قصہ کراچی کے چوتھے دلیپ کمار کا پہلا حصہ
موسیقی ان کی زندگی کا حصہ تھی اور موسیقی کو ہی انھوں نے اپنی روزی کا وسیلہ بنا کے رکھا تھا
جس نے کبھی دلیپ کمار بننے کے خواب نہیں دیکھے، جسے کبھی اداکاری کا شوق نہیں تھا، یہ نو عمری میں کرکٹ کا شوقین تھا اور اسے موسیقی سے دلچسپی تھی اس کی آواز اچھی تھی اس کی آواز میں سروں کا رچاؤ بھی تھا لیکن موسیقی کے اسلوب اور گائیکی کے صحیح ڈھنگ سے ابھی واقف نہیں تھا مگر دل کے کسی کونے میں ایک خواہش نے ضرور جنم لیا تھا کہ یہ بھی کبھی ایک مشہور سنگر بن کر موسیقی کی دنیا میں اپنی آواز کا جادو جگائے۔
ہم چند دوست جو بہت کلوز تھے ان میں مشہور سارنگی نواز اور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندو خاں کا بھانجا امیر احمد خان (بعد کا استاد امیر احمد خان) نذیر بیگ اور شاعر سلیم جعفری ایک ہی کلاس میں ہوتے تھے، ہر سال انٹرکالجیٹ میوزک کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ اسلامیہ کالج سے امیر احمد خان جو خود بہت اچھا غزل سنگر تھا اور کلاسیکی موسیقی سے بھی واقف تھا۔
اس میوزک کے مقابلے میں امیر احمد خان اپنے ساتھ نذیر بیگ کو بھی ریہرسل کرانے لے جاتا تھا اور اس طرح یہ دونوں موسیقی کے مقابلے میں ٹرافی لے کر آتے تھے، یہاں میں بتاتا چلوں کہ ہماری کلاس میں مشہور موسیقار خلیل احمد کا ایک بھائی کفیل احمد بھی ہوتا تھا مگر اسے نہ موسیقی سے دلچسپی تھی اور نہ ہی گائیکی کا شوق تھا۔ ہمارے کالج میں ہفتے کو ہاف ڈے ہوتا تھا اور کئی دوست جن میں امیر احمد خان پیش پیش ہوتا تھا۔
وہ ہفتے کو اپنے گھر سے جو کالج کے نزدیک ہی تھا اپنا ہارمونیم لے کر آتا تھا اور پھر سلیم جعفری، نذیر بیگ، کفیل احمد اور دو تین اور خاص دوست غیاث وہاب خان، آغا جہانگیر (بعد کا ریڈیو اناؤنسر) سعید کاشانی روم کا دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھر موسیقی کی محفل سجائی جاتی تھی۔
گانے والے سنگر دو ہی ہوتے تھے۔ امیر احمد خان اور نذیر بیگ، پھر خوب محفل جمتی تھی۔ یہ چند مخصوص دوستوں کی بیٹھک ہوتی تھی۔ امیر احمد خان محمد رفیع کے چند مشہور گیت اور خاص طور پر نیم کلاسیکل مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے جب آنکھیں بند کرکے ہارمونیم بجا کر گاتا تھا تو ہم سب دوست کسی اور ہی دنیا میں چلے جاتے تھے۔
امیر احمد خان کی غزل گائیکی لاجواب ہوتی تھی پھر امیر احمد خان ہارمونیم چھیڑتا تھا اور نذیر بیگ گلوکار مکیش کے مشہور گیت گاتا تھا۔ اس کی آواز میں وہ گیت ہمیں بڑے اچھے لگتے تھے۔ امیر احمد خان نے اس کو مکیش کے چند گیتوں کی بڑی اچھی ریہرسل کرائی ہوئی تھی اور نذیر بیگ بھی وہ گیت سروں میں ڈوب کر گاتا تھا۔ دھیمے دھیمے سروں میں نذیر بیگ کی آواز بھی ایک سماں باندھ دیتی تھی۔ نذیر بیگ جو گیت گاتا تھا ان میں قابل ذکر گیت یہ ہوتے تھے:
چاند آہیں بھرے گا
پھول دل تھام لیں گے
حسن کی بات چلی تھی
سب ترا نام لیں گے
٭٭
چھوٹی سی یہ زندگانی رے
چار دن کی جوانی رے
٭٭
مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو
جس کی آواز رُلا دے مجھے وہ ساز نہ دو
امیر احمد خان کے ہارمونیم کی سنگت میں نذیر بیگ کی آواز بھی بڑا جادو جگاتی تھی، موسیقی کی اس محفل نے ہم چند ساتھیوں کو کالج کے آخری سال تک یکجا کیے رکھا تھا۔ بی اے کرنے کے بعد کالج کی خوبصورت زندگی نے آگے جانے کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔
امیر احمد خان، غیاث وہاب خان اور میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور ہمارے ایک کلاس فیلو سعید کاشانی جو مشہور ہاکی پلیئر عبدالوحید خان کا چھوٹا بھائی تھا، اس نے اپنی ساری توجہ ہاکی کے کھیل پر مرکوز کردی تھی اور کسٹم کے محکمے میں ملازمت کرلی تھی۔ آغا جہانگیر نے بطور صداکار ریڈیو پاکستان کراچی سے رشتہ جوڑ لیا تھا۔
نذیر بیگ اپنی تنہائی میں ہی اپنی گائیکی کو فروغ دیتا تھا۔ محمد رفیع اور مکیش کے گانے سنتا تھا اور پھر اس نے فنکشنوں میں بھی گانا شروع کردیا تھا ابھی تک اس نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر اپنے کمرے میں چھپ چھپ کر کبھی کبھی ریاض بھی کر لیتا تھا نذیر بیگ فارغ وقت میں کرکٹ بھی کھیلتا تھا اور کرکٹ کے میچز میں حصہ لیا کرتا تھا جب اس نے کراچی کی موسیقی کی محفلوں اور فنکشنوں میں حصہ لینا شروع کیا تو اس کی دوستی گلوکار اخلاق احمد، تحسین جاوید، عباس بھائی اور مسعود رانا سے بھی ہوگئی تھی اسی دوران بہت ہی کم عمر گلوکار جمال اکبر شادی بیاہ کے فنکشنوں میں حصہ لیتا تھا جمال اکبر مہدی حسن کے گیتوں کا شیدائی تھا اور فنکشنوں میں زیادہ تر مہدی حسن کے گیت و غزلیں گاتا تھا۔ اس دوران مسعود رانا، اخلاق احمد اور نذیر بیگ نے اپنا ایک گروپ بنا لیا تھا اور کراچی کے فنکشنوں میں یہ تینوں دوست مل کر جاتے تھے اور اپنی گائیکی کا جادو جگاتے تھے۔
اسی دوران نذیر بیگ کی موسیقار نثار بزمی سے ملاقات ہوگئی جو نئے نئے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے کافی فلموں میں موسیقی دے کر پھر وہاں کے ماحول سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان آگئے تھے نذیر بیگ کی خوش قسمتی کہ ایک نامور موسیقار کی معاونت میسر آگئی تھی۔
نذیر بیگ موسیقار نثار بزمی کے گھر اکثر و بیشتر شام کو جایا کرتا تھا وہ شام کو اپنے گھر پر اپنے چند شاگردوں کو موسیقی سکھاتے تھے، ان کی موسیقی کی کلاس میں کبھی کبھی نذیر بیگ بھی پہنچ جاتا تھا اور گائیکی کے کچھ انداز سیکھنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔ نثار بزمی کو ابھی تک کسی فلم ساز نے موسیقی کی آفر نہیں دی تھی مگر نثار بزمی کو امید تھی کہ جلد ہی امید کی کوئی کرن پھوٹے گی اور ان کا دامن خوشیوں سے بھر دے گی۔
نثار بزمی بہت اللہ والے تھے اور پانچوں وقت کے نمازی بھی تھے موسیقی ان کی زندگی کا حصہ تھی اور موسیقی کو ہی انھوں نے اپنی روزی کا وسیلہ بنا کے رکھا تھا، اس زمانے میں سولجر بازار میں ایک کلب بھی ہوا کرتا تھا جس کے منیجر مجید خان تھے۔
اس کلب میں مختلف قسم کی تقاریب، کانفرنسیں اور موسیقی کی محفلیں بھی ہوتی تھیں، کلب کے صدر مجید خان صاحب ہوتے تھے ان کا گہرا کالا رنگ تھا، مگر دل کے بہت گورے تھے ان کے چند بے تکلف دوست ان کو پیار سے مجید کالیا بھی کہہ کر پکار لیتے تھے اور مجید خان صاحب دوستوں کا کبھی برا نہیں مناتے تھے۔
(جاری ہے)
ہم چند دوست جو بہت کلوز تھے ان میں مشہور سارنگی نواز اور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندو خاں کا بھانجا امیر احمد خان (بعد کا استاد امیر احمد خان) نذیر بیگ اور شاعر سلیم جعفری ایک ہی کلاس میں ہوتے تھے، ہر سال انٹرکالجیٹ میوزک کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ اسلامیہ کالج سے امیر احمد خان جو خود بہت اچھا غزل سنگر تھا اور کلاسیکی موسیقی سے بھی واقف تھا۔
اس میوزک کے مقابلے میں امیر احمد خان اپنے ساتھ نذیر بیگ کو بھی ریہرسل کرانے لے جاتا تھا اور اس طرح یہ دونوں موسیقی کے مقابلے میں ٹرافی لے کر آتے تھے، یہاں میں بتاتا چلوں کہ ہماری کلاس میں مشہور موسیقار خلیل احمد کا ایک بھائی کفیل احمد بھی ہوتا تھا مگر اسے نہ موسیقی سے دلچسپی تھی اور نہ ہی گائیکی کا شوق تھا۔ ہمارے کالج میں ہفتے کو ہاف ڈے ہوتا تھا اور کئی دوست جن میں امیر احمد خان پیش پیش ہوتا تھا۔
وہ ہفتے کو اپنے گھر سے جو کالج کے نزدیک ہی تھا اپنا ہارمونیم لے کر آتا تھا اور پھر سلیم جعفری، نذیر بیگ، کفیل احمد اور دو تین اور خاص دوست غیاث وہاب خان، آغا جہانگیر (بعد کا ریڈیو اناؤنسر) سعید کاشانی روم کا دروازہ بند کرلیتے تھے اور پھر موسیقی کی محفل سجائی جاتی تھی۔
گانے والے سنگر دو ہی ہوتے تھے۔ امیر احمد خان اور نذیر بیگ، پھر خوب محفل جمتی تھی۔ یہ چند مخصوص دوستوں کی بیٹھک ہوتی تھی۔ امیر احمد خان محمد رفیع کے چند مشہور گیت اور خاص طور پر نیم کلاسیکل مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے جب آنکھیں بند کرکے ہارمونیم بجا کر گاتا تھا تو ہم سب دوست کسی اور ہی دنیا میں چلے جاتے تھے۔
امیر احمد خان کی غزل گائیکی لاجواب ہوتی تھی پھر امیر احمد خان ہارمونیم چھیڑتا تھا اور نذیر بیگ گلوکار مکیش کے مشہور گیت گاتا تھا۔ اس کی آواز میں وہ گیت ہمیں بڑے اچھے لگتے تھے۔ امیر احمد خان نے اس کو مکیش کے چند گیتوں کی بڑی اچھی ریہرسل کرائی ہوئی تھی اور نذیر بیگ بھی وہ گیت سروں میں ڈوب کر گاتا تھا۔ دھیمے دھیمے سروں میں نذیر بیگ کی آواز بھی ایک سماں باندھ دیتی تھی۔ نذیر بیگ جو گیت گاتا تھا ان میں قابل ذکر گیت یہ ہوتے تھے:
چاند آہیں بھرے گا
پھول دل تھام لیں گے
حسن کی بات چلی تھی
سب ترا نام لیں گے
٭٭
چھوٹی سی یہ زندگانی رے
چار دن کی جوانی رے
٭٭
مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو
جس کی آواز رُلا دے مجھے وہ ساز نہ دو
امیر احمد خان کے ہارمونیم کی سنگت میں نذیر بیگ کی آواز بھی بڑا جادو جگاتی تھی، موسیقی کی اس محفل نے ہم چند ساتھیوں کو کالج کے آخری سال تک یکجا کیے رکھا تھا۔ بی اے کرنے کے بعد کالج کی خوبصورت زندگی نے آگے جانے کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔
امیر احمد خان، غیاث وہاب خان اور میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور ہمارے ایک کلاس فیلو سعید کاشانی جو مشہور ہاکی پلیئر عبدالوحید خان کا چھوٹا بھائی تھا، اس نے اپنی ساری توجہ ہاکی کے کھیل پر مرکوز کردی تھی اور کسٹم کے محکمے میں ملازمت کرلی تھی۔ آغا جہانگیر نے بطور صداکار ریڈیو پاکستان کراچی سے رشتہ جوڑ لیا تھا۔
نذیر بیگ اپنی تنہائی میں ہی اپنی گائیکی کو فروغ دیتا تھا۔ محمد رفیع اور مکیش کے گانے سنتا تھا اور پھر اس نے فنکشنوں میں بھی گانا شروع کردیا تھا ابھی تک اس نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر اپنے کمرے میں چھپ چھپ کر کبھی کبھی ریاض بھی کر لیتا تھا نذیر بیگ فارغ وقت میں کرکٹ بھی کھیلتا تھا اور کرکٹ کے میچز میں حصہ لیا کرتا تھا جب اس نے کراچی کی موسیقی کی محفلوں اور فنکشنوں میں حصہ لینا شروع کیا تو اس کی دوستی گلوکار اخلاق احمد، تحسین جاوید، عباس بھائی اور مسعود رانا سے بھی ہوگئی تھی اسی دوران بہت ہی کم عمر گلوکار جمال اکبر شادی بیاہ کے فنکشنوں میں حصہ لیتا تھا جمال اکبر مہدی حسن کے گیتوں کا شیدائی تھا اور فنکشنوں میں زیادہ تر مہدی حسن کے گیت و غزلیں گاتا تھا۔ اس دوران مسعود رانا، اخلاق احمد اور نذیر بیگ نے اپنا ایک گروپ بنا لیا تھا اور کراچی کے فنکشنوں میں یہ تینوں دوست مل کر جاتے تھے اور اپنی گائیکی کا جادو جگاتے تھے۔
اسی دوران نذیر بیگ کی موسیقار نثار بزمی سے ملاقات ہوگئی جو نئے نئے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے کافی فلموں میں موسیقی دے کر پھر وہاں کے ماحول سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان آگئے تھے نذیر بیگ کی خوش قسمتی کہ ایک نامور موسیقار کی معاونت میسر آگئی تھی۔
نذیر بیگ موسیقار نثار بزمی کے گھر اکثر و بیشتر شام کو جایا کرتا تھا وہ شام کو اپنے گھر پر اپنے چند شاگردوں کو موسیقی سکھاتے تھے، ان کی موسیقی کی کلاس میں کبھی کبھی نذیر بیگ بھی پہنچ جاتا تھا اور گائیکی کے کچھ انداز سیکھنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔ نثار بزمی کو ابھی تک کسی فلم ساز نے موسیقی کی آفر نہیں دی تھی مگر نثار بزمی کو امید تھی کہ جلد ہی امید کی کوئی کرن پھوٹے گی اور ان کا دامن خوشیوں سے بھر دے گی۔
نثار بزمی بہت اللہ والے تھے اور پانچوں وقت کے نمازی بھی تھے موسیقی ان کی زندگی کا حصہ تھی اور موسیقی کو ہی انھوں نے اپنی روزی کا وسیلہ بنا کے رکھا تھا، اس زمانے میں سولجر بازار میں ایک کلب بھی ہوا کرتا تھا جس کے منیجر مجید خان تھے۔
اس کلب میں مختلف قسم کی تقاریب، کانفرنسیں اور موسیقی کی محفلیں بھی ہوتی تھیں، کلب کے صدر مجید خان صاحب ہوتے تھے ان کا گہرا کالا رنگ تھا، مگر دل کے بہت گورے تھے ان کے چند بے تکلف دوست ان کو پیار سے مجید کالیا بھی کہہ کر پکار لیتے تھے اور مجید خان صاحب دوستوں کا کبھی برا نہیں مناتے تھے۔
(جاری ہے)