پی ٹی آئی کے جلسے نے کارکنوں میں نئی روح پھونک دی

عمران خان نے اپنا پرانا انتخابی رنگ دکھا کر سب کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی وکٹ پر ہرگز نہیں کھیلیں گے

عمران خان نے اپنا پرانا انتخابی رنگ دکھا کر سب کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی وکٹ پر ہرگز نہیں کھیلیں گے۔ فوٹو : فائل

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف جلسہ ،تحریک انصاف کے ورکروں میں نئی روح پھونکنے کے مترادف ہے۔

کیونکہ جب سے طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات شروع ہوئے اور پہلے رستم شاہ مہمند اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے توسط سے حکومت اور پی ٹی آئی کے رابطے ہوئے اور بعد ازاں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف خود چل کر عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے تو اس وقت سے یہ تاثر ملنا شروع ہوگیا تھا کہ جیسے تحریک انصاف اپنی روایتی سیاست بھول کر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حقیقی معنوں میں ایک ہی صفحہ پر آکھڑی ہوئی ہے اور شاید عمران خان کے آس پاس کے لوگوں نے بھی اسی صورت حال اور چہ میگوئیوں کا احساس انھیں دلایا جس کے باعث 11 مئی کو اسلام آباد میں میدان سجایا گیا جس سے ملکی سطح پر تحریک انصاف اور سیاسی نظام کو کس حد تک فائدہ ہوتا ہے یا اس کے بدلے خسارہ ہی خسارہ ہاتھ لگے گا اس سے قطع نظر اس جلسہ کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کو نئی آکسیجن مل گئی ہے کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے تحریک انصاف اپنے اندرونی مسائل کا انتہاکی حد تک شکار ہو چکی تھی اور ناراض ارکان کی جانب سے اپنی الگ پہچان بنانے کے باعث ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ جیسے تحریک انصاف میں گھر کے اندر ہی سے نقب لگ چکی ہے، تاہم عمران خان نے اپنا پرانا انتخابی رنگ دکھا کر سب کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی وکٹ پر ہرگز نہیں کھیلیں گے بلکہ اس کیلئے وہ اپنا میدان سجائیں گے۔

تحریک انصاف کے ناراض ارکان کے دباؤ یا کارکردگی کی بنیاد پر ایک وزیر اور ایک مشیر کو حکومتی ٹیم سے باہر کرنے کے بعد اسی طرح کی دوسری قسط بھی آنا تھی جس میں دو وزراء اور ایک مشیر کے نام شامل تھے تاہم حکومت کو بجٹ کا مرحلہ درپیش تھا اور حکومت کی خواہش تھی کہ اس موقع پر حکومتی ٹیم کے مزید کسی رکن کو باہرکرنا مناسب نہیں ہوگا اس لیے ناراض اراکین نے اس بات پر اتفاق کرلیا ہے کہ بجٹ تک یہ باب بند رہے اور بجٹ کے بعد اس پر بات کی جائے گی۔

تاہم اس موقع پر حکومت کو جو مرحلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ حکومتی ٹیم سے فارغ کیے جانے والے وزیر شوکت یوسفزئی تو اپنی جگہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں مگر سابق مشیر یاسین خلیل نے جس انداز میں اسمبلی میں وزیراعلیٰ پر چڑھائی کی اور پھر جس طریقہ سے وزیراعلیٰ نے انھیں جواب دیا، اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو اس سے بات کسی انتہائی اقدام کی جانب بھی جاسکتی ہے اس لیے تحریک انصاف کو یہ ہنڈیا بیچ چوراہے میں لاکر پھوڑنے کی بجائے معاملہ کو گھر کے اندر ہی سنبھالنا چاہیے بصورت دیگر اس کا فائدہ اپوزیشن اٹھائے گی،تحریک انصاف کو اس کا فائدہ کم ہی ملے گا۔


قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کی راہیں جدا ہونے کی بنیاد اس عمل سے دو، ڈھائی ماہ قبل اس وقت پڑی تھی جب قومی وطن پارٹی نے صدارتی الیکشن کے موقع پر پی ٹی آئی کے امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین کی بجائے (ن) لیگ کے امیدوار ممنون حسین کو سپورٹ کرنے اور ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا ، جس کا نتیجہ دونوں پارٹیوں کی جدائی کی صورت میں نکلا ۔اب جبکہ تحریک انصاف مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف میدان میں نکلی ہے تو اس کی دوسری اتحادی پارٹی، جماعت اسلامی اس سے اس موقع پر پیچھے ہٹ گئی ہے، اسی روز کہ جب عمران خان اسلام آباد میں میدان سجائے ہوئے تھے۔

سراج الحق نے اپنا الگ میدان لاہور میں سجایا اور جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے اس پروگرام کی وجہ سے پی ٹی آئی کے پروگرام کو لفٹ نہیں کرائی اور بات صرف یہیں تک موقوف نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یہ بھی واضح کردیا کہ'' وہ جمہوری عمل کے خلاف کسی بھی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے''، ہوسکتا ہے کہ ان کا اشارہ تحریک انصاف کی تحریک کی جانب نہ ہو تاہم ان کی کہی ہوئی بات کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ یہ پی ٹی آئی ہی کی تحریک کی جانب اشارہ لگتا ہے اوراگر تحریک انصاف نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے لیا تو یہ امر دونوں پارٹیوں کے درمیان جدائی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

تحریک انصاف نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف اپنا محور پنجاب اور وفاقی دارالحکومت کو بنایا ہے ، اب اگلا میدان فیصل آباد میں سجانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے ساتھ ہی ہر جمعہ کے روز الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر مظاہرے کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف مسلم لیگ(ن) کو نیچا دکھانے پر تلی ہوئی ہے تو اس کا حساب بھی تو برابر کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اس کا حساب برابر کرنے کا میدان کوئی اور نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی ہو سکتا ہے کہ جہاں پر اگر تحریک انصاف کی حکومت ہے تو ساتھ ہی گورنر مسلم لیگ (ن) کا ہے اور وہ بھی سردار مہتاب جیسی سیاسی شخصیت، جو گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی صوبائی سیاست میں پوری طرح متحرک ہیں اور یہ سردار مہتاب ہی ہیں کہ جن کی مداخلت پر مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے درمیان صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدہ کے لیے جاری تنازعہ ختم ہوا اور یہ عہدہ جے یو آئی کو مل گیا۔

اس لیے اب اگر گورنر کو ''اوپر'' سے حساب برابر کرنے کا اشارہ ملتا ہے اور وہ اس کام کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے مدد مانگتے ہیں تو یقینی طور پر اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی ہوں گی تاہم یہ وہ مہم جوئی ہوگی کہ جس سے قبل مرکز کو ایک ، دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا کیونکہ مرکز میں بہت سی وجوہات کی بنا پر مشکلات میں گھری مسلم لیگ(ن) کے لیے حالات مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story