ہائیکورٹ نے پانچ سال سے ایک دوسرے کیخلاف مقدمہ لڑنے والے جوڑے کی صلح کرا دی
موجودہ حالات میں میاں بیوی کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کا سہارا بنے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے پانچ سال سے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ لڑنے والے جوڑے کے درمیان صلح کراتے ہوئے عدالت سے ہی گھر بھیج دیا۔
فاضل بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو صوابی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اس کے حق میں تین تولے سونا اور پانچ ہزار روپے مہینہ کی ڈگری ہو چکی ہے جبکہ خاوند کے وکیل کا موقف تھا کہ یہ ڈگری غیرقانونی ہے اور زیادہ ہے۔
چیف جسٹس نے میاں بیوی کو روسٹم پر بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا وجوہات ہیں کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، گزشتہ پانچ سال سے آپ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کر رہے ہیں اور اپنے لیے مسائل بھی پیدا کر رہے ہیں جس پر شوہر نے بتایا کہ وہ مزدوری کرتا ہے اور 800 روپے دیہاڑی میں اپنے بچوں اور والدین کو بھی پالتا ہے جبکہ اس کی بیوی کا موقف ہے کہ انہیں علیحدہ سے اضافی پیسے دیے جائیں جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ اس کے کفیل ہیں اور یہ آپ کی زمہ داری ہے کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بیوی کا بھی خیال رکھیں۔
اسی دوران مذکورہ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پانچ سال سے وہ مقدمہ لڑ رہی ہیں جبکہ اس کے شوہر اس کے والدین کے گھر سے پیسے لانے پر مجبور کرتا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے تو صرف پانچ سال اس میں گنوا دیے کہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمے کریں، یہ بہتر ہوتا کہ آپ لوگ آپس میں بیٹھ جائیں کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ ایک خوبصورت رشتہ ہوتا ہے، بیوی کے بغیر مرد اور مرد کے بغیر بیوی نا مکمل ہوتی ہے اس لیے موجودہ حالات میں جب ایک طرف مہنگائی ہے اور معاشرے میں تناو ہے آپ ایک دوسرے کا سہارا بنیں نہ کہ ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کریں۔
بعد ازاں، عدالت نے میاں بیوی کے مابین صلح کروا دی اور ان سے حلف لیا کہ وہ آئندہ خوشی سے رہیں گے جبکہ خاوند کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ ہر مہینے الگ سے ایک رقم بیوی کو دیں گے تاکہ وہ روزمرہ کی اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ عدالتوں کا کام گھروں کو بنانا ہے ہم کسی طور یہ نہیں چاہیں گے کہ لوگوں کے گھروں کو توڑیں بلکہ ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ لوگوں کے گھر بچ سکیں کیونکہ ایک طرف ملک میں یہ حالات ہے جبکہ دوسری جانب گھر میں تناو سے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
عدالت نے میاں بیوی کو عدالت سے ہی شوہر کے گھر میں بھیج دیا اور شوہر کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ کسی صورت اپنی بیوی پر نہ تو کوئی ظلم کرے گا اور نہ ہی غیر ضروری مطالبہ کرے گا۔
فاضل بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو صوابی سے تعلق رکھنے والی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اس کے حق میں تین تولے سونا اور پانچ ہزار روپے مہینہ کی ڈگری ہو چکی ہے جبکہ خاوند کے وکیل کا موقف تھا کہ یہ ڈگری غیرقانونی ہے اور زیادہ ہے۔
چیف جسٹس نے میاں بیوی کو روسٹم پر بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا وجوہات ہیں کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، گزشتہ پانچ سال سے آپ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کر رہے ہیں اور اپنے لیے مسائل بھی پیدا کر رہے ہیں جس پر شوہر نے بتایا کہ وہ مزدوری کرتا ہے اور 800 روپے دیہاڑی میں اپنے بچوں اور والدین کو بھی پالتا ہے جبکہ اس کی بیوی کا موقف ہے کہ انہیں علیحدہ سے اضافی پیسے دیے جائیں جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ اس کے کفیل ہیں اور یہ آپ کی زمہ داری ہے کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بیوی کا بھی خیال رکھیں۔
اسی دوران مذکورہ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پانچ سال سے وہ مقدمہ لڑ رہی ہیں جبکہ اس کے شوہر اس کے والدین کے گھر سے پیسے لانے پر مجبور کرتا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے تو صرف پانچ سال اس میں گنوا دیے کہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمے کریں، یہ بہتر ہوتا کہ آپ لوگ آپس میں بیٹھ جائیں کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ ایک خوبصورت رشتہ ہوتا ہے، بیوی کے بغیر مرد اور مرد کے بغیر بیوی نا مکمل ہوتی ہے اس لیے موجودہ حالات میں جب ایک طرف مہنگائی ہے اور معاشرے میں تناو ہے آپ ایک دوسرے کا سہارا بنیں نہ کہ ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کریں۔
بعد ازاں، عدالت نے میاں بیوی کے مابین صلح کروا دی اور ان سے حلف لیا کہ وہ آئندہ خوشی سے رہیں گے جبکہ خاوند کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ ہر مہینے الگ سے ایک رقم بیوی کو دیں گے تاکہ وہ روزمرہ کی اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ عدالتوں کا کام گھروں کو بنانا ہے ہم کسی طور یہ نہیں چاہیں گے کہ لوگوں کے گھروں کو توڑیں بلکہ ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ لوگوں کے گھر بچ سکیں کیونکہ ایک طرف ملک میں یہ حالات ہے جبکہ دوسری جانب گھر میں تناو سے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
عدالت نے میاں بیوی کو عدالت سے ہی شوہر کے گھر میں بھیج دیا اور شوہر کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ کسی صورت اپنی بیوی پر نہ تو کوئی ظلم کرے گا اور نہ ہی غیر ضروری مطالبہ کرے گا۔