نگراں حکومت
اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے ٹیکس پر پلنے والوں سے اس عوام دشمن مہنگائی کا حساب مانگیں
نگراں حکومت کی اہم ذمے داری صرف اپنے رہتے الیکشن یا منصفانہ چنائوکروانا ہوتا ہے، یہ نگراں حکومت روزگار پر پابندی کے احکام پر سر تسلیم خم کرسکتی ہے مگر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہیں کرسکتی۔
اس عبوری حکومت نے آتے ہی مہنگائی کی بنیاد پٹرول کو بڑھا کر یہ تحفہ مڈل کلاس طبقے کو دیا ویسے ہی عوام بجلی گیس کا عذاب جھیل رہے ہیں کہ یہ افتاد ان پر آپڑی یہ اکیلی ہی ایسی اساس ہے کہ اس کے بڑھنے سے ہر شے خود بخود بڑھ جاتی ہے اور انسانی زندگی کی روزمرہ کی ہر شے ان کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے، یہی نہیں صرف پندرہ دن کے قلیل عرصے میں ایک دفعہ پھر ضروریات زندگی کی اس اہم اساس کو بڑھا دیا گیا۔
اس نگراں حکومت کو یہ اختیار تو دے دیا گیا تو نوکریوں کو دینے کا اختیار اس سے کیوں چھین لیا گیا جب کہ عوام الناس کی آمدنی ہوگی تو ہی وہ اشیاء خورونوش اور دیگر ضروریات زندگی حاصل کرسکیں گے۔ حال ہی میں ہمارے ایک سیاسی چالوں کے ماہر شخصیت نے پہلے چینی کی برآمد کروا کر پھر درآمد کروا کر چینی کی جو مصنوعی قلت کروائی اس میں وطن عزیز اور اس میں رہنے والوں کی بقاء کے لیے ان کی کیا مصلحت تھی۔
آج ہمارا پڑوسی ملک چاند پرکمندیں ڈال رہا ہے اور مادر وطن کی مظلوم عوام زمین کی پستیوں میں پہنچائی جا رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے ٹیکس کنسلٹنٹ کہتے ہیں کہ ایک زمیندارکو ٹیکس کا نوٹس بھیجا گیا تو ایک سیاسی جماعت کے سینئر رہنماء کی قیادت میں مختلف پارٹیوں کے اراکین اسمبلی آگئے کہ زمیندار ٹیکس نہیں دیں گے، دوسری صورت میں وہ حکومت گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
پراپرٹی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر کچھ بااثر افراد رکاوٹ بن گئے۔ تمباکو پر ٹیکس لگا تو کچھ ایم این اے میدان میں آگئے۔ بعض فیکٹریاں اور ادارے ٹیکس نہیں دیتے نہ ہی بجلی کے بل، ان پر گھیرا ڈالا گیا توکچھ سینیٹرز آگئے کہ ایسا ہوا تو ملک انتشاری کیفیت سے دوچار ہوگا۔
تجارت سے منسلک اشخاص کو دستاویزات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی تو وطن عزیز کے اعلیٰ عہدیدار بیچ میں آ گئے کہ یہ لوگ شٹر ڈائون کر کے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں تو لٰہذا یہ عتاب صرف تنخواہ دار اور مجبور مڈل کلاس ہی جھیلے گا۔ الحمد للہ حاجیوں، نمازیوں کے ملک میں آٹا، کوکنگ آئل، چینی، بجلی، حج اخراجات کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دن بدن دور ہوتی جارہی ہیں جب کہ پڑوسی ملک میں بجلی کے دو سو یونٹ فری اور دیگر کئی سہولیات زندگی وہاں کی عوام کو حاصل ہیں، جو یہاں میسر نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ٹول پلازہ پر ایک گھنٹے میں تین سو ساٹھ گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور جانے والے ( ایم ٹو ) کے بارہ عدد بوتھ سے تقریبا چار ہزار تین سو بیس گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں تقریبا ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی گاڑیاں گذرتی ہیںاور ایک کار کا ٹیکس ایک ہزار روپیہ ہے اور بڑی گاڑیوں کا چار ہزار تک چلا جاتا ہے ہم اگر اس کا تخمینہ ایک گاڑی کا ٹیکس ایک ہزار روپے بھی لگائیں تو اس حساب سے چوبیس گھنٹوں کے اندر یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے تک کما لیتا ہے۔
اسی طرح ملک بھر کے موٹروے اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعداد اگر گن لی جائے تو صرف ٹول ٹیکس کی آمدنی روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومتی خزانے میں جمع ہو رہے ہیں۔ آپ جس گاڑی میں سفرکرتے ہیں اس میں پٹرول کی مد میں کم از کم ایک لیٹر پر پچاس روپے ٹیکس تو کاٹا جاتا ہے اور روزانہ لاکھوں گیلن پٹرول استعمال ہوتا ہے اس کا ٹیکس بھی روزانہ اربوں روپے کے حساب سے حکومتی خزانے میں جاتا ہے۔
صارفین کی بجلی کا بل بھی اگر دس ہزار ہے تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا تقریبا سات ہزار روپے ٹیکس ہے جو ماہانہ ہر صارف سے کاٹا جا رہا ہے اور یوں اربوں کھربوں روپے خزانے میں جمع ہوتے ہیں، اسی طرح گیس نہ ملنے کے باوجود بل پر اسی حساب سے ٹیکس کی شرح سود وصول کی جاتی ہے اور خزانے میں جمع کی جاتی ہے۔
آپ میڈیکل اسٹور سے تین سو روپے کی دوائی خرید رہے ہیں تو ایک اندازے کے مطابق اس پر تقریبا چالیس سے پچاس روپے سیلز ٹیکس بن رہا ہے جو قومی خزانے میں جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی آپ ٹیکس دے رہے ہوتے ہیں ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر صورتوں میں اس کے علاوہ دیگر اور ضروریات زندگی خصوصا موبائل فونز، انٹرنیٹ، گاڑیوں کے ٹیکس اور نہ جانے کیا کیا مگر سوال یہ ابھرتا ہے جس ملک میں اربوں کھربوں کے ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر اکھٹے ہورہے ہیں، وہ کیوں دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر قرضے مانگتا پھر رہا ہے، اس کے لیے عام لٹیرے اور سیاسی لٹیرے کا فرق جاننا ضروری ہے، عام لٹیرے کی نظر آپ کی ظاہری اشیاء یعنی آپ کے پیسے، بیگ، گھڑی، زیور پر ہوتی ہے جب کہ سیاسی لٹیرے آپ کا مستقبل، آپ کے کیریئر، تعلیم، صحت اور کاروبارکو چرانے کے درپے رہتے ہیں جب کہ عام لٹیرا انتخاب کرتا ہے کہ اس سے کس کو لوٹنا ہے مگر سیاسی لٹیروں کا انتخاب آپ ووٹ کے ذریعے خود کرتے ہیں۔
عام لٹیرے سے ہم اپنا سامان بچانے کے لیے لڑتے ہیں مگر سیاسی لٹیروں کا دفاع کرنے کے لیے ہم آپس میں لڑتے ہیں۔ ان کے لیے جو ہمارا مستقبل، خوشی، صحت، تعلیم اور کامیابی چرا رہے ہیں۔ بجلی کی اس انتشاری بحرانی صورتحال پر اب عوام کو الیکٹرک سپلائر پاکستان سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کرنے چاہیئیں جیسا کہ بجلی کی قیمت ادا کردی گئی تو اس پر کون سا ٹیکس؟ کون سے فیول پرکون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟ کس پرائس پہ الیکٹرسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟ کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟ بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کرچکے) پرکون سی ڈیوٹی اور کیوں؟
ٹی وی کی کونسی فیس جب کہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ قیمت ادا کر کے؟ جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ کون سے فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟ جب استعمال شدہ پونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں توکس چیز کے ایکسڑا چارجز؟ کس چیز کے اور کون سے اگلے چارجز؟ پھر ود ہولڈنگ چارجز کس بلا کا نام ہے؟ میٹر تو صارفین خود خریدتے ہیں پھر اس کا کرایہ کیوں ادا کیا جائے؟ بجلی کا کون سا انکم ٹیکس کس بات کا انکم ٹیکس؟
اور سب سے بڑھ کر جب عوام کے الیکٹرک کو مسترد کرچکے تو یہ مسلط کیوں ہوا چلا جا رہا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے ٹیکس پر پلنے والوں سے اس عوام دشمن مہنگائی کا حساب مانگیں، کیونکہ ہم نے ہی اس مادر وطن کو بچانا ہے اس لیے ہم نے ہی اس کے لیے سوچنا ہے کیونکہ یہ تو دہری شہریت لے کر دوسرے ملکوں میں آل اولاد کے ساتھ سیٹ ہیں اور یہاں مڈل کلاس تنخواہ دار طبقہ سسک سسک کر مر رہا ہے۔
جو روٹی چرائے اسے سولی پر چڑھا دو
جو ملک کو لوٹے اسے کرسی پر بیٹھا دو
اس دور کے منصف نے لکھا ہے قلم سے
غربت نہیں مٹتی تو غریبوں کو مٹا دو
اس عبوری حکومت نے آتے ہی مہنگائی کی بنیاد پٹرول کو بڑھا کر یہ تحفہ مڈل کلاس طبقے کو دیا ویسے ہی عوام بجلی گیس کا عذاب جھیل رہے ہیں کہ یہ افتاد ان پر آپڑی یہ اکیلی ہی ایسی اساس ہے کہ اس کے بڑھنے سے ہر شے خود بخود بڑھ جاتی ہے اور انسانی زندگی کی روزمرہ کی ہر شے ان کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے، یہی نہیں صرف پندرہ دن کے قلیل عرصے میں ایک دفعہ پھر ضروریات زندگی کی اس اہم اساس کو بڑھا دیا گیا۔
اس نگراں حکومت کو یہ اختیار تو دے دیا گیا تو نوکریوں کو دینے کا اختیار اس سے کیوں چھین لیا گیا جب کہ عوام الناس کی آمدنی ہوگی تو ہی وہ اشیاء خورونوش اور دیگر ضروریات زندگی حاصل کرسکیں گے۔ حال ہی میں ہمارے ایک سیاسی چالوں کے ماہر شخصیت نے پہلے چینی کی برآمد کروا کر پھر درآمد کروا کر چینی کی جو مصنوعی قلت کروائی اس میں وطن عزیز اور اس میں رہنے والوں کی بقاء کے لیے ان کی کیا مصلحت تھی۔
آج ہمارا پڑوسی ملک چاند پرکمندیں ڈال رہا ہے اور مادر وطن کی مظلوم عوام زمین کی پستیوں میں پہنچائی جا رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے ٹیکس کنسلٹنٹ کہتے ہیں کہ ایک زمیندارکو ٹیکس کا نوٹس بھیجا گیا تو ایک سیاسی جماعت کے سینئر رہنماء کی قیادت میں مختلف پارٹیوں کے اراکین اسمبلی آگئے کہ زمیندار ٹیکس نہیں دیں گے، دوسری صورت میں وہ حکومت گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
پراپرٹی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر کچھ بااثر افراد رکاوٹ بن گئے۔ تمباکو پر ٹیکس لگا تو کچھ ایم این اے میدان میں آگئے۔ بعض فیکٹریاں اور ادارے ٹیکس نہیں دیتے نہ ہی بجلی کے بل، ان پر گھیرا ڈالا گیا توکچھ سینیٹرز آگئے کہ ایسا ہوا تو ملک انتشاری کیفیت سے دوچار ہوگا۔
تجارت سے منسلک اشخاص کو دستاویزات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی تو وطن عزیز کے اعلیٰ عہدیدار بیچ میں آ گئے کہ یہ لوگ شٹر ڈائون کر کے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں تو لٰہذا یہ عتاب صرف تنخواہ دار اور مجبور مڈل کلاس ہی جھیلے گا۔ الحمد للہ حاجیوں، نمازیوں کے ملک میں آٹا، کوکنگ آئل، چینی، بجلی، حج اخراجات کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دن بدن دور ہوتی جارہی ہیں جب کہ پڑوسی ملک میں بجلی کے دو سو یونٹ فری اور دیگر کئی سہولیات زندگی وہاں کی عوام کو حاصل ہیں، جو یہاں میسر نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ٹول پلازہ پر ایک گھنٹے میں تین سو ساٹھ گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور جانے والے ( ایم ٹو ) کے بارہ عدد بوتھ سے تقریبا چار ہزار تین سو بیس گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں تقریبا ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی گاڑیاں گذرتی ہیںاور ایک کار کا ٹیکس ایک ہزار روپیہ ہے اور بڑی گاڑیوں کا چار ہزار تک چلا جاتا ہے ہم اگر اس کا تخمینہ ایک گاڑی کا ٹیکس ایک ہزار روپے بھی لگائیں تو اس حساب سے چوبیس گھنٹوں کے اندر یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے تک کما لیتا ہے۔
اسی طرح ملک بھر کے موٹروے اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعداد اگر گن لی جائے تو صرف ٹول ٹیکس کی آمدنی روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومتی خزانے میں جمع ہو رہے ہیں۔ آپ جس گاڑی میں سفرکرتے ہیں اس میں پٹرول کی مد میں کم از کم ایک لیٹر پر پچاس روپے ٹیکس تو کاٹا جاتا ہے اور روزانہ لاکھوں گیلن پٹرول استعمال ہوتا ہے اس کا ٹیکس بھی روزانہ اربوں روپے کے حساب سے حکومتی خزانے میں جاتا ہے۔
صارفین کی بجلی کا بل بھی اگر دس ہزار ہے تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا تقریبا سات ہزار روپے ٹیکس ہے جو ماہانہ ہر صارف سے کاٹا جا رہا ہے اور یوں اربوں کھربوں روپے خزانے میں جمع ہوتے ہیں، اسی طرح گیس نہ ملنے کے باوجود بل پر اسی حساب سے ٹیکس کی شرح سود وصول کی جاتی ہے اور خزانے میں جمع کی جاتی ہے۔
آپ میڈیکل اسٹور سے تین سو روپے کی دوائی خرید رہے ہیں تو ایک اندازے کے مطابق اس پر تقریبا چالیس سے پچاس روپے سیلز ٹیکس بن رہا ہے جو قومی خزانے میں جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی آپ ٹیکس دے رہے ہوتے ہیں ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر صورتوں میں اس کے علاوہ دیگر اور ضروریات زندگی خصوصا موبائل فونز، انٹرنیٹ، گاڑیوں کے ٹیکس اور نہ جانے کیا کیا مگر سوال یہ ابھرتا ہے جس ملک میں اربوں کھربوں کے ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر اکھٹے ہورہے ہیں، وہ کیوں دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر قرضے مانگتا پھر رہا ہے، اس کے لیے عام لٹیرے اور سیاسی لٹیرے کا فرق جاننا ضروری ہے، عام لٹیرے کی نظر آپ کی ظاہری اشیاء یعنی آپ کے پیسے، بیگ، گھڑی، زیور پر ہوتی ہے جب کہ سیاسی لٹیرے آپ کا مستقبل، آپ کے کیریئر، تعلیم، صحت اور کاروبارکو چرانے کے درپے رہتے ہیں جب کہ عام لٹیرا انتخاب کرتا ہے کہ اس سے کس کو لوٹنا ہے مگر سیاسی لٹیروں کا انتخاب آپ ووٹ کے ذریعے خود کرتے ہیں۔
عام لٹیرے سے ہم اپنا سامان بچانے کے لیے لڑتے ہیں مگر سیاسی لٹیروں کا دفاع کرنے کے لیے ہم آپس میں لڑتے ہیں۔ ان کے لیے جو ہمارا مستقبل، خوشی، صحت، تعلیم اور کامیابی چرا رہے ہیں۔ بجلی کی اس انتشاری بحرانی صورتحال پر اب عوام کو الیکٹرک سپلائر پاکستان سے کچھ سوالات کے جوابات طلب کرنے چاہیئیں جیسا کہ بجلی کی قیمت ادا کردی گئی تو اس پر کون سا ٹیکس؟ کون سے فیول پرکون سی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟ کس پرائس پہ الیکٹرسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟ کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟ بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کرچکے) پرکون سی ڈیوٹی اور کیوں؟
ٹی وی کی کونسی فیس جب کہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ قیمت ادا کر کے؟ جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ کون سے فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟ جب استعمال شدہ پونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں توکس چیز کے ایکسڑا چارجز؟ کس چیز کے اور کون سے اگلے چارجز؟ پھر ود ہولڈنگ چارجز کس بلا کا نام ہے؟ میٹر تو صارفین خود خریدتے ہیں پھر اس کا کرایہ کیوں ادا کیا جائے؟ بجلی کا کون سا انکم ٹیکس کس بات کا انکم ٹیکس؟
اور سب سے بڑھ کر جب عوام کے الیکٹرک کو مسترد کرچکے تو یہ مسلط کیوں ہوا چلا جا رہا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے ٹیکس پر پلنے والوں سے اس عوام دشمن مہنگائی کا حساب مانگیں، کیونکہ ہم نے ہی اس مادر وطن کو بچانا ہے اس لیے ہم نے ہی اس کے لیے سوچنا ہے کیونکہ یہ تو دہری شہریت لے کر دوسرے ملکوں میں آل اولاد کے ساتھ سیٹ ہیں اور یہاں مڈل کلاس تنخواہ دار طبقہ سسک سسک کر مر رہا ہے۔
جو روٹی چرائے اسے سولی پر چڑھا دو
جو ملک کو لوٹے اسے کرسی پر بیٹھا دو
اس دور کے منصف نے لکھا ہے قلم سے
غربت نہیں مٹتی تو غریبوں کو مٹا دو