ہندوستان میں مسلمان ہونا جرم
تقسیم برصغیر سے اب تک 50,000 سے زائد مسجدوں کو نذرِ آتش یا مندروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے
چاند پر جانے والے ہندوستان کی انتہا پسندی ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہے، ہم ماضی کی نہیں بلکہ رواں سال میں ہونے والی بھارتی سنگ دلی پر نظر ڈالیں گے۔ سن دو ہزار تیئس میں بھی بھارت کے خونریزی کے جنون کو قرار نہیں آیا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویٰ دار ملک میں اقلیتوں کی نسل کشی معمول بن چکی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چپ لگی ہوئی ہے، منی پور میں انسانیت سوز واقعات ہو رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر 75 سالوں سے بھارتی عتاب کا شکار ہے، حد یہ ہے کہ بھارت کے دارالحکومت میں بھی اقلیت برداری کی خواتین خوف سے دوچار ہیں۔
دہلی ( ریپ اسٹیٹ) میں اقلیتی خواتین کو ہی نہیں بلکہ کم ذات ہندو لڑکیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مسلمانوں کے لیے بھارت کی سر زمین تنگ کی جا رہی ہے، اسکول میں داخلوں سے لے کر گھر کی خریداری یا کرائے پر لینے تک، نوکریوں سے لے کر علاج معالجے تک بھارتی مسلمان امتیازی سلوک کا شکار ہیں کیونکہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں جنھیں ہندو دھرم میں '' ماتا '' کا درجہ حاصل ہے۔ مودی کی اسلام دشمنی کا یہ عالم ہے کہ وہاں زبردستی مسلمانوں سے کالی ماتا کی جے کہلایا جاتا ہے۔
رواں ماہ ہریانہ میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد بھارتی علاقے گرو گرام میں 100 دیہات کے ہندوؤں کی 'مہا پنچایت' ہوئی جس میں مسلمانوں کے خلاف فیصلے کیے گئے۔ مہا پنچایت میں 1500 شدت پسند ہندوؤں نے شرکت کی، جس میں شدت پسندوں نے 'مہا پنچایت' میں مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی، مہا پنچایت کو پولیس کی سر پرستی حاصل تھی جب ہی دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود ہندوتوا سوچ کی مہا پنچایت کا انعقاد کیا گیا، مہا پنچایت نے جو ہدایت نامہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں ان (مسلمانوں) کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے شناختی کارڈ دیکھیں اور اگر وہ مسلمان ہیں تو انھیں گھر یا اپنی دکان کرائے پر نہ دیں، مہا پنچایت نے مزید کہا کہ ہندوؤں کی دکانوں سے سامان خریدیں اور انھی کو اپنے گھریلو کام کاج میں تعاون کے لیے رکھیں، رواں سال جنوری میں بھارتی ریاست اتر پردیش میں تاریخی مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا، مسجد کی شہادت کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ اس سے ملحقہ سڑک کو چوڑی کرنا تھا۔
رواں سال اپریل میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحقہ ضلع نوح میں ہندو، مسلم فسادات کے سبب ہندؤوں نے مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں پر بلڈوزر چلا دیا تھا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلم نسل کشی کے واقعات کے سبب ایک ہزار سے زائد مسلمان خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
مودی اسٹیٹ میں اذان کی آواز پر بھی ناگواری کا اظہار کیا جانے لگا ہے، بھارت میں اذان کی اونچی آواز ہندو توا سوچ کو بالکل پسند نہیں ہے جس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، درسگاہوں میں مسلم اساتذہ اور طالبات کے اسکارف اوڑھنے کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، بھارت کی اسلام دشمنی ان کی فلموں میں بھی نظر آتی ہے۔ 'دی کشمیر فائلز، دی کیرالہ اسٹوری اور 72 حوریں جیسی فلمیں ہندو توا سوچ کی عکاس ہیں، جس میں اسامہ بن لادن، حافظ سعید، اجمل قصاب کو دیکھا کر مذہب کے نام پر دہشت گردی پھیلانے کا تاثر دیا گیا تھا۔
بھارت کی اسلام دشمنی سمیت دیگر انتہا پسند سوچ کھیل کے میدان میں بھی نظر آتی ہے، متعدد بار پاکستان بمقابلہ بھارت کرکٹ میچ میں شائقین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں، حد تو یہ ہے کہ پاکستان کی جیت پر بھارتی مسلم علاقوں کو نذر آتش کردیا جاتا ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر پر جاری بھارتی افتادہ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، ہندوستان کی تاریخ مسلمانوں کے ناحق قتل عام اور خون سے سرخ ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک 93,647 مسلم کش واقعات میں 5 لاکھ سے زائد مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ہندو مسلم فساد 1992 میں ایودھیہ میں پیش آیا۔ 6دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید اور 3 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہیدکر ڈالا۔ 1989 میں بہار میں 9000 سے زائد مسلمانوں کو بھگل پور میں انتہا پسندوں نے شہید کر ڈالا۔ 2020 میں دہلی میں مسلم کش فسادات میں 150 سے زائد مسلمانوں کو شہید اورسیکڑوں زخمی ہوئے۔
الجزیرہ کے مطابق 2014 کے بعد ہندوستان میں مسلم مخالف جذبات میں شدید اضافہ ہوا۔ مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد شہریت، گاؤ ماتا رکھشک، طلاق اور حجاب سے متعلق درجن سے زائد مسلمان مخالف قوانین بھی بنا ڈالے۔ بالی ووڈ میں بھی مسلمان مخالف فلمیں بنانے میں گزشتہ دہائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
تقسیم برصغیر سے اب تک 50,000 سے زائد مسجدوں کو نذرِ آتش یا مندروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ رواں سال انتہا پسند تنظیم ہندو جن جاگیرتی سمٹی نے مسلمانوں کے خلاف حلال جہاد کی مہم بھی چلائی، ماضی کے مطالعے اور حال کا منظر نامے دیکھ کر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہونا جرم بن کر رہ گیا ہے۔