حمیت کہاں گئی
عافیہ صدیقی اپنے والدین اوراپنے بچوں کے بارے میں فکرمند رہیں جنھیں انھوں نے بچہ سا چھوڑا تھا اور اب وہ جوان ہوچکے ہیں
یہ 2003 کی بات ہے کہ پاکستان کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب اور شائستہ خاتون کو پاکستانی علاقے سے اس وقت اغوا کرلیا گیا جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ملک میں موجود تھیں۔ ان کے اس اغوا پر کافی بے چینی ظاہر کی جاتی رہی مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کو کس نے اور کیوں اغوا کیا ہے۔ یہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں جن کے چھوٹے بچے بلکتے رہے اور وہ غائب ہوگئیں۔
کئی سال بعد افغان جنگ کے اختتام پر جب امریکی افغانستان سے جا رہے تھے اور چند قیدیوں کو رہا کیا گیا تو ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ افغانستان کی جیل میں کوئی پاکستانی خاتون بھی قید ہے اور اس کی کوٹھری سے اکثر آہ و بکا کی آوازیں آتی رہتی ہیں اور بالآخر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ بدنصیب خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔
امریکیوں نے انھیں افغانستان سے امریکا منتقل کر دیا۔ ان پر 11 ستمبر کے امریکی ٹاورز پر حملہ کرنے والوں سے رابطہ رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کو پاکستان کے ایک بہ زعم خود '' بہادر'' حکمران نے اغوا کرا کر امریکی آقاؤں کے حوالے کردیا تھا، یہ حکمران تھے پرویز مشرف۔
امریکا نے انھیں گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں منتقل کردیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جو ہے تو امریکا کے زیر تسلط مگر یہاں امریکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، گویا یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔ یہاں بھی اس بدنصیب خاتون پر بے تحاشا تشدد کیا جاتا رہا نہ کسی کو اس سے ملنے دیا گیا نہ کسی کو وکیل کیا جا سکا نہ کسی سے منصفی چاہی گئی۔
ہاں پاکستان میں کبھی کبھی ایک غیر موثر سی آواز اٹھتی رہی کہ ہماری حکومت کو امریکا سے ان خاتون کی بازیابی کے لیے گفتگو کرنی چاہیے مگر کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش ان کی رہائی کی نہیں کی۔
متعدد مواقع ایسے بھی آئے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکی شہریوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بدلے میں اس خاتون کی رہائی کی کوشش کی جاسکتی تھی مگر امریکی ملزمان بخیر و عافیت اپنے ملک کو بھیجے جاتے رہے مگر کسی پاکستانی حکومت نے اس خاتون کو مجرموں کے تبادلے میں آزاد کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومتیں جس سرد مہری کا ثبوت دیتی رہیں وہی سرد مہری یہاں کے عوام اور ذرایع ابلاغ نے بھی روا رکھی۔
اب اس اغوا یا گرفتاری کو بیس سال سے زیادہ ہو چکے، اغوا کے وقت جو بچے والدہ سے محروم ہوگئے تھے اور اپنے ننھیال میں پالے جا رہے تھے اب بیس سال سے زیادہ عمر کے ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں کسی کو علم نہیں کہ اس بدنصیب عورت پر کیا الزامات عائد کیے گئے، کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، کب سزا ملی، کس عدالت نے سزا سنائی اور آخر مدت عذاب کس قدر مقرر ہوئی۔
پچھلے دنوں ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایف ایم سی کارڈویل جیل میں ان سے ملاقات کی کہ اب وہ امریکی سرزمین پر جیل کی سختیاں جھیل رہی ہیں۔ مشتاق احمد کا بیان ہے کہ یہ ملاقات اس چھوٹی سی جیل کی کوٹھری میں ہوئی جسے شیشے کی ایک دیوار کے ذریعے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ دونوں بہنوں کو ہاتھ ملانے یا گلے لگنے کا موقع نہیں دیا گیا، البتہ ان کے وکیل مسٹر کلایو اسٹیورڈ اسمتھ بھی موجود تھے۔
عافیہ صدیقی کے منہ کے اوپر کے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ سر پر ایک چوٹ کے باعث ان کی سماعت بھی متاثر ہوئی ہے اور وہ بار بار یہ کہتی رہیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ ملاقات تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی جس میں عافیہ صدیقی روتی بلکتی رہیں۔ ان کی پوری گفتگو ریکارڈ کی جاتی رہی۔ عافیہ صدیقی اپنے والدین اور اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند رہیں جنھیں انھوں نے بچہ سا چھوڑا تھا اور اب وہ جوان ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے وکیل نے کہا کہ اس ملاقات کے وقت میرا موجود ہونا میرے لیے اعزاز کا باعث ہے۔ مشتاق صاحب کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے کم از کم ملنے جلنے کا راستہ تو کھل گیا ہے۔اس ملاقات کے بعد اس کے وکیل مسٹر اسمتھ پاکستان آئے۔ انھوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کنجی پاکستان میں ہے۔ اس سے ان کا کیا مقصد تھا اس کی وضاحت انھوں نے نہیں فرمائی۔ ڈاکٹر عافیہ کے اغوا، گرفتاری، قید اور سزا کے ہر مرحلے پر پاکستانی عوام کی بے حسی اور حکومتوں کی مصلحت کوشی نے ثابت کردیا ہے کہ:
جسے کہتے ہیں غیرت وہ گئی تیمور کے گھر سے
واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی رائے عامہ اور حکومتی حلقوں کی بے حسی نے ہمارے معاشرے کے '' اعلیٰ معیار'' کا پول کھول دیا ہے۔
کئی سال بعد افغان جنگ کے اختتام پر جب امریکی افغانستان سے جا رہے تھے اور چند قیدیوں کو رہا کیا گیا تو ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ افغانستان کی جیل میں کوئی پاکستانی خاتون بھی قید ہے اور اس کی کوٹھری سے اکثر آہ و بکا کی آوازیں آتی رہتی ہیں اور بالآخر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ بدنصیب خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔
امریکیوں نے انھیں افغانستان سے امریکا منتقل کر دیا۔ ان پر 11 ستمبر کے امریکی ٹاورز پر حملہ کرنے والوں سے رابطہ رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان کو پاکستان کے ایک بہ زعم خود '' بہادر'' حکمران نے اغوا کرا کر امریکی آقاؤں کے حوالے کردیا تھا، یہ حکمران تھے پرویز مشرف۔
امریکا نے انھیں گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں منتقل کردیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جو ہے تو امریکا کے زیر تسلط مگر یہاں امریکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، گویا یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔ یہاں بھی اس بدنصیب خاتون پر بے تحاشا تشدد کیا جاتا رہا نہ کسی کو اس سے ملنے دیا گیا نہ کسی کو وکیل کیا جا سکا نہ کسی سے منصفی چاہی گئی۔
ہاں پاکستان میں کبھی کبھی ایک غیر موثر سی آواز اٹھتی رہی کہ ہماری حکومت کو امریکا سے ان خاتون کی بازیابی کے لیے گفتگو کرنی چاہیے مگر کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش ان کی رہائی کی نہیں کی۔
متعدد مواقع ایسے بھی آئے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکی شہریوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بدلے میں اس خاتون کی رہائی کی کوشش کی جاسکتی تھی مگر امریکی ملزمان بخیر و عافیت اپنے ملک کو بھیجے جاتے رہے مگر کسی پاکستانی حکومت نے اس خاتون کو مجرموں کے تبادلے میں آزاد کرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومتیں جس سرد مہری کا ثبوت دیتی رہیں وہی سرد مہری یہاں کے عوام اور ذرایع ابلاغ نے بھی روا رکھی۔
اب اس اغوا یا گرفتاری کو بیس سال سے زیادہ ہو چکے، اغوا کے وقت جو بچے والدہ سے محروم ہوگئے تھے اور اپنے ننھیال میں پالے جا رہے تھے اب بیس سال سے زیادہ عمر کے ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں کسی کو علم نہیں کہ اس بدنصیب عورت پر کیا الزامات عائد کیے گئے، کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، کب سزا ملی، کس عدالت نے سزا سنائی اور آخر مدت عذاب کس قدر مقرر ہوئی۔
پچھلے دنوں ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایف ایم سی کارڈویل جیل میں ان سے ملاقات کی کہ اب وہ امریکی سرزمین پر جیل کی سختیاں جھیل رہی ہیں۔ مشتاق احمد کا بیان ہے کہ یہ ملاقات اس چھوٹی سی جیل کی کوٹھری میں ہوئی جسے شیشے کی ایک دیوار کے ذریعے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ دونوں بہنوں کو ہاتھ ملانے یا گلے لگنے کا موقع نہیں دیا گیا، البتہ ان کے وکیل مسٹر کلایو اسٹیورڈ اسمتھ بھی موجود تھے۔
عافیہ صدیقی کے منہ کے اوپر کے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ سر پر ایک چوٹ کے باعث ان کی سماعت بھی متاثر ہوئی ہے اور وہ بار بار یہ کہتی رہیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ ملاقات تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی جس میں عافیہ صدیقی روتی بلکتی رہیں۔ ان کی پوری گفتگو ریکارڈ کی جاتی رہی۔ عافیہ صدیقی اپنے والدین اور اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند رہیں جنھیں انھوں نے بچہ سا چھوڑا تھا اور اب وہ جوان ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کے وکیل نے کہا کہ اس ملاقات کے وقت میرا موجود ہونا میرے لیے اعزاز کا باعث ہے۔ مشتاق صاحب کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے کم از کم ملنے جلنے کا راستہ تو کھل گیا ہے۔اس ملاقات کے بعد اس کے وکیل مسٹر اسمتھ پاکستان آئے۔ انھوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کنجی پاکستان میں ہے۔ اس سے ان کا کیا مقصد تھا اس کی وضاحت انھوں نے نہیں فرمائی۔ ڈاکٹر عافیہ کے اغوا، گرفتاری، قید اور سزا کے ہر مرحلے پر پاکستانی عوام کی بے حسی اور حکومتوں کی مصلحت کوشی نے ثابت کردیا ہے کہ:
جسے کہتے ہیں غیرت وہ گئی تیمور کے گھر سے
واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی رائے عامہ اور حکومتی حلقوں کی بے حسی نے ہمارے معاشرے کے '' اعلیٰ معیار'' کا پول کھول دیا ہے۔