مزدور رہنما شہید عثمان غنی …
عثمان غنی کا تذکرہ نامکمل رہے گا اگر اس مرحلہ پر ان کے فرزند ارجمند، سعید غنی کا تذکرہ نہ کیا جائے
پاکستان میں مزدور تحریک کے حوالے سے جب ہم گفتگو یا تحریر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ جہاں حق و صداقت کی بات کہنے یا اس راہ پر چلنے کی قیمت کے طور پر جان سے ہاتھ دھونے بھی پڑ سکتے ہیں۔
یہ گو کہ ایک افسوسناک بات مگر بہرکیف حقیقت ہے کہ بحالی جمہوریت کی تحریک رہی ہو یا محنت کش عوام کے حقوق کے حصول کی جدوجہد اسے ہمارے ہاں اکثر حکومتی مظالم یا ریاستی جبرکا سامنا رہا ہے اور اس راستہ پر ثابت قدم رہنے والوں کو، کئی مثالیں موجود ہیں کہ انھیں جان سے بھی گذرنا پڑا۔
وطنِ عزیز میں اس وقت مزدور تحریک کی جو حقیقی صورتحال ہے، وہ انتہائی تشویشناک اورکئی دہائیوں سے مسلسل انحطاط پذیر ہے۔ اس کے باوجود حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ مختلف مزدور تنظیمیں اور بحیثیت مجموعی محنت کش عوام نے اس صورتحال سے کمپرو مائز نہیں کیا اور وہ حقوق کے پرچم کو سرنگوں ہونے نہیں دے رہے ۔
پاکستان میں اگر ہم محنت کش عوام اور ملازمت پیشہ طبقہ کے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا تذکرہ کریں تو یہ اس وقت تک نا مکمل رہے گا تا وقت کہ اس میں بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تحریک کو شامل نہ کیا جائے حالانکہ یہ ایک اور حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں بالخصوص کمرشل بینکوں کی نجکاری کے بعد پرائیویٹ سیکٹر کی انتظامیہ نے مزدور بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا سب کچھ صرف کاغذات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہے جب کہ اب سے 25 سالوں قبل یہ ایک انتہائی متحرک ، موثر اور منظم تحریک تھی جو کہ لیبر رائٹس، ہیومن رائٹس اور جمہوری تحریکوں سے جڑی رہی۔
اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی راہ میں مزدور دشمنوں کو بڑے پاپڑ بھی بیلنے پڑے اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں مزدور دشمن قوانین وضع کرنا پڑے جن میں سے ایک بینکنگ کمپنیز آرڈیننس مجریہ 1962 '' میں شق نمبر 27-B کا شامل کیا جانا تھا، پاکٹ یونینز اور مالی طور پر بدعنوان عناصر کی پشت پناہی جیسے اقدامات بھی اٹھائے گئے تاکہ حقوق کے لیے ڈٹ جانے والوں کا راستہ روکا جاسکے۔ ان رکاوٹوں کے باوجود مزدور حقوق کے علم برداروں نے جدوجہد جاری رکھی، ملازمین نے ملازمتیں گنوائیں یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی دائو پر لگا دی۔
آج 17 ستمبر 2023 کا دن ہے، اب سے اٹھائیس برس قبل مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ایک عظیم شہید مزدور رہنما عثمان غنی کی اٹھائیسویں برسی ہے۔ عثمان غنی شہید کی شخصیت اس حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ میری یاد داشت کے مطابق پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کے پہلے اور اب تک کی تاریخ کے وہ واحد رہنما ہیں جنھیں مزدوروں بالخصوص بینک ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی راہ میں شہادت نصیب ہوئی۔
17 ستمبر 1995 کی صبح کے ایک منحوس لمحہ میں عثمان غنی کے قاتلوں نے اس وقت بہیمانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا کہ جب وہ اپنی آبائی رہائش گاہ چنیسر گوٹھ سے اپنی گاڑی میں اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوئے ہی تھے کہ کالا پل کے مقام پر انھیں گھیر کر قتل کردیا گیا۔
عثمان غنی 1948 میں کراچی میں پیدا ہوئے، NJV ہائی اسکول سے میٹرک اورگریجویشن کراچی یونیورسٹی سے مکمل کی۔ انھوں نے 1970 میں بینک میں ملازمت اختیارکی۔ بنیادی طور پر وہ ایک ترقی پسند، ہیومن اور لیبر رائٹس کے حوالے سے ایک متحرک انسان اور پنج وقتہ نمازی بھی تھے۔ ان کی ترقی پسندانہ سوچ انھیں مزدور تحریک اور پیپلز پارٹی میں لے آئی، جس سے وہ تا زندگی وابستہ رہے۔ وہ 1972 میں ایم سی بی اسٹاف یونین سی بی اے کے مرکزی صدر منتخب ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی مزدور تحریک اور سیاسی تحریک کے بھر پور وابستگی کے دور کا آغاز ہوا۔
شہید مزدور رہنما نے اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مثالی جدوجہد کی۔ اس ضمن میں انھیں متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ان کی جدوجہد کے اعتراف میں بینک ملازمین نے انھیں 80 کی دہائی میں اس وقت کی ایک انتہائی منظم اور بینکنگ انڈسٹری کی واحد ملک گیر تنظیم '' پاکستان بینکس ایمپلائز فیڈریشن'' کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل بھی منتخب کیا۔ شہید عثمان غنی نہ صرف یہ کہ اپنے ادارہ کے ملازمین کے حقوق کے لیے سربکف رہتے تھے بلکہ بحیثیت مجموعی وہ بینکنگ انڈسٹری اور دیگر صنعتی و غیر صنعتی اداروں کی مزدور تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
یہی وہ وجہ تھی کہ اکثر جیل یاترا ان کا مقدر بنی۔ ان کی زندگی کی آخری گرفتاری فروری 1991 میں اس وقت عمل میں لائی گئی کہ جب پاکستان کی قومی ملکیتی اداروں ( بشمول بینکس) کی 160 سی بی اے یونینز نے حکومتِ وقت کی نجکاری پالیسی کے خلاف '' آل پاکستان اسٹیٹ انٹرپرائز ورکرز ایکشن کمیٹی '' کا قیام عمل میں لا کر ایک دن کی علامتی ہڑتال پورے ملک میں کی جس کی پاداش میں عثمان غنی کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا۔
قید وبند کے ان ایام میں مجھے بھی ان کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا۔ عثمان غنی ٹریڈ یونین رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ وہ PPP کے بھی ایک جیالے تھے۔ انھوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قربانیاں بھی دیں۔
بے نظیر بھٹو ان کی جدوجہدکو انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور انھوں نے ایک مرتبہ اپنی زندگی میں عثمان غنی کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے بھی نوازا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عثمان غنی شہید اور دیگر مزدور رہنمائوں نے شہید بینظیر بھٹو کو قائل کر کے پارٹی کا لیبر ونگ '' پیپلز لیبر بیورو'' قائم کروایا۔
عثمان غنی کا تذکرہ نامکمل رہے گا اگر اس مرحلہ پر ان کے فرزند ارجمند، سعید غنی کا تذکرہ نہ کیا جائے جوکہ موجودہ نگراں صوبائی حکومت کے قیام سے قبل وزیر محنت و افرادی قوت کے منصب پر فائز تھے اور انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود محنت کش عوام کے حقوق کے تحفظ اور سہولتیں فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے اور مثبت قانون سازی کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج عثمان غنی شہید ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی یاد کی شمعیں لاکھوں مزدوروں کے دنوں میں ہمیشہ روشن رہیں گی۔