حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کیا رنگ لائے گی
عمران خان بلاشبہ اس حد تک کامیاب رہے کہ ان کے سیاسی اکٹھ کو تعداد کے اعتبار سے ناکام نہیں کہا جاسکتا۔
مارگلہ کی سحر انگیز وادی میں بسے رومان پرور شہر اسلام آباد کی اونچی پہاڑی کے مکین وزیراعظم محمد نواز شریف بلاشبہ وطنِ عزیز کی توانائی، انفراسٹرکچر، تعمیر و ترقی اور صنعت و حرفت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
دستیاب وسائل اور امن و امان کے مسائل کے باوجود وہ محض پاکستان نہیں خطے بھر کی ترقی و خوشحالی کے ضامن منصوبے اکنامک کاریڈور ایسے عظیم منصوبے کے لیے دن رات سرگرم عمل ہیں۔ پاک چین دوستی کے لازوال جذبے کو وزیراعظم نواز شریف کے خلوص اور لگن سے بے پناہ تقویت نصیب ہو رہی ہے اور وہ پاک چین تعاون کے حوالے سے ہونے والی ہر تقریب میں واشگاف الفاظ میں اس اعلان کا تواتر کے ساتھ اعادہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی کرۂ ارض پر موجود بلند ترین چوٹی سے بھی اونچی، گہرے ترین سمندر سے بھی گہری اور میٹھے ترین شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے اسی عزم و اعتماد کا نتیجہ ہے کہ چائنا پاور اور ایگزم بنک جیسے چین کے مستحکم مالیاتی و کاروباری اداروں کے سربراہان وزیراعظم نواز شریف سے ہونے والی سرکاری ملاقاتوں میں پورے یقین و اعتماد کے ساتھ یہ پیشکشیں کر رہے ہیں کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ کسی بھی منصوبے کے بارے میں اشارہ کریں ہم بلاتاخیر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں، تصویر کا یہ رُخ انتہائی حوصلہ افزاء ہے مگر دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے طاہر القادری کی جانب سے منعقد کئے گئے اپوزیشن جلسوں میں شرکاء کی تعداد اور اس کے اثرات موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان بلاشبہ اس حد تک کامیاب رہے کہ ان کے سیاسی اکٹھ کو تعداد کے اعتبار سے ناکام نہیں کہا جا سکتا۔
پندرہ ہزار نشستوں پر براجمان تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ کم و بیش بیس ہزار افراد کھڑے ہوں گے، یوں مجموعی طور پر یہ اجتماع پینتیس ہزار اور ڈیوٹی پر موجود میڈیا و سکیورٹی پر موجود نفری بھی شامل کرلی جائے تو یہ تعداد چالیس ہزار سے زائد نہیں بنتی۔ انتہائی خوشگوار موسم کے باوجود حیران کن طور پر راولپنڈی اسلام آباد سے کم لوگ عمران خان کے جلسے کی رونق بڑھانے گھروں سے باہر نکلے۔ سب سے زیادہ تعداد میں لوگ پشاور، دوسرے نمبر پر فیصل آباد اور تعداد کے اعتبار سے تیسری پوزیشن لاہور والوں کے حصے میں آئی۔
جلسے کی مکمل کامیابی یا ناکامی کی مہریں لگانے والوں کے تبصروں و تجزیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اس اجتماع سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس سیکھنے کے لیے متعدد نکات موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین اور ان کی انتظامیہ کی مناسب نظم و نسق کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی کہ انتخابی گہما گہمی سے ہٹ کے سیاسی اعتبار سے اس آف سیزن میں جبکہ پنجاب بھر میں گندم کی کٹائی زوروں پر ہے، خالصتاً سیاسی بنیادوں پر اتنا اجتماع کر لینا یقیناً ان کی کامیابی ہے۔ سوائے عمران خان کے کسی دوسرے سیاسی رہنما کی تقریر سامعین پر کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکی۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے حوالے سے بھی عمران خان کوئی مزید ٹھوس ثبوت تو پیش نہ کر سکے البتہ الیکشن کمشن کے اراکین سے مستعفی ہونے کے ان کے مطالبے میں اتنی جان ضرور نظر آئی کہ اڑتالیس سے بھی کم گھنٹوں کے اندر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے الیکشن کمشن اراکین کے استعفوں کا مطالبہ کر دیا۔ ادھر عمران خان کا مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ٹیلی فونک رابطہ اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کے امکانات پر تبادلہ خیالات اقتدار کے ا یوانوں میں بیٹھے صاحبان کے لیے لمحہ فکریہ ضرور بن گیا ہے۔
اب اگر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کی درخواست دینے کے لیے پاکستان ہائی کمشن لندن خود چل کے جانے یا نہ جانے کی کھینچا تانی میں بات مزید بگڑی تو یہ بھی بعید نہیں کہ وہ طاہرالقادری اور چوہدری شجاعت حسین سے اپنے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطوں کے زریعے الطاف حسین بھی اپنا سیاسی وزن ممکنہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کے پلڑے میں ڈال دیں۔ طاہرالقادری راولپنڈی میں مناسب تعداد میں اپنے پیروکار اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے، البتہ موجودہ اسمبلیوں میں ان کا کچھ بھی داؤ پر نہیں اور ان کی تقاریر کے رسیا ان کے سیاسی فارمولوں سے اتفاق کریں یا نہ کریں انہیں مولانا کی ہر کال پر اپنی حاضری ضرور لگوانا ہے کہ یہ سیاست کا نہیں عقیدت کا معاملہ ہے اور کسی کی عقیدت (چاہے وہ سیاسی ہی کیوں نہ ہو) پر زیادہ بحث بھی مناسب نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ہر جمعہ کے روز الیکشن کمشن آف پاکستان کے سامنے احتجاج کریں تو یہ بھی ان کا حق ہے گزشتہ ایک سال سے انہیں انتخابی عذر داریوں کے حوالے سے خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوا، البتہ احتجاجی سیاست کے جمہوری حق کو استعمال کرنے کی پریکٹس کے دوران اگر انہوں نے یا ان کی کور کمیٹی نے جمہوریت مخالف سوچ یا جمہوری اداروں کا بستر گول کرنے کی کسی منفی سوچ کا نادانستہ طور پر پل بھر کے لیے بھی ساتھ دیا تو آج ان کی تعریفوں کے پل باندھنے والا یہی میڈیا ان کے خلاف اعلان جنگ کرنے میں دیر نہ کرے گا اور ویسے بھی عمران خان کے پاس میڈیا اور سول سوسائٹی کے حوالے سے اب غلطی کی زیادہ گنجائش نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف حال ہی میں ایران کا کامیاب دورہ کرکے وطن واپس پہنچے ہیں، ایرانی صدر حسن روحانی اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی سے ہونے والی علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کی اپنے تئیں بے حد اہمیت تھی۔ ایران کے روحانی پیشوا کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کو یہ بزرگانہ مشورہ انتہائی صائب معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ سمیت کسی بھی عالمی طاقت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے سے پہلے ہمیں اپنے پڑوسیوں اور خطے کے ممالک سے تعلقات اور دو طرفہ مفادات کو اہمیت دینی چاہیے۔
اس دورے میں یہ بھی معاملہ واضح ہو گیا کہ حکومت پاکستان طے شدہ معاہدے کے تحت پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کرنا چاہتی ہے مگر امریکی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ ایرانی قیادت کا شکریہ کہ ہماری مجبوریوں کے پیش نظر انہوں نے پاکستان کو طے شدہ معاہدے کے مطابق وقت پر اپنی طرف کی پائپ لائن نہ بچھائی تو اسے ماہانہ 20 کروڑ ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ دونوں ممالک اس پائپ لائن کی تعمیر کے حوالے سے انتہائی مخلص ہیں اور امریکی پابندیوں میں نرمی کا انتظار ہے جونہی یہ ممکن ہوا پاکستان ایران دوستی کا عکاس یہ عظیم منصوبہ انتہائی سرعت سے مکمل کر لیا جائے گا۔
دستیاب وسائل اور امن و امان کے مسائل کے باوجود وہ محض پاکستان نہیں خطے بھر کی ترقی و خوشحالی کے ضامن منصوبے اکنامک کاریڈور ایسے عظیم منصوبے کے لیے دن رات سرگرم عمل ہیں۔ پاک چین دوستی کے لازوال جذبے کو وزیراعظم نواز شریف کے خلوص اور لگن سے بے پناہ تقویت نصیب ہو رہی ہے اور وہ پاک چین تعاون کے حوالے سے ہونے والی ہر تقریب میں واشگاف الفاظ میں اس اعلان کا تواتر کے ساتھ اعادہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی کرۂ ارض پر موجود بلند ترین چوٹی سے بھی اونچی، گہرے ترین سمندر سے بھی گہری اور میٹھے ترین شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے اسی عزم و اعتماد کا نتیجہ ہے کہ چائنا پاور اور ایگزم بنک جیسے چین کے مستحکم مالیاتی و کاروباری اداروں کے سربراہان وزیراعظم نواز شریف سے ہونے والی سرکاری ملاقاتوں میں پورے یقین و اعتماد کے ساتھ یہ پیشکشیں کر رہے ہیں کہ مسٹر پرائم منسٹر! آپ کسی بھی منصوبے کے بارے میں اشارہ کریں ہم بلاتاخیر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں، تصویر کا یہ رُخ انتہائی حوصلہ افزاء ہے مگر دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے طاہر القادری کی جانب سے منعقد کئے گئے اپوزیشن جلسوں میں شرکاء کی تعداد اور اس کے اثرات موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان بلاشبہ اس حد تک کامیاب رہے کہ ان کے سیاسی اکٹھ کو تعداد کے اعتبار سے ناکام نہیں کہا جا سکتا۔
پندرہ ہزار نشستوں پر براجمان تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ کم و بیش بیس ہزار افراد کھڑے ہوں گے، یوں مجموعی طور پر یہ اجتماع پینتیس ہزار اور ڈیوٹی پر موجود میڈیا و سکیورٹی پر موجود نفری بھی شامل کرلی جائے تو یہ تعداد چالیس ہزار سے زائد نہیں بنتی۔ انتہائی خوشگوار موسم کے باوجود حیران کن طور پر راولپنڈی اسلام آباد سے کم لوگ عمران خان کے جلسے کی رونق بڑھانے گھروں سے باہر نکلے۔ سب سے زیادہ تعداد میں لوگ پشاور، دوسرے نمبر پر فیصل آباد اور تعداد کے اعتبار سے تیسری پوزیشن لاہور والوں کے حصے میں آئی۔
جلسے کی مکمل کامیابی یا ناکامی کی مہریں لگانے والوں کے تبصروں و تجزیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اس اجتماع سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس سیکھنے کے لیے متعدد نکات موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین اور ان کی انتظامیہ کی مناسب نظم و نسق کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی کہ انتخابی گہما گہمی سے ہٹ کے سیاسی اعتبار سے اس آف سیزن میں جبکہ پنجاب بھر میں گندم کی کٹائی زوروں پر ہے، خالصتاً سیاسی بنیادوں پر اتنا اجتماع کر لینا یقیناً ان کی کامیابی ہے۔ سوائے عمران خان کے کسی دوسرے سیاسی رہنما کی تقریر سامعین پر کوئی خاص اثر نہ چھوڑ سکی۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے حوالے سے بھی عمران خان کوئی مزید ٹھوس ثبوت تو پیش نہ کر سکے البتہ الیکشن کمشن کے اراکین سے مستعفی ہونے کے ان کے مطالبے میں اتنی جان ضرور نظر آئی کہ اڑتالیس سے بھی کم گھنٹوں کے اندر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے الیکشن کمشن اراکین کے استعفوں کا مطالبہ کر دیا۔ ادھر عمران خان کا مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ٹیلی فونک رابطہ اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کے امکانات پر تبادلہ خیالات اقتدار کے ا یوانوں میں بیٹھے صاحبان کے لیے لمحہ فکریہ ضرور بن گیا ہے۔
اب اگر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ کی درخواست دینے کے لیے پاکستان ہائی کمشن لندن خود چل کے جانے یا نہ جانے کی کھینچا تانی میں بات مزید بگڑی تو یہ بھی بعید نہیں کہ وہ طاہرالقادری اور چوہدری شجاعت حسین سے اپنے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطوں کے زریعے الطاف حسین بھی اپنا سیاسی وزن ممکنہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کے پلڑے میں ڈال دیں۔ طاہرالقادری راولپنڈی میں مناسب تعداد میں اپنے پیروکار اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے، البتہ موجودہ اسمبلیوں میں ان کا کچھ بھی داؤ پر نہیں اور ان کی تقاریر کے رسیا ان کے سیاسی فارمولوں سے اتفاق کریں یا نہ کریں انہیں مولانا کی ہر کال پر اپنی حاضری ضرور لگوانا ہے کہ یہ سیاست کا نہیں عقیدت کا معاملہ ہے اور کسی کی عقیدت (چاہے وہ سیاسی ہی کیوں نہ ہو) پر زیادہ بحث بھی مناسب نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ہر جمعہ کے روز الیکشن کمشن آف پاکستان کے سامنے احتجاج کریں تو یہ بھی ان کا حق ہے گزشتہ ایک سال سے انہیں انتخابی عذر داریوں کے حوالے سے خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوا، البتہ احتجاجی سیاست کے جمہوری حق کو استعمال کرنے کی پریکٹس کے دوران اگر انہوں نے یا ان کی کور کمیٹی نے جمہوریت مخالف سوچ یا جمہوری اداروں کا بستر گول کرنے کی کسی منفی سوچ کا نادانستہ طور پر پل بھر کے لیے بھی ساتھ دیا تو آج ان کی تعریفوں کے پل باندھنے والا یہی میڈیا ان کے خلاف اعلان جنگ کرنے میں دیر نہ کرے گا اور ویسے بھی عمران خان کے پاس میڈیا اور سول سوسائٹی کے حوالے سے اب غلطی کی زیادہ گنجائش نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف حال ہی میں ایران کا کامیاب دورہ کرکے وطن واپس پہنچے ہیں، ایرانی صدر حسن روحانی اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی سے ہونے والی علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کی اپنے تئیں بے حد اہمیت تھی۔ ایران کے روحانی پیشوا کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کو یہ بزرگانہ مشورہ انتہائی صائب معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ سمیت کسی بھی عالمی طاقت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے سے پہلے ہمیں اپنے پڑوسیوں اور خطے کے ممالک سے تعلقات اور دو طرفہ مفادات کو اہمیت دینی چاہیے۔
اس دورے میں یہ بھی معاملہ واضح ہو گیا کہ حکومت پاکستان طے شدہ معاہدے کے تحت پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کرنا چاہتی ہے مگر امریکی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ ایرانی قیادت کا شکریہ کہ ہماری مجبوریوں کے پیش نظر انہوں نے پاکستان کو طے شدہ معاہدے کے مطابق وقت پر اپنی طرف کی پائپ لائن نہ بچھائی تو اسے ماہانہ 20 کروڑ ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ دونوں ممالک اس پائپ لائن کی تعمیر کے حوالے سے انتہائی مخلص ہیں اور امریکی پابندیوں میں نرمی کا انتظار ہے جونہی یہ ممکن ہوا پاکستان ایران دوستی کا عکاس یہ عظیم منصوبہ انتہائی سرعت سے مکمل کر لیا جائے گا۔