کرتارپورراہداری کے چارسال یاتریوں کی تعداد توقع سے کم رہی

17 نومبر 2021 سے لیکر 31 اگست 2023 کے دوران 6 لاکھ 80 ہزار 381 یاتریوں نے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور کا وزٹ کیا

راہداری کے راستے یاتریوں کی تعداد بڑھانے کے لیے فیملی وزٹ کی اجازت دی جائے، سریندر کھوچر (فوٹو: ایکسپریس )

پاکستان اور انڈیا کے مابین کرتارپور کوریڈرو کو کھلے چارسال ہونے کو ہیں تاہم راہداری کے راستے انڈین یاتریوں کی گوردوارہ دربارصاحب کرتار پور آنے کے حوالے سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں۔

معاہدے کے تحت روزانہ پانچ ہزار یاتری راہداری کے راستے کرتارپورصاحب آسکتے ہیں لیکن یہ تعداد چند سو یاتریوں تک ہی محدود رہی ہے تاہم 1947 میں بچھڑے خاندانوں کا اس کوریڈور کے ذریعے ملاپ ایک بڑی کامیابی ہے۔

پاکستان اوربھارت کے مابین نومبر 2019 میں کرتارپور راہداری کھولی گئی تھی۔ 4.7 کلومیٹر طویل راہداری پنجاب کے ضلع ناروال کی تحصیل شکرگڑھ میں واقع گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور اور بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور کے علاقہ ڈیرہ بابا نانک کو ملاتی ہے۔

9 نومبر 2019 میں باباگورونانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن پر، پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے راہداری کا افتتاح کیا تھا۔

پاکستان اورانڈیا کے مابین ہوئے معاہدے کے تحت راہداری کے راستے روزانہ پانچ ہزار انڈین سکھ یاتری اورنانک نام لیوا گوردوارہ دربارصاحب آسکتے ہیں۔ اس کے لیے بھارتی یاتری کے پاس انڈین پاسپورٹ کا ہونا ضروری ہے جبکہ 20 امریکی ڈالر فیس ہے جو پاکستان وصول کرتا ہے۔

پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کرتارپور کے مطابق 17 نومبر 2021 سے لیکر 31 اگست 2023 یعنی 22 ماہ کے دوران 6 لاکھ 80 ہزار 381 یاتریوں نے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور کا وزٹ کیا ہے۔

ان میں ایک لاکھ 52 ہزار 577 بھارتی یاتری راہداری کے راستے گوردوارہ صاحب حاضری دینے آئے جبکہ 69 ہزار 926 پاکستانی سکھوں ، 4 لاکھ 41 ہزار 772 عام پاکستانی شہریوں جبکہ واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آنیوالے 9 ہزار 791 یاتریوں نے یہاں کا وزٹ کیا۔

ان کے علاوہ 6 ہزار 315 غیرملکی اس اہم تاریخی اورمذہبی مقام کو دیکھنے پہنچے۔ جبکہ گزشتہ سال جولائی میں بھارتی حکام کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ راہداری کے قیام سے لیکر جولائی 2022 تک ایک لاکھ 10 ہزار 670 بھارتی یاتریوں نے گوردوارہ دربارصاحب پرحاضری دی ہے۔

پاکستان سکھ گوردواہ پربندھک کمیٹی کے صدر ،سردارامیرسنگھ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرتارپور کوریڈور دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کی خواہش تھی جسے پاکستان اورانڈیا نے پورا کیا۔


انہوں نے کہا کہ بھارت سے جتنے بھی یاتری آنا چاہیں ہم ان کا استقبال کرنے کے لیے تیارہیں لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے پاسپورٹ کی شرط اوردیگروجوہات کی بنا پر کم تعداد میں یاتری آتے ہیں۔

دوسری طرف انڈیا میں سکھوں کی نمائندہ شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کا کہنا ہے پاسپورٹ کی شرط، 20 ڈالرویزا فیس اور فیملی وزٹ کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یاتریوں کی تعداد کم رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ انڈین گورنمنٹ سے مطالبہ کرتے رہے ہیں اوراب بھی کرتے ہیں کہ پاسپورٹ کی لازمی شرط ختم کرکے شہریت کی تصدیق دیگردستاویزات جن میں ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ پر اجازت مل جانی چاہیے جبکہ پاکستان حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ 20ڈالر کی فیس ختم یا پھرکم کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ یاتری آسکیں۔
اس حوالے سے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) کرتارپور کے ترجمان نے بتایا کہ پاسپورٹ کی شرط اور 20 ڈالر فیس دونوں ملکوں نے باہمی رضامندی سے طے کی تھی۔ دونوں ملکوں نے اکتوبر 2019 میں پانچ سال کے لیے معاہدہ کیا تھا جس پر عمل درآمد کے دونوں ممالک پابند ہیں۔

بھارت کی طرف سے پاسپورٹ کی شرط رکھی گئی تھی جبکہ پاکستان نے 20 ڈالرفیس مقررکی تھی۔ اسی طرح یہ بھی طے پایا تھا کہ روزانہ کم ازکم 15 اورزیادہ سے زیادہ پانچ ہزار یاتری راہداری کے راستے آسکتے ہیں۔ لیکن ابتک ایک ہی دن میں آنیوالے یاتریوں کی تعداد دوہزار سے زیادہ نہیں بڑھ سکی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اوربھارت میں سے اکیلے کوئی بھی شرط ختم نہیں کرسکتا۔ پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد معاہدے پر نظرثانی کی جائے گی۔

کرتارپورکوریڈرو سمیت سکھوں کی تاریخ پرکام کرنیوالے محقق اورسینئرصحافی سریندرکھوچر نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا دونوں ملکوں نے سکھ برادری کے دیرینہ مطالبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کوریڈور توکھول دیا تھا لیکن بدقسمتی سے دونوں طرف کی سیاسی حکومتوں کی باہمی اختلافات کی وجہ سے کرتارپور کوریڈرو پراس طرح سے پیش رفت نہیں ہوسکی جیسی ہونی چاہیے تھی۔

انہوں نے دونوں حکومتوں کو تجویز دی کہ راہداری کے راستے یاتریوں کی تعداد بڑھانے کے لیے فیملی وزٹ کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح اگرکسی جوڑے کی شادی ہوتی ہے اور ماتھاٹیکنے کے لیے دربارصاحب آنا چاہے تو دلہا،دلہن اوران کے رشتہ داروں کو اجازت ملنی چاہیے۔

سکھوں میں بعض افراد کئی روز تک ارداس کرتے ہیں ،ایسے افراد کو بھی اجازت دی جائے اسی طرح سکھوں میں جب کسی بچے کوپہلی بارسرپرپگڑی باندھی جاتی ہے تو یہ اس بچے کے خاندان کے لیے بہت خاص دن ہوتا ہے، اس کے لیے اجازت دی جائے تو یقینا ان اقدامات سے یاتریوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

ماہرین کے مطابق یہ حقیقت کہ راہداری کے راستے یاتریوں کی تعداد توقع سے انتہائی کم رہی ہے لیکن کوریڈرو کے ذریعے 1947 میں بچھڑجانیوالے کئی خاندانوں کا ملاپ ضرور ہوا ہے جوایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
Load Next Story