نازک دور کے مکینوں کا المیہ

بجلی گیس تیل کی قیمتوں نے عوام کی مت مار دی ہے، مہنگائی نے بھرکس نکال دیا ہے لیکن حکمران مصر ہیں

بہت سال پہلے ہانگ کانگ جانے کا اتفاق ہوا۔ جس ہوٹل میں قیام تھا اس کے نزدیک لیدر ٹریول گڈز کی ایک بڑی دکان تھی۔ دکان پر آویزاں نمایاں بینرز چیخ چیخ کر گاہکوں کو متوجہ کر رہے تھے کہ یہ دنیا چار روزہ ہے لیکن ہماری کلئیرنس سیل کے صرف دو ہی روز باقی ہیں۔

یہ دو روز آپ نے اگر ضائع کر دیے تو سراسر آپ کا نقصان ہو گا، ہمارا ذمہ توش پوش۔آتے جاتے دکان میں خوب گہما گہمی دیکھی۔ دل میں ٹھان لی کہ کاروبار کے پھندوں کا کیا ہے، پورا ہفتہ چلیں گے مگر سیل دو روزہ ہے، جیسے بھی ہو کل سیل کا آخری روز جانے نہ پائے۔

اگلے روز اپنی استطاعت کے مطابق کلیرنس سیل کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور جیب کا وزن ہلکا کر کے لوٹے۔ تاہم اگلے روز ہماری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ اس دکان پر کلئیرنس سیل کے تمام بینرز اسی طرح لگے ہوئے تھے۔

اس ہوٹل میں ہمارا قیام ایک ہفتہ رہا لیکن اس دوکان پر کلئیرنس سیل کا کیلنڈر بدستور آخری دو روز پر ہی ٹکا رہا۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے یہ ایک مستقل حربہ ہے۔ مزید غور کیا تو اندازہ ہوا کہ دکاندار نے یہ بینرز پختہ میٹریل سے بنوا رکھے تھے جو کئی کئی مہینے کام آتے۔ اپنی سادہ دلی اور ان کی عیاری پر دل میں خفت سی ہوئی لیکن یوں مارکیٹنگ کا ایک سبق سیکھ لیا۔

یہ واقعہ ہمیں یوں یاد آیا کہ ایک دوست نے سوشل میڈیا پر سوال پوچھا کہ76سال سے سن رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، آخر یہ نازک دور سے گزر کیوں نہیں پاتا؟ ہم نے جواب دیا، آپ کو شاید لفظ 'دور' سے غلط فہمی ہوئی ہے کہ وقت کے بہاؤ کی علامت ہے، گذر کیوں نہیں جاتا۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ہم نے جس مقام پر اپنا ٹھکانہ اختیار کیا ہے۔

اس مقام کا نام ہی ''نازک دور'' ہے، جبکہ آپ اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہ سفر کا ایک سنگ میل ہے، گزر جائے گا۔ ہم نے ہانگ کانگ کے تجربے سے سیکھا کہ مسافر اور دکاندار کا وقت ماپنے کا طریقہ اپنی اپنی ضرورت اور مہارت کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے ۔ جس نازک دور کے گزرجانے کے ہم سادہ لوح دل میں ارمان پالے ہوئے ہیں، اس ''نازک دور'' کو حکمران اشرافیہ نے کمال مہارت سے فریز کرنے کا فن سیکھ رکھا ہے۔ ان کے وارے نیارے اور چار روزہ زندگی میں چالیس روزہ مزے لینے کا کمال ہنر یہی ہے کہ ملک ''نازک دور'' کا ہی مقیم رہے!

ہمیں یادِ ماضی کے عذاب سے اب ایک گونہ الفت سی ہو گئی ہے، اتفاق ہے کہ حافظے نے ابھی تک جواب نہیں دیا، اس لیے کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی؛ یا رب... چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ بلکہ اس حافظے کی موجودگی میں یاد ماضی کے عذاب ہمیں بات بات پر جذباتی ہونے اور اچھل اچھل کر ''تاریخ میں پہلی بار...'' جیسے دعوؤں پر یقین کے نئے عذاب سے بچائے رکھتے ہیں۔


ہمارے بہت سے دوست جو کم و بیش ملینیئل عمروں( Millinial age) کے ہیں، ان کے نزدیک پاکستان کی سیاسی، معاشی اور گورننس کی تاریخ ان کے ساتھ ہی پیداہوئی، ان کے بہت سے دعوؤں اور تاثرات پر مچلنے کو دل اس لیے نہیں چاہتا کہ ان سے ملتے جلتے قصے اور کئی ''تاریخی'' واقعات کوبار بار وقت کے کوڑا دان میں جاتے دیکھ چکے۔ کچھ یہی حال ہر نئے حکمران کا ہوتا ہے کہ وہ اسی گمان کے ساتھ بلند و بانگ دعوؤں کی ابتداء کرتا ہے کہ آپ نے کبھی سنا ہوگا نہ دیکھا ہوگا... لیکن کیا کیجیے بقول احمد فراز

ہم نے اک عمر بسر کی ہے غمِ یار کے ساتھ

میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ

تازہ ترین سنی سنائی کہانیاں ایک بار پھر سننے کا مزہ لیجیے؛ بجلی چوروں کے گرد گھیرا تنگ، سینکڑوں گرفتار، ایم پی اے سمیت کئی بااثر سیاست دان بجلی چوری میں ملوث۔ دور کیا جانا، پرویز مشرف نے تو اس مشن کے لیے آرمی کی مدد سے گھر گھر بجلی میٹر چیک کروائے مگر بجلی کی چوری اور لائن لاسز کی کہانی ان کے بعد بھی ہر سیاسی حکومت کے دوران اسی ڈگر پر رہی ۔ ڈالرز کی سمگلنگ پر ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ملک گیر ایکشن، ڈالر کی اڑان کو بریک لگ گئی۔

ایک ہفتے میں ڈالر تیس روپے سستا۔ دور کیا جانا، اسحاق ڈار ملک میں تشریف لائے تو ڈالر کی مشکیں کسنا شروع کر دیں۔ دعویٰ کیا کہ ڈالر کی اصل ویلیو 200 روپے ہے باقی سب سٹا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ دنوں کی کھینچا تانی کے بعد ڈالر الٹی چال چلتے چلتے 300کے نزدیک پہنچ گیا۔

چینی کی قیمتوں میں پراسرار اضافہ ہونے لگا تو ہاہاکار مچی، انکشاف ہوا کہ افغانستان اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ سابق وزیر نوید قمر سے پوچھا گیا ؛ حضور جب ملک میں چینی کی ضرورت تھی ، قیمتیں دو گنا ہو گئی ہیں، آپ نے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کمال سادگی سے جواب دیا ؛ ایکسپورٹ کرنے سے ملک کو ڈالرز ملے ورنہ یہ چینی اسمگل تو ہو ہی جانی تھی۔

دس سال قبل سی پیک گیم چینجر بتایا گیا، سڑکوں اور کوئلہ بجلی گھروں میں تیس ارب ڈالرز لگ گئے مگر ایکسپورٹ کی استطاعت ایک ڈالر نہ بڑھی۔ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے ٹریلین ڈالرز کی معدنیات کی نوید سنائی۔ اس نوید کی گونج ان کے بعد مدہم ہوئی تو اب سعودی عرب اور یو اے ای کی پچاس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی نوید کا ریکارڈ بجنا شروع ہو گیا ہے۔

بجلی گیس تیل کی قیمتوں نے عوام کی مت مار دی ہے، مہنگائی نے بھرکس نکال دیا ہے لیکن حکمران مصر ہیں کہ فقط ان کی چھاپے، گھیرے اور گرفتاریوں نے سب دلدر دور کر دینے ہیں۔ انہیں کیا بتائیں کہ ''نازک دور'' کے باسیوں نے یہ سب اقدام بہت بار دیکھے ہیں، کچھ نیا اور پائیدار اگر زنبیل میں ہے تو بسم اللہ ورنہ ...
Load Next Story