گیارہ مئی کا جلسہ اور نواز لیگ کا چیلنج
انتخابات کے ذریعے نئی حکومت کی تشکیل وہ ہدف ہے جسے عمران خان کی جماعت 11 مئی کے جلسے کے بعد دل وجاں سے اپنا چکی ہے
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
گیارہ مئی کو اسلام آباد میں ایک توانا جلسہ کر کے عمران خان نے غیر یقینی اور تذبذب کی اس دھند کو بہت حد تک ختم کردیا ہے جو ایک عرصے سے ان کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔ان کی طرف سے کیے جانے والے مطالبات کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے اور پرکھنے کے بجائے یکجا کرکے تجزیہ کیا جائے تو ان کے اہداف واضح ہو جائیں گے۔الیکشن کمیشن کے اراکین کے استعفوں کا مطالبہ کرکے وہ اس نقطہ نظر کی تشہیر کو تحریک میں بدل رہے ہیں جو انتخابات کے موجودہ عمل کو اس حد تک کمزور سمجھتا ہے کہ اس کے نتائج ازخود دھاندلی کے سوا کسی اور طرح سے دیکھنے کے لائق نہیں رہتے۔
لاہور کے حلقوں میں سے چند ایک پر دوبارہ سے انگھوٹوں کی شناخت کے ذریعے تصدیق کواس اخلاقی فتح میں بدلنا چاہتے ہیں جس کے بعد وہ تمام نتائج کے بارے میں اعتراض کرنے کی موثر گنجائش پیدا کر پائیں۔اسی وجہ سے مسلم لیگ نواز اس معاملے پر پس وپیش سے کام لے رہی ہے۔اس کی قیادت کو علم ہے کہ اس حلقے کے نتیجے میں ردوبدل عمران خان کے دھاندلی کے الزام کو آسمان پر لے جائے گا۔اس کے بعد دوسری جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ق زوروشور سے سیاسی سردخانے سے باہر آکرعمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے گی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری اور جماعت اسلامی کے سراج الحق 2013 کے انتخابات کو نقلی اور جھوٹا قرار دے چکے ہیں۔اصل ہدف پنجاب ہےجہاں پر سیاسی تغیروتبدل تمام ملک پراثرانداز ہوتا ہے۔اس اعتراض کو پنجاب میں پیپلز پارٹی مقامی طور پر بڑھا چڑھا کر بیان کرے گی۔پنجاب میں اس جماعت کے شکست خورد ہ لیڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کی جو پتنگ پچھلے سال اونچی ہوائوں میں تنی کھڑی تھی موجودہ سیاسی حبس میں بمشکل اپنا توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔
وہ اس موقع کو استعمال کر کے ایک مرتبہ پھر روح پھونکنا چاہتے ہیں۔اس طرح عمران خان کا یہ مطالبہ پنجاب میں ایک طاقتور تحریک کے طور پر ابھر سکتاہے۔چوہدری شجاعت حسین جون سے پہلے متحدہ سیاسی محاذ بنانے کے لیے اپنی بیٹھک کے دوازے کھول چکے ہیں۔عمران خان ان کے ساتھ چائے پینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔نواز لیگ لاہور جو کہ اس کا گڑھ ہے میں سے ایک انتخابی نتیجے کی تبدیلی کے نتیجے سے بخوبی واقف ہے۔لہٰذا وہ اس معاملے کو عمران خان کے ہاتھ میں دینا ہی نہیں چاہتی۔
دوسری طر ف عمران خان کی جماعت کو دھاندلی کے الزام کے گہر ے مگر محدود ہونے کا بھی احسا س ہے۔اسی وجہ سے انہوں نے نواز لیگ کے خلا ف محاذ کو بڑا اور اُس سے سیا سی دنگل کے اکھاڑے کو کھلا کردیا ہے۔عمران خان کی گیارہ مئی کی تقریر میں بدعنوانی،اقرباء پروری،قومی بدحالی اور بد انتظامی وغیرہ کے ان گنت حوالے موجود تھے۔قومی وسائل کے ذاتی استعمال کر نے اور اُس سے ذاتی فائدہ حاصل کر نے کا مقدمہ بھی اب ان الزامات کا حصہ بنادیا گیا۔
عمران خان نئے انتخابی عمل کے ذریعے مرکز میں حکومت بنانا چاہتے ہیں۔اور اس سے پہلے نواز لیگ کو اس حد تک متنازع اور بدنام کر نا چاہتے ہیں کہ قبل ازوقت اس کا بوریا بستر گول ہوجانے پر نہ کوئی حیرت زدہ ہواور نہ ہی غمگین۔نواز لیگ مخالف جماعتو ں کے حلقوں میں فوج کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کی کہانی اب ہر کسی کی زبانی سنی جاسکتی ہے۔یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔نواز لیگ اور فوج کے درمیان معاملات اتنے دگرگوں ہوچکے ہیں کہ کسی بڑے کرشمے کے علا وہ ان کا جلد بہتر ہو جانا جلد ممکن نظر نہیں آتا۔
ایک خا ص میڈیا گروپ کے ساتھ نواز لیگ کی خاص الفت نے جن بد گمانیوں اور خد شات کے طوفان کو کھڑا کیا تھا وہ ابھی بھی تمام تندی کے ساتھ موجود ہے ۔اگلے چند ماہ میں ہونے والی اہم عسکری تعینا تیوں پر نواز لیگ کی قیا دت کے قبل از وقت اشتیاق اور غیر ضروری پھر تیوں نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
فوج سیاست میں سے اپنا عملی کردار کھوجانے کے بعد بھی ایک طاقتور ریاستی ادارہ ہونے کے ناتے نازک سیاسی لمحات کو فیصلہ کن حقائق میں تبدیل کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔نوازلیگ نے اس زاویے کو نظر انداز کرکے خودکو سیاسی طور پر مضبوط کرنے کا ایک تاریخی موقع بے تدبیری سے ضا یع کر دیا۔ ایسے گھا مڑ پن کا مظا ہرہ کیا کہ اس کے بدترین دشمن بھی ششدر ہے۔اس تناظر میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ نئے انتخابات کے ذریعے نئی حکومت کی تشکیل وہ ہدف ہے جس کو عمران خان کی جماعت گیارہ مئی کے جلسے کے بعد دل وجاں سے اپنا چکی ہے۔
مگر اس وقت بھی اس ہدف کو پا لینا آسان نہیں ہے ۔خو اہشو ں کے بانتیجہ ہونے میں ایک طویل اور غیر یقینی عمل شامل ہے ۔جس کے مختلف عناصر عمران خان کی جماعت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔نواز لیگ اپنی تما م غلطیو ں کے باوجود ایک مظبوط سیا سی قلعہ ہے، اس میں زبردستی دارڑیں ڈالنے کا عمل تکلیف دہ نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔نواز شریف کی گرفت طاقت کی لگا م پر ابھی بھی مضبو ط ہے۔وسائل کے سیا سی استعمال کو ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا ۔نہ ہی عمران خان کا ہر مطا لبہ اتنا معقول اور قابل عمل ہے کہ اسکو چیلنج نہ کیا جاسکے۔
مثلا انگو ٹھو ں کے نشانات سے انتخابات کے نتا ئج کو پر کھنے کی جو منشا ء وہ رکھتے ہیں اُس کے بارے میں خیبر پختو نخو ا میں ہونے والے تجربات بری طر ح ناکام رہے ہیں۔میرے دوست صحا فی اسما عیل خان نے اپنی تحقیق سے حا صل کی ہوئی معلو مات مجھے بتلا تے ہوئے اس ناکامی کی نشا ندہی کی۔انہو ں نے بتا یا کہ پشا ور میں نادرا کے ریکارڈ پر مبنی انگو ٹھو ں کی شنا خت کا ایک تجربہ دوسو سے لگ بھگ مضا فاتی علا قوں کے افراداپر کیا گیا ان میں سے 60فیصد کے نشا نات میشنی عمل سے نہ جانچے جاسکے ۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ گا ئو ں کے مرد اپنے ہاتھ سے کا م کر نے کے باعث انگو ٹھے کے نشان کھوچکے تھے۔
دوسری بڑی وجہ نادرا کی اپنی میشنو ں کی کمزوری تھی۔ یہ ناکام تجر بہ خیبر پختو نخو ا کی حکو مت کے ریکا رڈ کا حصہ ہے ۔اسی وجہ سے ضلعی حکومت کے انتخابات اسی روایتی نظام کے تحت کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر عمران خان جلسو ں میں شدید تنقید کرتے ہیں۔نادرا کی مشینی استعداد کو بڑھانے یا الیکشن کمیشن کے ذریعے نئے نظام کو متعا رف کرانے کے لیے جو وقت درکار ہے وہ مہینو ں پر نہیں سالو ں پر محیط ہے۔وسائل کی فراہمی اس کے علا وہ ہے۔بہر کیف عمران خان کی طرف سے سامنے لائے گئے سیا سی چیلنج نے اب ایک واضح اور سخت شکل اختیا ر کر لی ہے ۔نواز لیگ کی سیا سی مشکلا ت گہر ی ہوتی چلی جارہی ہیں۔ایک چیلنج کا مقابلہ اس قسم کی جملہ بازوں سے نہیں کیا جا سکتا جن سے آج کل نواز لیگ کے وزیر حضرات اپنے آپ کو خو ش کر رہے ہیں۔