امید اور خدشات کے سائے

لوگوں کو لگتا ہے کہ حالات میں بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ درستگی کا عمل اگر ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہے


سلمان عابد September 15, 2023
[email protected]

مجموعی طورپر آپ اوپر سے لے کر نچلی سطح تک یا مختلف طبقات میں ہونے والی گفتگو کا تجزیہ کریں تو اس میں ایک ردعمل کی سیاست کو طاقت مل رہی ہے ۔

ردعمل مثبت کم اور منفی زیادہ ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حالات میں بگاڑ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ درستگی کا عمل اگر ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہے۔

بظاہر ہم معاشی جکڑ بندی کا شکار ہیں اور جو لوگ درمیانی یا کم درمیانے طبقہ کے ہیں ان کے معاشی مسائل یا آسودگی کا پہلو سمجھ میں آتا ہے ۔لیکن ایک وہ طبقہ جو بظاہر خوشحال ہے اور اس کو کم ازکم کوئی معاشی پریشانی نہیں اس کی گفتگو میں بھی پریشانی ، مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت موجود ہے ۔

کیونکہ سیاست ہو، جمہوریت ہو، آئین ہو ، قانون ہو، معیشت ہو سب کی عدم فعالیت نے کئی طرح کے سوالات کو نمایاں کردیا ہے ۔ جو باتیں کل تک پردہ اسکرین کے پیچھے تھیں یا ان پر مجموعی طور پر کوئی فکری مغالطے یا تضادات یا ابہام تھے وہ بھی سب کے سامنے نمایاں ہوگئی ہیں ۔

لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل لگ رہا ہے کہ ہمارے جو خواب ، تصورات ، خواہشیں ، فکر یا خیالات تھے ان کو بڑی ہی شدت سے ضرب کاری لگی ہے۔ ہمیں ایسے لگتا ہے کہ جو کچھ ہمیں بتایا گیا تھا یا دکھایا گیا وہ محض ایک بناوٹی حکمت عملی کا حصہ ہے۔کیونکہ جو حقایق ہیں وہ تلخ بھی ہیں اور ہمیں آگے کا راستہ دکھانے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہیں۔

مسئلہ محض معیشت کی بدحالی تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک ذہنی سطح کی آسودگی بھی ہے اور نفسیاتی طور پر ہمیں مختلف ابہام یا بیماری کا شکار ہوگئے ہیں۔کیونکہ نفسیاتی سطح کی جو سوچ غالب ہورہی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے یا ہماری حیثیت محض ایک تماشائی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔

اگرچہ لوگوں میں مایوسی ہے لیکن اس کے باوجود ان میں کسی نہ کسی سطح پر مزاحمتی پہلو ہے اور اس کا اظہار قومی سطح پر ہمیں مختلف نوعیت کی سیاسی جھلکیوں یا عوامی ردعمل کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے۔لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں اور خاص طور پر نوجوان وہ سوالات بھی اٹھارہے ہیں جو ماضی میں نہیں اٹھائے جاتے تھے۔

سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا میں موجود مباحث ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ سوالات یا بڑے نکات اٹھانے پر بضد ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ لوگ مایوس ہوگئے ہیں اور ان کا عوامی ردعمل بھی نظر نہیں آرہا ۔ کچھ سماجیات یا سیاسیات کے استاد اسے شکست و ریخت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن جو لاوا پک رہا ہے وہ آج نہیں تو کل اپنا ردعمل ضرور دے گا۔

تکالیف کی تعداد محدود نہیں ہر شعبہ کی کہانی دوسرے شعبہ کی کہانی سے مختلف ہے ۔یہ بربادی آج نہیں بلکہ کئی دہائیوں کی ہماری پالیسیوں ہی سے جڑی ہوئی ہے۔ ہماری تجربہ گاہ ہمارے ہی ہاتھوں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ہمیں پرانے خیالات، جذباتی نعروں اور فکری مغالطوں سے خود بھی باہر نکلنا ہے اور دوسروں کو بھی باہر نکالنا ہے۔

ہم ماضی سے اور ماضی کی اختیار کی گئی حکمت عملیوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ آج کی جدیدیت پر مبنی ریاستوں کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے روائتی اور فرسودہ نظام کو بنیاد بنا کر اپنی طاقت کی حکمرانی کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ۔

مسئلہ مایوسی کا نہیں بلکہ ان حالات میں امید کے پہلوؤں کو نئی طاقت یا نئی روشنی دینے سے جڑا ہوا ہے ۔ لوگوں کو مستحکم کرنا ہے تو ہمیں واقعی ہر سطح پر غیر معمولی اقدامات کرنے ہونگے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی شخصی کھیل سے باہر نکل کر ریاستی نظام، آئین اور قانون کو ہی برتری دینے سے ہم محفوظ پاکستان کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔

دیکھیں دنیا کدھر جارہی ہے اور ہمارے ہمسائے کدھر جارہے ہیں اور جو کل تک کمزور تھے انھوں نے خود کو ریاستی سطح پر کیسے مضبوط کرلیا اورہم کہاں کھڑے ہیں۔

ایک دوسرے کو فتح کرنے کی جنگ سے باہر نکلیں اور ملک کو بچانے اور اس کی بقا کی جنگ میں سب ہی فریق ذاتیات کے مقابلے میں اجتماعیت کے پہلو کو بنیاد بنا کر اپنا اپنا سیاسی مقدمہ لڑیں۔ اس مقدمہ میں اجتماعی پہلو نمایاں ہو اور یہ فکر غالب ہو کہ ہم سب کو مل کر کچھ بڑا کرنا ہے اور لوگوںمیں واقعی روشنی اور امید دینی ہے کہ ہم نے پیچھے نہیں بلکہ آگے کی طرف بڑھنا ہے ۔

مکمل بیانیہ نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہمیں ریاستی نظام کے اندر سے بھی کچھ مثبت خبریں ملیں کہ سب ہی اپنے اپنے آپ کو بدلنا چاہتے ہیں۔

لوگوں میں جو مایوسی ہے اس کو امید میں بدلنے کی جنگ ہے ۔ نئی نسل جو ایک بڑی آبادی کی عکاسی کرتی ہے ان کے مستقبل کو روشن کرنا ہے اور ان میں موجود غصہ ، تعصب، نفرت، انتہا پسندی اور لاتعلقی کے عمل کے مقابلے میں ریاست اور حکومتی نظام کو نئی نسل کے مسائل کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

ایک طرف لوگوں کے بنیادی نوعیت کے حقوق ہیں جو زندہ رہنے کے لیے درکار ہیں تو دوسری طرف ایک مہذب سیاسی اور جمہوریت سے جڑی ریاست کے طور پر لوگوں کے بنیادی حقوق جن میں آزادانہ سیاست ، آزادی اظہار، ووٹ کے ذریعے حکومتوں کو بنانے کا حق، سیاسی سطح کی قانونی دائرہ کار میں موجود آزادیاں، انسانی حقوق کی پاسداری ، کمزور طبقات کے ساتھ خود کو کھڑا رکھنا ،لوگوں میں سیاسی و سماجی شعور کی آگاہی کو یقینی بنانا ہے۔

اسی طرح ریاست کے اپنے مفادات جن میں لوگوں کو ریاستی مفادات کے ساتھ جوڑنا اور ریاست کی رٹ کو قبول کرنا ، اداروں کا احترام اور پاسداری ، اداروں کے خلاف منفی مہم جیسے اقدامات کا راستہ روکنا بھی ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔

یہ وقت محاذ آرائی اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا نہیں بلکہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا اور ایک ایسے ماحول کو یقینی بنانا جو سب کے لیے یکساں بھی ہو اور سب کی آوازوں کو سنتا بھی ہو ہماری ترجیح کا حصہ ہونا چاہیے۔ محاذ آرائی یا سیاسی مہم جوئی کا نتیجہ ہم نے بدترین حالات کے طور پر دیکھ لیا ہے، یہ ہماری ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔