پٹرول مزید مہنگا
ملک کی ملازمت پیشہ مڈل کلاس اوردرمیانہ کاروباری حقائق کی جانب آرہاہے کیونکہ یہی طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کرتاہے
پاکستان کی معیشت کی زوال پذیری اور عوام کی مالی حالت ارباب اختیار کے علم میں ہے' یہ حقائق جاننے کے باوجود توانائی کی تقریباً تمام اقسام کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز 26روپے سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے کی بنیاد عالمی منڈی کی صورت حال کو بنایا گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کے موجودہ نرخ صرف دو ہفتوں کے لیے مقرر ہوئے ہیں'جس قسم کے حالات ہیں'انھیں دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔اب پٹرول پمپ ایک لیٹر پٹرول 331.38 روپے میں فروخت کریں گے۔ ادھرگیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی آ رہی ہیں'اخباری خبر کے مطابق گیس کے نرخ50فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا گیا ہدف پورا کر لیں گے جولوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے،ٹیکس وصولی کے عمل کو آسان بنا رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے مہنگائی 38فیصد سے کم ہو کر 27فیصد پر آگئی ہے،وزیر خزانہ نے قانونی ذرایع سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لیے پانچ اسکیموں کا اعلان کردیا۔
وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی و دیگر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ کچھ مشکلات سے ہم نکل آئے ہیں، ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ہم مسائل سے گھبرا نہیں رہے، مقابلے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے کئی شعبوں میں بہتری آئی ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ اقتصادی مشکلات ختم اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے، مہنگائی 38فیصد سے کم ہو کر 27فیصد پر آگئی ہے، اسمگلنگ کی روک تھام سے روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے، حکومتی اقدامات سے فصلوں کی پیداوار میں بہتری آئی ہے، بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو گئے تو معاشی حالات میں بہتری آئے گی ،اسٹیٹ بینک نے شرح سود نہیں بڑھایا اس سے بھی بہتری آئے گی، مقامی صنعت کو چلانے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں، آئی ایم کے ساتھ جو ٹارگٹ طے پایا ہے اسے پورا کریں گے۔
ٹیکس نیٹ ٹارگٹ کو پاکستان کی خاطر پورا کرنا ہے، کرنسی اسملگنگ کو کنڑول کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں کی وجہ سے ایڈجسٹ ہوتی ہیں۔ملک کے تجارتی خسارے میں جاری مالی سال کے پہلے دو ماہ میں سالانہ بنیادوں پر39فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی اور اگست میں پاکستان کے تجارتی خسارے کا حجم 3.948ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 39فیصد کم ہے۔ دوسری جانب ملک سے اشیائے خوراک کی برآمدات میں جاری مالی سال کے پہلے دو ماہ میں سالانہ بنیادوں پر6فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق امریکی ڈالر میں3ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کے لیے منافع کی شرح 7فیصد سے بڑھا کر8.25فیصدرکھا گیا ہے۔
برطانوی پاؤنڈ میں تین ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 5.50فیصد سے بڑھا کر7.25فیصد۔یورو میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 4فیصد سے بڑھا کر6.25فیصد۔پاکستانی کرنسی میں تین ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفیکیٹس پر منافع کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر21فیصد،6ماہ کی مدت کے سرٹیفکیٹس پر15.25فیصد سے بڑھ21.25فیصد، ایک سال کی مدت کے سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح 15.50 فیصد سے بڑھا کر21.50فیصد جب کہ 3سالہ مدت کے سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 14فیصد سے بڑھا کر17.50فیصد اور5سالہ مدت کے سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح 13.50فیصد سے بڑھا کر15فیصد کردی گئی۔
آر ڈی اے کے ذریعے فنڈز کے حصول میں اضافے کے لیے یہ بہت ضروری تھا، جو کہ دیگر ممالک کی جانب سے منافع میں اضافوں کی وجہ سے کم ہورہے تھے، پاکستان منافع پر 2 سے 3 فیصد پریمییم ادا کر رہا ہے، جب کہ امریکا بھی ایسے ہی بانڈز اور سیونگ سرٹیفکیٹس پر اتنا ہی پریمیئم دے رہا ہے، اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی پراڈکٹس میں سرمایہ کاری پر راغب کیا جاسکے گا، انھوں نے کہا کہ ان اضافوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتی، پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے۔
پاکستان کا شماران ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
پٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں وہ پٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہوتے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ آیندہ بجلی کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔
بجلی کی قیمت تو صرف ایک مثال ہے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، جو چیز پٹرول سے دور کی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ قیمتیں بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو دھچکا لگے گا بلکہ معاشرت بھی متاثر ہوگی، رویے بھی متاثر ہونگے اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوگی۔
پٹرولیم مصنوعات ' بجلی 'گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حیران کن اضافے نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو پہلے ہی بد حالی کا شکار ۔ عوام میں اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ کے زیر اثر ہوا ہو گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ملک مڈل کلاس کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے حکام پاکستان کی حکومت کو عوام کے لیے ریلیف دینے سے نہیں روکتے، آئی ایم ایف حکومت سے متبادل پلان مانگتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ حکومت متبادل پلان دینے میں اس لیے ناکام ہے کہ ریاستی ادارے اور ان کے افسران اور ملازمین اپنی تنخواہوں 'مراعات اور دیگر سہولتوں میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ملک کا سرمایہ داراور کاروباری طبقہ اپنا کاروباری کلچر ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سرکاری افسر اپنی تنخواہیں اور مراعات اور سہولیات تو لیتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیک بیکس 'تحائف اور دیگر نوعیت کی مراعات لینے سے بھی باز نہیں آ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہوں'ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا ہوں'بیوروکریٹس ہوں' پارلیمنٹیرینز ہوں' جاگیرداراور قبائلی سردار ہوں' سب آئی ایم ایف اور امریکا کو ذمے دار قرار دے کر پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن اب صورت حال اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ان کا کوئی بھی چورن فروخت نہیں ہو رہا۔اب آئی ایم ایف کے اوپر بھی ملبہ ڈالنے کا روایتی طریقہ کام نہیں کر رہا۔
ملک کی ملازمت پیشہ مڈل کلاس اور درمیانہ کاروباری حقائق کی جانب آ رہا ہے کیونکہ یہی طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اور یہی سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر بھی ہو رہا ہے۔ حکومت لاجک سے محروم ہو چکی ہے۔ عوام کے ساتھ غلط بیانی کے بجائے آئی ایم ایف حکام کے سامنے متبادل پلان رکھا جائے۔ اپنے اخراجات میں کمی لائی جائے ۔کاروباری اور بڑے زمیندار طبقے سے پورا ٹیکس وصول کیا جائے۔
حکومت جن شعبوں کو سبسڈی دیتی ہے' ان پر نظرثانی کی جائے' فلاحی اداروں کے نام پر جو ٹیکس چھوٹ حاصل ہے' اسے ختم کیا جائے 'اگر یہ اقدامات اٹھائے جائیں گے پاکستان کی حکومت کے لیے متبادل پلان تیار کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ حکومت اگر آئی ایم ایف کو متبادل پلان دے دیتی ہے اور اس متبادل پلان پر عمل درآمد یقینی بناتی ہے تو آئی ایم ایف کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط پوری کر کے اپنے عوام کو جتنا مرضی ریلیف دے آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
پٹرولیم مصنوعات کے موجودہ نرخ صرف دو ہفتوں کے لیے مقرر ہوئے ہیں'جس قسم کے حالات ہیں'انھیں دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ دو ہفتوں کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔اب پٹرول پمپ ایک لیٹر پٹرول 331.38 روپے میں فروخت کریں گے۔ ادھرگیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی آ رہی ہیں'اخباری خبر کے مطابق گیس کے نرخ50فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا گیا ہدف پورا کر لیں گے جولوگ ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے،ٹیکس وصولی کے عمل کو آسان بنا رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے مہنگائی 38فیصد سے کم ہو کر 27فیصد پر آگئی ہے،وزیر خزانہ نے قانونی ذرایع سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لیے پانچ اسکیموں کا اعلان کردیا۔
وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی و دیگر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ کچھ مشکلات سے ہم نکل آئے ہیں، ملک کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ہم مسائل سے گھبرا نہیں رہے، مقابلے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، حکومتی اقدامات سے کئی شعبوں میں بہتری آئی ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ اقتصادی مشکلات ختم اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے، مہنگائی 38فیصد سے کم ہو کر 27فیصد پر آگئی ہے، اسمگلنگ کی روک تھام سے روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے، حکومتی اقدامات سے فصلوں کی پیداوار میں بہتری آئی ہے، بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو گئے تو معاشی حالات میں بہتری آئے گی ،اسٹیٹ بینک نے شرح سود نہیں بڑھایا اس سے بھی بہتری آئے گی، مقامی صنعت کو چلانے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں، آئی ایم کے ساتھ جو ٹارگٹ طے پایا ہے اسے پورا کریں گے۔
ٹیکس نیٹ ٹارگٹ کو پاکستان کی خاطر پورا کرنا ہے، کرنسی اسملگنگ کو کنڑول کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں کی وجہ سے ایڈجسٹ ہوتی ہیں۔ملک کے تجارتی خسارے میں جاری مالی سال کے پہلے دو ماہ میں سالانہ بنیادوں پر39فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی اور اگست میں پاکستان کے تجارتی خسارے کا حجم 3.948ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 39فیصد کم ہے۔ دوسری جانب ملک سے اشیائے خوراک کی برآمدات میں جاری مالی سال کے پہلے دو ماہ میں سالانہ بنیادوں پر6فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
حکومت نے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق امریکی ڈالر میں3ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کے لیے منافع کی شرح 7فیصد سے بڑھا کر8.25فیصدرکھا گیا ہے۔
برطانوی پاؤنڈ میں تین ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 5.50فیصد سے بڑھا کر7.25فیصد۔یورو میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 4فیصد سے بڑھا کر6.25فیصد۔پاکستانی کرنسی میں تین ماہ کی مدت کے نیا پاکستان سرٹیفیکیٹس پر منافع کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر21فیصد،6ماہ کی مدت کے سرٹیفکیٹس پر15.25فیصد سے بڑھ21.25فیصد، ایک سال کی مدت کے سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح 15.50 فیصد سے بڑھا کر21.50فیصد جب کہ 3سالہ مدت کے سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح 14فیصد سے بڑھا کر17.50فیصد اور5سالہ مدت کے سرٹیفکیٹس پرمنافع کی شرح 13.50فیصد سے بڑھا کر15فیصد کردی گئی۔
آر ڈی اے کے ذریعے فنڈز کے حصول میں اضافے کے لیے یہ بہت ضروری تھا، جو کہ دیگر ممالک کی جانب سے منافع میں اضافوں کی وجہ سے کم ہورہے تھے، پاکستان منافع پر 2 سے 3 فیصد پریمییم ادا کر رہا ہے، جب کہ امریکا بھی ایسے ہی بانڈز اور سیونگ سرٹیفکیٹس پر اتنا ہی پریمیئم دے رہا ہے، اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی پراڈکٹس میں سرمایہ کاری پر راغب کیا جاسکے گا، انھوں نے کہا کہ ان اضافوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتی، پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہے۔
پاکستان کا شماران ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
پٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں وہ پٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہوتے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ آیندہ بجلی کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔
بجلی کی قیمت تو صرف ایک مثال ہے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، جو چیز پٹرول سے دور کی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ قیمتیں بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو دھچکا لگے گا بلکہ معاشرت بھی متاثر ہوگی، رویے بھی متاثر ہونگے اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوگی۔
پٹرولیم مصنوعات ' بجلی 'گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حیران کن اضافے نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو پہلے ہی بد حالی کا شکار ۔ عوام میں اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بین الاقوامی مارکیٹ کے زیر اثر ہوا ہو گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ملک مڈل کلاس کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور یہ صورت حال صحت مند معاشرے اور ملکی معاشی ترقی کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں۔اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے حکام پاکستان کی حکومت کو عوام کے لیے ریلیف دینے سے نہیں روکتے، آئی ایم ایف حکومت سے متبادل پلان مانگتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ حکومت متبادل پلان دینے میں اس لیے ناکام ہے کہ ریاستی ادارے اور ان کے افسران اور ملازمین اپنی تنخواہوں 'مراعات اور دیگر سہولتوں میں کمی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ملک کا سرمایہ داراور کاروباری طبقہ اپنا کاروباری کلچر ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سرکاری افسر اپنی تنخواہیں اور مراعات اور سہولیات تو لیتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیک بیکس 'تحائف اور دیگر نوعیت کی مراعات لینے سے بھی باز نہیں آ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہوں'ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا ہوں'بیوروکریٹس ہوں' پارلیمنٹیرینز ہوں' جاگیرداراور قبائلی سردار ہوں' سب آئی ایم ایف اور امریکا کو ذمے دار قرار دے کر پاکستان کے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن اب صورت حال اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ان کا کوئی بھی چورن فروخت نہیں ہو رہا۔اب آئی ایم ایف کے اوپر بھی ملبہ ڈالنے کا روایتی طریقہ کام نہیں کر رہا۔
ملک کی ملازمت پیشہ مڈل کلاس اور درمیانہ کاروباری حقائق کی جانب آ رہا ہے کیونکہ یہی طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اور یہی سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر بھی ہو رہا ہے۔ حکومت لاجک سے محروم ہو چکی ہے۔ عوام کے ساتھ غلط بیانی کے بجائے آئی ایم ایف حکام کے سامنے متبادل پلان رکھا جائے۔ اپنے اخراجات میں کمی لائی جائے ۔کاروباری اور بڑے زمیندار طبقے سے پورا ٹیکس وصول کیا جائے۔
حکومت جن شعبوں کو سبسڈی دیتی ہے' ان پر نظرثانی کی جائے' فلاحی اداروں کے نام پر جو ٹیکس چھوٹ حاصل ہے' اسے ختم کیا جائے 'اگر یہ اقدامات اٹھائے جائیں گے پاکستان کی حکومت کے لیے متبادل پلان تیار کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ حکومت اگر آئی ایم ایف کو متبادل پلان دے دیتی ہے اور اس متبادل پلان پر عمل درآمد یقینی بناتی ہے تو آئی ایم ایف کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط پوری کر کے اپنے عوام کو جتنا مرضی ریلیف دے آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔