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز عدالت پہنچنے والی خاتون کا موبائل بھی بند ہے۔ پولیس نے پرنسپل کا موبائل فون اور ڈی وی آر فرانزک کے لیے لاہور بھجوا دیا ہے۔
کراچی پولیس حکام اب مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ سے رابطہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے والے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کی رپورٹر عائشہ انصاری خان کی شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم نے اس معاملہ کی تفصیلی تحقیقات کی اور ایک رپورٹ تیارکی جس میں اس معاملہ کا ایک اور اینگل ظاہر کیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے پرائیوٹ اسکولز ڈائریکٹریٹ کی اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ اسکول کی پانچ خواتین اساتذہ کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں۔
جن کا دعویٰ ہے کہ وڈیو میں نظر آنے والی خواتین اس اسکول کی اساتذہ نہیں ہیں نہ ہی اسکول کے اوقات میں انھوں نے اس قسم کی سرگرمی دیکھی۔ اس اسکول میں 25 خواتین اساتذہ ہیں اور 300 بچے زیرِ تعلیم ہیں جنھیں دیگر اسکولوں میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
اب محکمہ تعلیم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان وڈیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے روکنے کے لیے ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ کو خط لکھ ہی دیا جائے۔
اس افسوس ناک واقعہ کے کئی پہلو انتہائی اہم ہیں۔ گلشن حدید کے علاقہ میں یہ اسکول کافی عرصہ سے کام کررہا تھا۔اسکول کی انتظامیہ نے داخلوں کے لیے کئی اشتہارات شایع کیے ہونگے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے پرائیوٹ اسکولز ونگ کو اس اسکول کا پتہ ہی نہیں چلا۔ کسی افسر نے گلشن حدید کے علاقے کا دورہ نہیں کیا، اگر افسر نے دورہ کیا ہوتا تو یہ اسکول بھی نظر آتا۔ سندھ میں شعبہ تعلیم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا یہ متفقہ بیانیہ ہے کہ محکمہ تعلیم میں ہرکام سفارش اور رشوت سے ہوتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں کی انتظامیہ سے محکمہ تعلیم کے افسروں کے قریبی تعلقات ہوتے ہیں جس کی بناء پر متعلقہ افسر عمومی طور پر اسکولوں کا معائنہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ والدین جب بھی زیادہ فیس وصول کرنے یا کسی اور مسئلہ پر پرائیوٹ اسکولز ڈائریکٹریٹ سے رجوع کرتے ہیں توکوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں آتی۔
ان پرائیوٹ اسکولز ڈائریکٹریٹ کے ایک افسر نے بتایا تھا کہ بعض پرائیوٹ اسکولوں کے مالکان اتنے طاقتور ہیں کہ محکمہ تعلیم کے افسر کے لیے اسکول کا دروازہ ہی نہیں کھولتے۔ جب بھی متعلقہ افسر اسکول کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کرتا ہے تو معاملہ داخلِ دفتر ہوجاتا ہے۔ ان اسکولوں میں اساتذہ کو بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
چند سال قبل بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پبلک ٹرانسپورٹ بس میں ایک لڑکی کو ریپ کر کے قتل کیا گیا تو بھارتی میڈیا نے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق کیا تھا۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت متاثرہ خاتون کا نام تصویر وغیرہ شایع نہیں ہوئیں نہ ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
جب اس لڑکی کے نام سے قانون منظور ہوا تو پھر میڈیا کو اس لڑکی کا نام پتہ چلا۔ چند سال قبل لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر دو افراد نے ایک خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی تھی تو اس خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی، مگر گزشتہ ماہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایسا ہی اسکینڈل سامنے آیا۔
وہاں سے بھی کئی وڈیوز سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل کردی گئی تھیں۔ خواتین کی بہبود کی غیر سرکاری تنظیم وار اگینسٹ ریپ نے اسکول کے واقعہ میں ملوث خواتین کی وڈیوز وائرل ہونے کی شدید مذمت کی ہے۔ وار اگینسٹ ریپ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ بلیک میلنگ کا معاملہ ہے اور اندیشہ ہے کہ اس سے کئی خواتین کی زندگیاں تباہ ہوجائیں۔ وار اگینسٹ ریپ کی پریس ریلیز میں اس واقعہ کی ذمے داری پولیس پر عائد کی گئی ہے۔
اس مقدمہ کے تمام اہم پہلوؤں کے جائزہ سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ مقدمہ کمزور ہے۔ کسی مرد کو سزا نہیں ہوگی مگر جن خواتین کی وڈیوز وائرل ہوگئیں ان کی زندگی اجیرن ہوجائے گی، یوں خلوت کا حق (Right of privacy) پامال ہوا۔ وڈیوز پولیس والوں نے وائرل کی ہوں یا کسی رپورٹر نے ریاست کو احتساب کا فریضہ پورا کرنا چاہیے۔