جی20 سی پیک اور برآمدات

کم برآمدات اور زیادہ درآمدات نے مل کر جس طرح تجارتی خسارے میں کردار ادا کیا ہے



حال ہی میں G-20 کے دہلی اجلاس کا خاتمہ ہوا۔ یہ اجلاس رکن ممالک کے درمیان تجارتی و معاشی تعاون کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس انڈونیشیا اس اجلاس کا میزبان تھا اور آیندہ برس برازیل کو میزبانی سونپی جائے گی۔

G-20 کے ستمبر 2023 والے اجلاس میں انڈیا کی حکومت نے اپنے عوام کو باورکرانے کے لیے ان کو یہ پیغام دیا کہ اس اجلاس کا انعقاد ان کی بہت بڑی عالمی کامیابی ہے اور اسے 21 ویں صدی کی بہت بڑی معاشی و تجارتی کامیابی کا تانا بانا ہندوستان خلیجی ممالک اسرائیل اور یورپ کے لیے سمندری اقتصادی راہداری کے منصوبے سے جوڑ دیا گیا اور اسے ہندوستان اپنی بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔

چین اور روس کے ساتھ مخاصمت کے ضمن میں امریکا کی طرف سے بھی پذیرائی بخشی گئی حالانکہ اس بحری راہداری سے سردست امریکا کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے، لیکن سی پیک کی ناپسندیدگی کے حوالے سے امریکا اسے خوش کن نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ دراصل یہ چین کی سی پیک کے ذریعے عالمی پیمانے پر معاشی و تجارتی اثر و رسوخ کم کرنے کی قبل از وقت کوشش ہے۔

چین افغانستان بڑھتے تعلقات جلد ہی اسے پاکستان کی وساطت سے یورپ اور سینٹرل ایشیا تک رسائی دے دیں گے۔ چین نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ قائم کر لیا ہے اور کئی پراجیکٹ پر کام بھی کر رہا ہے۔ چین نے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔

نئے چینی سفیر نے کابل میں حکومت کو اپنی اسناد بھی پیش کر دی ہیں جسے عالمی منظرنامے میں ایک قابل عمل اور ترقی کرتے ہوئے معاشی اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب G-20 اجلاس کے موقع پر بھارت کی طرف سے بحری راہداری کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔ ہو سکتا ہے چین اس بحری راہداری کی نسبت بحری اور بری راستہ طے کرتے ہوئے یورپ تک پہنچ جائے۔ اس کے ساتھ ہی گوادر کے راستے یورپ اور افریقہ تک رسائی ممکن ہے۔

عالمی سطح پر سیاسی تبدیلی یا سیاسی فیصلوں کے مقابلے میں معاشی فیصلوں نے اپنا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھا لیا ہے، لیکن پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات نے حکومت اور عوام کو شدید فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس منظر کو دیکھتے ہی عالمی سرمایہ کاری کا پرندہ فوراً اڑ جاتا ہے اور پاکستانی معیشت ایسے آئی سی یو میں داخل ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کا آکسیجن اس کے لیے انتہائی سخت ضروری ہے۔

انھی دنوں شمالی کوریا کے صدرکا ایک غیر معمولی دورہ ماسکو اور روسی صدر سے انتہائی اہم ملاقات ہو چکی ہے۔ نئی نگراں حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان اپنی معیشت کو درست کرنے کی طرف متوجہ ہے۔

ایک طرف عالمی سیاست و معیشت میں ہلچل مچ چکی ہے، دوسری طرف ملک میں معاشی محاذ میں بھی ہلچل ہے اور ملک کا مغربی محاذ غیر محفوظ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام بھی اس وقت بجلی کے بلوں، ان کے نرخ، ان کی روز افزوں قیمت اس کے ساتھ گیس کی قیمت میں اضافے اور آئی ایم ایف کی طرف سے سختیاں ہٹ دھرمی نے پاکستانی معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ ڈنڈا اٹھایا ہے لیکن اس کے عارضی فوائد سامنے آ رہے ہیں۔

چینی کی ہزاروں بوریاں برآمد ہو رہی ہیں اسی طرح گندم، کھاد اور دیگر اشیا کے ذخیرے دریافت ہو رہے ہیں، اگر اس بات کو مستقل طور پر اپنا لیا جائے اور مافیاز، اسمگلرز، ذخیرہ اندوزوں کو یہ واضح پیغام پہنچ جائے کہ اب کاروباری صورت حال پہلے جیسی نہیں رہے گی کیونکہ اس سے قبل یہ مافیاز مل کر اول اشیاء کا ذخیرہ کر لیا پھر شارٹیج پیدا کردی پھر دام بڑھا دیے جو مہنگائی کے عفریت کی شکل میں عوام پر مسلط ہو جایا کرتی تھی۔ دوسری طرف بلوں میں ریلیف دینے میں معمولی پیش رفت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوا، کیونکہ آئی ایم ایف نہیں مان رہا۔ بجلی کے بارے میں مذاکرات کرتے کرتے آئی ایم ایف نے اپنے دل میں چھپی ہوئی بات کر ہی ڈالی۔

یعنی کمپنی بہادر نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو دی گئی مراعات واپس لینے کا مطالبہ کر ڈالا ہے اور یہ کہا ہے کہ صنعتوں کے لیے گیس نرخوں میں جولائی 2023 سے اضافہ کیا جائے۔ لہٰذا آئی ایم ایف کی اتنی سخت ترین شرائط کو سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ بجلی بلوں پر ریلیف میں پیش رفت نہ ہو سکی لیکن پاکستانی حکام نے ریلیف دینے اور شرائط پر عملدرآمد کے لیے وقت مانگ لیا ہے لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے سختیوں کے نتیجے میں غیر قانونی کنکشن کاٹے جا رہے ہیں اور اس طرح بجلی چوری کرانے اور دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث افسران کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔

ذخیرہ اندوزوں کی پکڑ دھکڑ اور مہنگائی کنٹرول کرنے کے دیگر واقعات اور اقدامات قابل ذکر اور خوش آیند ہیں لیکن روزگار کے مواقع میں اضافہ، تعمیراتی صنعتوں کے لیے مراعات، ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع پیدا کرنا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پرامن ماحول فراہم کرنا اور دیگر بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں۔

اس کی ضرورت اس لیے زیادہ ہے کہ ڈالر کے جس طرح سے ریٹ کم ہوئے ہیں یہ فی الحال مستقل نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ریٹ میں مزید کمی ہو لیکن اضافے کے مالی اسباب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ آئی ایم ایف کہتا ہے درآمدات میں کمی نہ لائی جائے۔ صنعت کہتی ہے کہ درآمدی میٹریلز کی بلا روک درآمد ممکن بنائی جائے تاکہ اس کے استعمال کے بعد ہی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جو اس وقت گھٹتے ہوئے برآمدات کے حصے میں اپنا مزید بوجھ ڈال رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ماہ جولائی اور اگست کے تجارت خارجہ کے اعداد و شمار یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ برآمدات مزید گھٹ کر 4 ارب 43 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز تک پہنچی ہے، جبکہ گزشتہ مالی سال 2021-22ء کا برآمدی حجم 4 ارب 73 کروڑ30 لاکھ ڈالرز کے سبب ساڑھے 6 فیصد کمی ہوئی ہے۔

لہٰذا کم برآمدات اور زیادہ درآمدات نے مل کر جس طرح تجارتی خسارے میں کردار ادا کیا ہے اور ہر سال یہی صورت حال رہتی ہے کہ کماتے کم ہیں اور خرچ زیادہ کرتے ہیں بالآخر پاکستان پر مالی دباؤ بڑھتا ہے مالی بوجھ کے بڑھتے رہنے سے روپے کی بے قدری بڑھتی رہتی ہے اور پاکستان کی یہ کمزور معاشی حالت ہے جوکہ روپے پر ڈالر کو ایک بار پھر حاوی کر دے گی۔ لہٰذا صنعت و حرفت کو جمود کی حالت سے نکال کر بتدریج متحرک کیا جائے تاکہ روپے کو ڈھارس بندھے۔

اگست ستمبر کے ماہ ایسے ہوتے ہیں جب ملک بھر میں میٹرک کے امتحانات کے نتائج جاری ہوتے ہیں اس مرتبہ پھر لاکھوں طلبا و طالبات بے روزگاروں کے ہجوم میں شامل ہو جائیں گے لہٰذا حکومت ان شعبوں کی طرف توجہ دے جس سے بے روزگاروں کی تعداد میں کمی آئے اور بتدریج معیشت مستحکم ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے