ورلڈکپ جیت کر ایشیاکپ کا ازالہ کریں

ایشیا کپ میں نتائج جیسے بھی رہے شائقین کو ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، یہ کھلاڑی بہترین نتائج دینے کے اہل ہیں


ایشیا کپ میں نتائج جیسے بھی رہے شائقین کو ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، یہ کھلاڑی بہترین نتائج دینے کے اہل ہیں۔ فوٹو: گیٹی امیجز

اس بار ایشیا کپ میں مجھ سمیت کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگوں کو قومی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں،ایسا لگتا تھا جیسے ہم ٹرافی حاصل کر لیں گے۔

کاغذ پر تو ہماری ٹیم بھارت سے زیادہ مضبوط دکھائی دے رہی تھی لیکن بدقسمتی سے کارکردگی اتنی اچھی نہ رہی،کم از کم فائنل تو کھیلنا ہی چاہیے تھا مگر کھلاڑی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے، گوکہ یہ ٹورنامنٹ پی سی بی کی میزبانی میں ہو رہا ہے لیکن چار ہی میچز کا ملک میں انعقاد ہو سکا، سفری مشکلات کو بھی پاکستانی ٹیم کے کھیل میں اتار چڑھاؤ کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ بطور پروفیشنل آپ کو ایسے مسائل سے نمٹنا ہی پڑتا ہے۔

ہر کوئی پاکستان کو فیورٹ قرار دے رہا تھا شاید اس سے بھی کرکٹرز اضافی دباؤ کا شکار ہوئے، پھر سری لنکا کے خراب موسم نے ٹیم کو سیٹ نہیں ہونے دیا، بارش سے بار بار کھیل رکتا رہا، اگر بھارتی بورڈ اور ایشین کرکٹ کونسل کے ٹاپ آفیشل جے شاہ ضد نہ پکڑتے تو ایشیا کپ متبادل وینیو پر ہو جاتا لیکن وہ کولمبو کے سوا کہیں اور سپرفور میچز کرانا ہی نہیں چاہتے تھے، پہلے انھوں نے اپنی ٹیم کو پاکستان نہ بھیج کر مزا خراب کیا، ہر روز شائقین موسم کا حال ہی دیکھتے رہے، موجودہ دور میں کرکٹ مالی فائدے کیلئے ہی کھیلی جاتی ہے۔

سب کو اندازہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں میچ سے بھاری آمدنی حاصل ہوتی ہے،اسی لیے ریزرو ڈے بھی رکھا گیا، کسی اور مقابلے میں ایسا نہیں تھا، حیرت کی بات ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش نے بھی اس پر آواز نہ اٹھائی،سری لنکا سے پاکستان کا میچ بھی موسم کی وجہ سے بار بار رکا، اس کا کوئی ریزرو ڈے نہ تھا، اگر نامکمل رہتا تو میزبان ٹیم فائنل میں پہنچ جاتی، ٹورنامنٹ میں پاکستان کو انجریز نے بھی بہت پریشان کیا۔

نسیم شاہ اور حارث رؤف پہلے انجرڈ ہوئے، پھر اہم مقابلے سے پہلے امام الحق اور سعود شکیل کو بھی مسائل نے آ گھیرا، فخرزمان کو آؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود کھلانا پڑا مگر وہ اس موقع سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے، عبد اللہ شفیق نے اچھی بیٹنگ کی، اوپننگ کے مسائل جلد حل ہونا چاہیئں، بابر اعظم کی بیٹنگ دیکھ کر مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بڑی اننگز کھیلیں گے مگر سیٹ ہونے کے بعد آؤٹ ہو گئے،محمد حارث ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے،انھیں ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر تجربہ حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے۔

اگر محمد رضوان اور افتخار احمد ذمہ داری سے نہ کھیلتے تو ٹیم کیلئے بڑا اسکور بنانا دشوار ہوجاتا، بولنگ میں ایک وقت میچ ہاتھ سے نکلتا محسوس ہو رہا تھا مگر شاہین شاہ آفریدی مسلسل 2 گیندوں پر 2 وکٹیں لے کر ٹیم کو کھیل میں واپس لے آئے،زمان خان کی وجہ شہرت اختتامی اوورز میں عمدہ بولنگ ہے، انھوں نے اپنے پہلے انٹرنیشنل مقابلے میں اچھا کھیل پیش کیا، اگر ایج سے چوکا نہ ہوتا تو وہ پاکستان کو فتح دلا سکتے تھے۔

اگر ہم پورے ٹورنامنٹ کا تجزیہ کریں تو ہماری بولنگ شایان شان نہ تھی، ہمیں سب سے زیادہ ناز اپنے بولرز پر ہی ہے لیکن وہ بھارت سے میچ میں بدترین شکست کے بوجھ سے باہر نہ نکل سکے، پیسرز تو پھر بھی تھوڑا بہت پرفارم کرتے رہے لیکن اسپنرز کی کارکردگی بیحد مایوس کن رہی، ورلڈکپ بھارت میں ہو رہا ہے جہاں کی پچز سلو بولرز کیلئے سازگار ہوں گی، ایسے میں ہمیں معیاری اسپنرز کا انتخاب کرنا چاہیے، شاداب خان توقعات پر پورا نہیں اتر رہے، انھیں کھیل میں بہتری لانی چاہیے، بیٹنگ میں بھی ٹاپ آرڈر کے مسائل برقرار ہیں۔

بابر اعظم کو بطور کپتان ابھی مزید سیکھنے کی ضرورت ہے، ورلڈکپ اب چند دنوں کے فاصلے پر ہے،اس سے پہلے ایسی کارکردگی اچھا شگون نہیں لگتی، البتہ اس سے کھلاڑیوں کو اپنی غلطیاں دور کرنے کا موقع ضرور ملے گا، ایسا محسوس ہوا کہ کئی مواقع پر ٹیم دباؤ کا شکار نظر آئی، اس مسئلے پر قابو پانا ہوگا، بھارت میں تو ہر میچ میں میزبان شائقین کا بھی دباؤ ہوگا، ایسے میں اگر کھلاڑیوں نے اعصاب قابو میں نہ رکھے تو کیسے جیتیں گے، خصوصا احمد آباد میں ایک لاکھ افراد کے سامنے بھارتی ٹیم سے مقابلے میں خود کو پْرسکون رکھتے ہوئے سوفیصد صلاحیتوں کا اظہار کرنا ہوگا۔

گوکہ ایشیا کپ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی لیکن اب بھی مجھے پاکستانی ٹیم سے خاصی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ورلڈکپ میں عمدہ پرفارم کرے گی، اگر آپ مسلسل فتوحات حاصل کرتے رہیں تو حد سے زیادہ اعتماد کی وجہ سے بعض اوقات اہم مواقع پر مسائل ہو جاتے ہیں، ایسی شکستیں قدم زمین پر رکھنے میں مدد دیتی ہیں، چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کام اب زیادہ بڑھ گیا، ان کیلئے متوازن اسکواڈ کی تشکیل چیلنج ہے، ایشیا کپ کی ٹیم کے بعض منتخب کھلاڑیوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، ان کو تبدیل کرنا ہوگا۔

سب سے اہم کام ٹیم مینجمنٹ کا ہے کہ وہ پلیئرز کو صلاحیتوں پر یقین دلائے اور اچھی کارکردگی سامنے لائے، ماہر نفسیات بھی ساتھ ہیں، ان کو بھی ٹیم کا اعتماد بڑھانا چاہیے، سری لنکا کیخلاف میچ کیلئے پاکستان نے 5 تبدیلیاں کی تھیں، ورلڈکپ سے چند روز قبل ایسی صورتحال ٹھیک نہیں لگتی، فٹنس مسائل بھی باعث تشویش ہیں، نسیم شاہ اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں مگر ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ شاید کندھے میں درد کی وجہ سے وہ ورلڈکپ کے چند ابتدائی میچز نہیں کھیل سکیں گے، یہ ٹیم کے لیے بڑا نقصان ہوگا۔

ایشیا کپ میں نتائج جیسے بھی رہے شائقین کو ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے، یہ کھلاڑی بہترین نتائج دینے کے اہل ہیں، ایک بار اگر ٹیم فتوحات کی راہ پر گامزن ہوئی تو اسے روکنا کسی بھی حریف کیلئے آسان نہ ہو گا، مجھے امید ہے کہ ٹیم ایشیا کپ کی ناقص کارکردگی کا ازالہ ورلڈکپ جیت کر کرے گی،میں بابر اعظم کو بھارتی سرزمین پر سنچریاں بناتے اور شاہین شاہ آفریدی کو وکٹیں اڑاتے دیکھنے کے لیے بے چین ہوں، امید ہے ایسا ہی ہوگا۔

سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں