مہنگائی کا عذاب

ملک مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے، لیکن کسی کو پرواہ نہیں، بس اقتدار سے چمٹے رہنا ہی ان کا نصب العین ہے

fatimaqazi7@gmail.com

کیا حال ہوگیا ہے ہمارا، ایک مستقل کشکول ہماری قسمتوں کے ساتھ چپک گیا ہے، جو شاید کبھی نہ اترے۔ ملک مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے، لیکن کسی کو پرواہ نہیں، بس اقتدار سے چمٹے رہنا ہی ان کا نصب العین ہے۔ جو بھی آتا ہے وہ صرف ایک بچہ جمورا ہوتا ہے۔

جو ایک خاص اشاروں اور آواز پرچلتا ہے۔ جوں ہی وہ ذرا بھی آواز کے برعکس چلا، آواز دینے والا فوراً ہی اسے اس کی اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں، پھر تحریک انصاف کو لایا گیا کہ پہلی دونوں جماعتوں نے '' اقتدار کے رکھوا لوں'' کو بہت مایوس کیا تھا۔

تحریک انصاف کو لانے کے لیے کیا کیا سیاسی جوڑ توڑ کیے گئے، کیسے ان کی جھولی میں آزاد امیدوار ڈالے گئے، لیکن چیئرمین تحریک انصاف نے آتے ہی مہنگائی کا جو طوفان بدتمیزی مچایا اس نے لوگوں کو ان سے بدظن کردیا۔

ان کے وزیروں نے گندم اور چینی باہر بھیجنی شروع کردی، لیکن چیئرمین تحریک انصاف یعنی وزیر اعظم پاکستان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، کیونکہ یہ ان کا کام ہی نہ تھا، انھیں تو بس اقتدار کی کرسی اس لیے بخشی گئی تھی کہ وہ اشاروں کی زبان سمجھیں اور عمل کریں، لیکن جب انھیں سمجھ نہ آئی تو راتوں رات انھیں فارغ کر دیا گیا، لیکن ان کے بعد افراتفری میں جن کو لایا گیا ان کے گریبان الزامات اور مقدمات سے اٹے پڑے تھے لیکن جلد ہی انھیں کلین چٹ دے دی گئی۔

قوم نے سر پیٹ لیا یہ کیا ہوا؟ کن کے اشاروں پر ہوا؟ اور کیوں ہوا؟ اب پھر الزامات کی لمبی فہرست ہے، لیکن کچھ لوگ ان کے اڈیالہ جیل جانے سے خوش ہیں، خاص کر پنشنرز، سرکاری، ریٹائرڈ خواتین و حضرات کو جب یہ پتا چلا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے تو آتے ہی کہا تھا کہ ''پنشن بند کر دی جائے کیونکہ یہ لوگ سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں۔'' یہ ان لوگوں کا رزق چھین لینا چاہتے تھے جو اپنی پنشن پر زندہ ہیں۔

ایسا لگتا ہے اللہ کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی اسی لیے وہ اقتدار سے الگ ہوئے۔ سرکاری ملازمت کا یہی تو ایک چارم ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملے گی۔ البتہ جو لوگ بعد میں آئے انھوں نے فیملی پنشن اٹھارہ سال کے بجائے دس سال کر دی، لیکن جو مہنگائی کا طوفان تحریک انصاف لے کر آئی تھی اس کو ان کے بعد آنے والوں نے دس گنا بڑھا دیا۔

اب یہ حال ہے کہ ایک بلب یا دو بلب اور ایک پنکھا چلانے والوں کا بل آٹھ سے دس ہزار آ رہا ہے اور بعض جگہوں پر بارہ سے پندرہ ہزار بھی ، کوئی پرسان حال نہیں ہے، جو کنڈے کی بجلی استعمال کرتے ہیں وہ مزے میں، کے الیکٹرک کے لوگ آ کر خود کنڈا فٹ کرتے ہیں اس کا معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ کے الیکٹرک کے ذمے داروں اور وزیر پانی و بجلی کو سب پتا ہے کہ کہاں کہاں بجلی چوری کی جا رہی ہے اور کہاں کہاں کنڈے لگے ہیں۔

آپ مارکیٹوں کی طرف نکل جائیے یا کچی آبادیوں کی طرف، ہر جگہ آپ کو کنڈا نظر آئے گا اور کنڈوں کی بجلی کا سارا لوڈ ان صارفین کے میٹروں پر پڑتا ہے جو باقاعدہ قطار میں لگ کر بل ادا کرتے ہیں۔

مہنگائی جس طرح ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی جا رہی ہے اس کی روک تھام کون کرے گا؟ ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ملک میں کسی کی حکومت نہیں، کوئی سبزی دو سو روپے سے کم نہیں، انڈے پہلے ڈھائی سو روپے درجن مل رہے تھے، پھر 180 روپے ہوئے اور آج میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تو انڈوں کی قیمت 320 روپے ہو چکی ہے۔ آگے آنے والے مہینوں میں انڈوں کی قیمت کہاں تک جاتی ہے یہ سوچ کر اوسان خطا ہوتے ہیں، پھل ہیں کہ ان کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔


ہر چیز کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں، دراصل کوئی محکمہ ان ہول سیلر اور خوردہ فروشوں کو چیک کرنے والا نہیں۔ ایک ہی مارکیٹ میں ایک ہی چیز کے تین ریٹ ہیں، آپ احتجاج کیجیے تو جواب ملتا ہے، یہاں تو یہی ریٹ ہیں، آپ کو لینا ہو لیں ورنہ کہیں اور سے لے لیں۔ دودھ، دہی کی سرکاری قیمتیں کچھ اور ہیں ، لیکن دھڑلے سے من مانی قیمتوں پر بیچا جا رہا ہے، بس غالب کا مصرعہ یاد آتا ہے کہ:

رویے زار زار کیوں، کیجیے ہائے ہائے کیوں

پاکستان معرض وجود میں آ تو گیا لیکن اسے کوئی ایمان دار اور باصلاحیت حکمران نہیں ملا، کاش ہمارے ہاں بھی کوئی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کی سطح کا ہوتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ ملک کے بنتے ہی کچھ عرصے بعد قائد اعظم کا انتقال ہوگیا، ان کی ایمبولینس کیوں خراب ہوئی اور کس کے حکم پر ہوئی یہ اب سب کو معلوم ہے۔

طالع آزما اکٹھے ہو چکے تھے جنھوں نے سازش کر کے لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا، اور قاتل سید اکبر کی بیوی اور بچوں کو ایبٹ آباد میں تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں، ابتداً جب ہندوستان میں جواہر لال نہرو برسر اقتدار تھے تو یہاں اسکندر مرزا اور غلام محمد تھے، ایک معذور آدمی جو ٹھیک سے بات نہیں کر سکتا، پھر جس قدر وزرائے اعظم آئے اور گئے ان کے متعلق مولانا کوثر نیازی نے سچ کہا کہ سابق وزرا اعظم کا علیحدہ قبرستان ہونا چاہیے۔

پھر ایوب خان آئے، ان کے بیٹوں نے اور خود انھوں نے کراچی میں پٹھانوں اور اردو اسپیکنگ لوگوں میں جھگڑا کرا دیا، فاطمہ جناح کو جان بوجھ کر ہرایا گیا، پھر بھٹو صاحب آئے وہ ذہین تھے لیکن ذرا سی بھی مخالفت برداشت نہیں کر سکتے تھے، انھوں نے جے۔اے۔رحیم کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کتابوں میں درج ہے۔ جے اے رحیم وہ شخص تھے جنھوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو پیپلز پارٹی کے ایک مضبوط رکن تھے۔

بھٹو صاحب بنیاد طور پر ایک وڈیرے تھے اور جاگیردرانہ سوچ رکھتے تھے، آخر انجام کیا ہوا؟ لیکن آج بھی پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر زندہ ہے۔ بھٹو کی لاش پر ووٹ لیے جا رہے ہیں اور اسی لیے بلاول زرداری کے نام میں بھٹو کا اضافہ کیا گیا، آصف زرداری خوب ہیں ان کی سیاست اس لیے کامیاب ہے کہ وہ وہی کرتے ہیں جو ان سے مقتدرہ کہتی ہے۔

ہم نے صرف حماقتیں کی ہیں، ہم مغربی ممالک کے آلہ کار بنے رہے۔ افغانستان میں خود کو پھنسا کر افغانیوں اور ہیروئن کا تحفہ ضیا الحق کے دور میں لے آئے پوری قوم آج تک ضیا الحق کی ناقص پالیسیوں کی سزا بھگت رہی ہے، اور چالیس سال تک افغانستان کے مسائل کا بوجھ اٹھاتے رہے، اس کا نتیجہ آج طالبان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

ہندوستان سے ہم نے بلاوجہ ازلی دشمنی پال رکھی ہے، آج بھارت کو دیکھیے کہاں سے کہاں تک پہنچ چکا ہے، 1965 کی جنگ تک ہم اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ 65 کی جنگ میں خدا ہمارے ساتھ تھا اور لوگوں نے آسمان سے فرشتوں کو اترتے دیکھا۔ پھر 1971 میں کیا ہوا؟ آدھا ملک گنوا دیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 65 میں فتح اللہ کی مدد تھی تو کیا 1971 میں شاید خدا کی مدد شامل نہیں تھی؟ ہر سال 65 کی جنگ کا ذکر ہوتا ہے نغمے بجائے جاتے ہیں لیکن 71 کے سانحے پر بات نہیں کی جاتی۔

نوے ہزار فوجی بھارت کے قیدی بنے ان کا کبھی ذکر نہیں ہوتا، جنرل نیازی نے بھارتی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈالے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ سارا نظام ہمارا جھوٹ پر مبنی ہے، ہم دراصل وہ شتر مرغ ہیں جو خطرے کو دیکھ کر ریت میں منہ چھپا لیتا ہے۔ کاش ہم ان مفروضوں سے باہر آسکتے کہ پاکستان خدا کی مرضی سے وجود میں آیا ہے۔ صورت حال تو کچھ اور ہی نظر آتی ہے۔ خدا ہمیں ان مفروضوں سے نجات دلائے۔
Load Next Story