سیاسی مہم جوئی

ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ جو دباو ہے اس کو مدنظر رکھ کر فروری کے آخری ہفتے میں انتخابی میدان سجایا جاسکتا ہے

salmanabidpk@gmail.com

صدرمملکت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو 6نومبر کی عام انتخابات کی تجویز ایک تجویز ہی ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن تاریخ دینے سے گریزکررہا ہے۔ یقینا اس کی وجہ حلقہ بندیوں کو بنایا جارہا ہے۔

عام انتخابات ہونے یا نہ ہونے کی گتھی کافی سوچ سمجھ کر الجھائی گئی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کس نے دینی تھی اور کیوں نہیں دے رہا ۔مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی نظام میں انتخابات کرانا ترجیع کیونکر نہیں ہے اورکیوں انتخابات سے گریز کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔

ہماری سیاسی او رانتخابی تاریخ یا روایت یہ ہی بتاتی ہے کہ ہمیں انتخابات سے پہلے انتخابات سے جڑے نتائج کے معاملات طے کرنے ہوتے ہیں۔ ان معاملات کو طے کرنے کے بعد ہی انتخابی سیاسی دربار سجایاجاتا ہے تاکہ اپنی پسند او رمنشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کیا جاسکے ۔اسی لیے جب فیصلہ سازوں میں کچھ اتفاق رائے ہوجائے گا تو انتخابات کا منظر نامہ بھی حتمی طور پر سجادیا جائے گا ۔

رائے عامہ انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر تقسیم ہے اورہر ایک پاس اپنی اپنی منطق اور دلائل ہیں۔ انتخابات میں تاخیر ظاہر کرتی ہے کہ انتخابات سے جڑے معاملات جن کو ہم عملی طور پر پری پول معاملات کہتے ہیں طے ہونے کے مراحل میں ہی ہیں اور فیصلہ کرنے والوں کو پہلی بار اپنے فیصلے کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ یہ جو سوچ او رفکر تھی کہ طاقت ور طبقات اپنی مرضی او رمنشا کے مطابق جب چاہیں او رجیسے چاہیں اپنی مرضی کے نتائج یا اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے کا ہنر رکھتی ہیں۔

لیکن اس بار کھیل میں ان کو بھی احساس ہوا ہے ہے کہ ان حالات میں ہم اتنی آسانی سے انتخابی نتائج کواپنے حق میں کنٹرول نہیں کرسکیںگے۔پہلی بار اس ملک میں انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے تناظر میں سیاسی پنڈتوں کی سطح پر یہ بحث شدت کے ساتھ سننے کو مل رہی ہے یا اس بحث کو جان بوجھ کریا کسی حکمت عملی کے تحت پزیرائی دی جارہی ہے۔ اول انتخابات سے قبل نئی مردم شماری او را س کے نتائج کو بنیاد بنا کر نئی حلقہ بندیوں کو مکمل کیا جائے، وگرنہ پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات قبول نہیں کیے جائیں گے۔

دوئم انتخابات سے پہلے اس ملک میںاحتسابی عمل او رمعیشت کی درستگی ہونی چاہیے اور اس کی درستگی کے لیے اگر انتخابات میں تاخیر بھی ہوتی ہے تو کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے ۔ سوئم اگر ہم نے موجودہ حالات میں انتخابات کا راستہ کو اختیار کیا تو اس سے نئی سیاسی بدامنی، انتشار اور تقسیم پیدا ہوگی او راس وقت اس طبقہ کے بقول کسی بھی صورت انتخابات مسائل کا حل نہیں بلکہ ہماری توجہ کا مرکز معیشت ہی ہونی چاہیے۔ چہارم جو سیاسی کشیدگی اور سیاسی تقسیم یا تلخیاں موجود ہیں ان کی موجودگی میں انتخابات ریاست کونئی سیاسی مشکلات اور عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔

انتخابات کے بارے میں جو جان بوجھ کر ابہام پیدا کیا جارہا ہے اورکوئی انتخابی مہم کے سیاسی آثار نظر نہیں آرہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم انتخابات کے بارے میں یہ سیاسی ابہام ، غیر یقینی صورتحال یا انتخاب نہ کروانے کی ضد یا انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی خواہش سے کب باہر نکلیں گے؟


کب سیاست او رجمہوریت یا انتخابی عمل میں عملی طور پر سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کا کھیل ختم ہوگا اورہم آئینی، سیاسی ، جمہوری اور قانونی بنیادوں پر اپنے سیاسی نظام کی طرف بڑھنے کا حتمی فیصلہ کریں گے ۔ کیونکہ اس وقت کے جو حالات ہیں یا اس میں جو رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے نتیجے میں اول تونتخابات کی ترجیح ہی میں ابہام موجود ہے یا اگر انتخابات کی کڑوی گولی کھانی بھی پڑے تو اس عمل کو شفافیت کے بجائے اتنا متنازعہ میں بدل دیں تاکہ ایک طرف حالات کی درستگی کے بجائے بگاڑ کی طرف جائیں اور دوسری طرف انتخابات سے پہلے ہی عام انتخابات کے معاملات کو مکمل طور پر متنازعہ بنیادیا جائے ۔

سیاست,جمہوریت اورقانون یا آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے یا حالات میں جب ایک بڑا بحران موجود ہو تو اس کا علاج جمہوریت میں عملی طور پر نئے انتخابات ، نئے مینڈیٹ او رنئی منتخب حکومت سے ہی ہوتا ہے ۔پاکستان کے جو حالات ہیں وہ کسی نگران حکومتوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی صلاحیت ہوتی ہے او رنہ ہی کوئی مینڈیٹ کہ وہ مستقل اور بڑے فیصلوں کی طرف پیش قدمی کرے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نگرانوں کا کھیل محض انتخابات او روہ بھی انتخابات کی شفافیت اور پرامن طریقے سے منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی تک ہی محدود ہوتا ہے۔

اس فریم ورک سے اگر نگران حکومت باہر نکلے گی تو نہ صرف آئینی بحران پیدا ہوگا بلکہ اس کا نتیجہ مزید سیاسی اور معاشی کمزوریوں یا نئے انتشار کی صورت میں نمودار ہوتاہے۔ انتخابات کی تاخیر میں جس طرح سے ہم اپنے ریاستی اداروں یعنی الیکشن کمیشن , عدلیہ اور انتظامی معاملات کی بے بسی یا اس میں آئینی او رقانونی فیصلوں کے مقابلے میں سیاسی سمجھوتوں یا سیاسی مصلحت غالب نظر آتی ہے وہ کسی بھی صورت میں ریاستی او رملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔اس کھیل سے ہم اپنا داخلی اور خارجی دونوںمحاذوں پر تماشہ بنا رہے ہیں اور جو ظاہرکرتا ہے کہ پاکستان جمہوریت اور آئین کی حکمرانی میں کہاں کھڑا ہے۔

بروقت او رمقررہ مدت میںانتخابات ایک آئینی تقاضہ ہے ۔ کسی فرد یا کسی جماعت کو بنیاد بنا کر انتخابات کا کھیل نہیں سجایاجاتابلکہ اس کھیل کو آئینی فریم ورک میں ڈھالا جاتا ہے۔کیونکہ محض انتخابات کا مسئلہ نہیں بلکہ انتخابات سے فرار کا راستہ ایک کمزور سیاسی نظام کا راستہ ہے اور یہ راستہ مزید نئے انتظامی , سیاسی اور قانونی انتشار سمیت حکمرانی کے نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

مسئلہ محض الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ اس ادارے کو انتخابی تاخیر میں جو سہولت کاری سابقہ شہباز شریف حکومت نے دی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیونکہ شہباز حکومت یا ان کی اتحادی جماعتوں کو انتخابات اپنے حق میں نظر نہیں آتے او راسی بنیاد پر انتخابی تاخیر کا کھیل بڑی سوچ سمجھ کر سجایا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر مجموعی سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن اور فیصلہ کن قوتیں انتخابی تاخیر کے کھیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔یہ جو ہمیں الیکشن کمیشن اپنی ڈھٹائی دکھارہا ہے، اس کی اصل طاقت کہاں ہے، یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کون ان کا ریموٹ کنٹرول چلارہا ہے۔

یہ کھیل ہی منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمیں انتخابات کے نام پر اپنی مرضی کے ہی سیاسی نتائج درکار ہیں اور اس کی ضمانت کی بنیاد پر ہی انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ایک سیاسی اور جمہوری نظام میں بروقت انتخابات سے گریز کی پالیسی یا اس میںجان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کرنے کی روش ہی جمہوریت اور آئین کی حکمرانی کے برعکس ہے۔یہاں جو بھی طبقہ انتخاب مخالف ایجنڈا رکھتا ہے، وہ جمہوریت کے مقابلے میں غیر جمہوری نظام یا شخصی نظام کا حامی ہے، وہ جمہوریت کے بجائے غیر جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہے ۔

ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ جو دباو ہے اس کو مدنظر رکھ کر فروری کے آخری ہفتے میں انتخابی میدان سجایا جاسکتا ہے۔امریکی اور برطانوی سفیروں کی چیف الیکشن کمیشن سے ملاقات , صدر مملکت کی اہم افراد او راداروں سے ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی طور پر ممکن بنانے کے لیے کچھ پس پردہ گفتگو چل ہی ہے۔

یہ کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے اور کس حد تک تمام سیاسی اور انتخابی فریق انتخابی شفافیت اور لیول پلینگ فیلڈ پر مطمن ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اب مسئلہ محض پی ٹی آئی اور عمران خان تک محدود نہیں بلکہ پیپلزپارٹی بھی گلہ کررہی ہے کہ اس کے لیے انتخابی لیول پلینگ فیلڈ نہیں بلکہ ان کو بھی سازشی کھیل کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کو بھی کہنا پڑرہا ہے کہ ملک کو چلانے کا پرانا طریقہ چھوڑا جائے یقیناًان کا اشارہ اسٹیبلیشمنٹ کی طرف ہے۔ بہرحال انتخابات ہی ملک کے مسائل کے حل کی کنجی ہے اور یہ ہی قومی ترجیح بھی ہونی چاہیے ۔
Load Next Story