پردے کے احکامات دنیاوی اور دینی فوائد

پردہ دِلوں کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے، جب دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہے گاتو معاشرہ بھی فحاشی و عریانی سے بچارہے گا

پردہ دِلوں کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے، جب دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہے گاتو معاشرہ بھی فحاشی و عریانی سے بچارہے گا۔ فوٹو: فائل

دور جاہلیت میں بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ عورتیں مختصر لباس زیب تن کرکے گلیوں اور کوچوں میں گھوما کرتی تھیں۔ اپنے ناز و انداز سے مخالف جنس کو اپنی جانب مائل کرنے کے ہتھکنڈے اپناتی تھیں۔ دعوت گناہ کا عام پرچار ہوتا تھا۔

دور جاہلیت میں بے حیائی اور جنسی انارکی جب اپنے عروج پر پہنچی تو حضور ﷺ نے آکر اسلام کی روشن تعلیمات سے اس کا قلع قمع کیا اور مرد وزن کے باہمی اختلاط پر پابندی لگائی۔

اسلام جو انقلابی دین ہے نے لوگوں کو بتایا کہ عورت بھی معاشرے کا ایک اہم فرد ہے جو صرف جنسی لذت کے حصول تک محدود نہیں بل کہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدان میں ایک اہم کردار رکھتی ہے۔

اسلام نے عورت کو نہ ہی تعلیم سے روکا نہ ہی کسی اور میدان میں خود ثابت کرنے سے روکا لیکن اس کی حفاظت کے لیے کچھ حدود و قیود مقرر فرمائے تاکہ اس کی عفت و عصمت سے معاشرے میں نیک و صالح قوم جنم لے جو اسلام کی ترویج میں اہم کردار ادا کرے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس میں فحاشی و عریانی کو عام کردو لہذا فحاشی و عریانی کے سدباب کے لیے صرف ایک ہی حل ہے کہ عورتیں باپردہ ہوجائیں اور مرد نظر کی حفاظت والے حکم پر عمل پیرا ہوجائیں۔

اسلام نے پردے کی اہمیت پر زور دیا ہے یہی وجہ ہے پردے کا حکم کا آغاز ازواج مطہراتؓ جو امت کی پاکیزہ ترین خواتین تھیں اور صحابہ کرامؓ جو پاکیزہ ترین افراد تھے سے کر کے اس کی اہمیت کو دگنا فرما دیا۔ قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم:

''اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔''

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ دراصل ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے، اسی پردے سے ان کے دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ جب دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہے گا تو معاشرہ بھی فحاشی و عریانی سے بچا رہے گا۔

اس دور افراتفری میں پردہ ہی وہ شے ہے جو عورت کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ جدید تہذیب کے نام پر عریانی و فحاشی کو عام کرنے والا نام نہاد روشن خیال طبقہ خواتین کی ذہن سازی میں جتا ہوا ہے۔

اسلام نے عورت کو ہرگز قید نہیں کیا بل کہ اسے گھر سے باہر پردے کی حدود و قیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی، چناں چہ قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ''اے نبی (ﷺ)! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔''

اس آیت میں لفظ ''جلابیب'' آیا ہے جس کے حوالے سے ابن کثیرؒ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کا قول نقل فرمایا ہے، مفہوم: ''وہ چادر ہے جو دوپٹہ کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔'' اور ابن عباسؓ کا یہ قول نقل فرمایا ہے، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر چہروں کو چھپالیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ میں دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں۔''

معلوم ہوا عورت گھر سے باہر قدم نکالتے وقت اپنی زیب و زینت کو چھپا لے۔ ایک اعتراض روشن خیال اذہان میں یہ بھی جنم لیتا ہے کہ آخر پردے کی پابندیاں صرف عورت پر کیوں ہے؟ مرد پر کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب قرآن کریم کی سورۃ النور میں ملتا ہے، مفہوم: ''مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ اُن کے لیے بہت ستھرا ہے، بے شک! اﷲ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔''


اس آیت میں مسلمان مردوں کو بھی غض بصر اور حفظ فروج کا حکم دیا گیا ہے۔ چناں چہ بخاری شریف میں حضرت ابُوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسولَ اﷲ ﷺ! راستوں میں بیٹھے بغیر ہمارا گزارہ نہیں، ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔

ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اگر راستوں میں بیٹھے بغیر تمہیں کوئی چارہ نہیں تو راستے کا حق ادا کرو۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''نظر نیچی رکھنا۔ تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا۔ سلام کا جواب دینا۔ نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا۔''

نگاہوں کی حفاظت انتہائی ضروری امر ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے دل میں بیماری پیدا ہوتی ہے یعنی بے حیائی کا آغاز ہی بد نگاہی ہے، چناں چہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''نگاہ شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔'' (معجم الکبیر)

آیت میں دوسرا حکم یہ ہے: ''اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔'' یعنی بدکاری اور حرام سے بچیں، جس کا ایک طریقہ تو نگاہوں کی حفاظت ہے اور دوسرا یہ کہ تمام اعضاء جن کا چُھپانا ضروری ہے، انہیں چُھپائیں اور پردے کا اہتمام کریں۔

اسی طرح نگاہوں کی حفاظت کا حکم عورتوں کو بھی دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ''اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں، اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔'' (النور)

حضرت اُمِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر تھیں، اسی وقت حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس ﷺ نے ہمیں پردہ کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کیا: وہ تو نابینا ہیں، ہمیں دیکھ اور پہچان نہیں سکتے۔ حضور کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں۔'' (ترمذی)

دور حاضر میں ایک فتنہ ہم جنس پرستی کا بھی سر اٹھائے کھڑا ہے، جو بے پردگی اور بے حیائی کی کھلی علامت ہے چناں اس حوالے سے ہمیں مسلم شریف میں یہ ملتا ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایک مرد دوسرے مرد کے سَتر کی جگہ نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کی جگہ دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ سوئے۔''

پردے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عورت جب کسی نامحرم سے مجبوراً ہم کلام ہو تو لہجے میں سختی اختیار کرے تاکہ مخاطب کے مائل ہونے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے چناں چہ سورۃ الاحزاب میں ہے، مفہوم: ''اے نبی (ﷺ) کی بیبیو! تم اَور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اﷲ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو۔''

اس آیت میں نرم لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر ظالم حکم ران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ہر مسلمان عورت حضرت زینبؓ کی مثال کو سامنے رکھے اور کسی بھی پس و پیش سے کام نہ لے۔ غرض یہ کہ باپردہ رہتے ہوئے اپنی ذمے داری کو نبھاتے ہوئے صاف اور سچی بات کرنا مسلمان عورت کی شان ہے۔

اس آیت کے تحت علامہ احمد صاویؒ لکھتے ہیں: ''ازواج مطہراتؓ امت کی مائیں ہیں اور کوئی شخص اپنی ماں کے بارے میں بُری اور شہوانی سوچ رکھنے کا تصور تک نہیں کرسکتا، اس کے باوجود ازواج مطہراتؓ کو بات کرتے وقت نرم لہجہ اپنانے سے منع کیا گیا تاکہ جو لوگ منافق ہیں وہ کوئی لالچ نہ کر سکیں کیوں کہ ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا جس کی بنا پر ان کی طرف سے کسی برے لالچ کا اندیشہ تھا ا س لیے نرم لہجہ اپنانے سے منع کر کے یہ ذریعہ ہی بند کردیا گیا۔'' (صاوی)

پردے پر اعتراض کرنے والے اس بات سے بھی مسلمان عورتوں کو بدظن کرتے ہیں کہ کیا عورت بناؤ سنگھار بھی نہ کرے؟ اچھے کپڑے بھی نہ پہنے؟ سورۃ النور میں اس کا جواب ہے، مفہوم: ''اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر۔'' صرف اپنے محارم پر اپنی زینت ظاہر کرسکتی ہیں۔ آج کل ایسے عبائے بھی زینت میں شامل ہیں جو جسم کی ہیئت کو واضح کرتے ہوں، جس کو دیکھ کر لوگ عورت کی جانب متوجہ ہوتے ہوں۔

معلوم ہوا کہ معاشرتی اقدار کی حفاظت کے لیے ان تمام اسباب اور ذرائع پر بند باندھنے کی ضرورت ہے جو عریانی و فحاشی کو عام کر رہے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم پورے خلوص اور ایمان داری کے ساتھ دین متین پر عمل کرنے کا فیصلہ کریں۔ یاد رکھیں! ایک پاک باز اور متقی عورت ہی اس معاشرے میں انقلاب لانے کا سبب بن سکتی کیوں کہ پردہ باوقار عورت کی پہچان ہے۔
Load Next Story