بجلی کے بل موت کا پیام کیسے بنے
کئی عشروں پہ محیط ارباب ِاختیا ر کی نااہلی، غیر ذمے داری اور لالچ وہوس کی الم ناک داستان
وطن عزیز میں بجلی مہنگی ہونے کی بنا پر کراچی تا خیبر عوام احتجاج کر رہے ہیںبلکہ بعض اہل وطن نے تو خودکشی تک کرنے کا روح فرسا فعل اپنا لیا ۔یوں ان پاکستانیوں کے لیے بل موت کا پروانہ بن گئے۔
بلوں نے ہزارہا گھرانوں میں امن وسکون غارت کر دیا اور وہاں پریشانیوں اور غم وغصّے نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔اگر پڑوسی ممالک میں بجلی کی فی یونٹ قیمت دیکھی جائے تو عام پاکستانی کا احتجاج درست دکھائی دیتا ہے۔
اعدادوشمار کی رو سے بھارت میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 7 تا 8 روپے ہے۔بنگلہ دیش میں ایک یونٹ 9 تا 10 ٹکا میں پڑتا ہے۔دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا میں البتہ قیمت کچھ زیادہ ہے ۔وہاں کوئی 200 یونٹ ماہانہ سے زائد بجلی استعمال کرے تو اسے فی یونٹ 32 روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ سری لنکا میں بھی بل میں صرف ایک ٹیکس، فکسڈ چارج وصول کیا جاتا ہے جو دو سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 480 روپے ہے۔پاکستان میں تو بجلی کے بل میں حکومت نے ایسے عجیب وغریب ٹیکس بھی ڈال دئیے ہیں جو بہ مشکل ہی کسی کی سمجھ میں آتے ہیں۔انہی ٹیکسوں کی وجہ سے عام آدمی کے بل میں ہزاروں روپے کا اضافہ ہو گیا۔
ورنہ محض چار پانچ سال پہلے تک تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر ڈھائی تین ہزار روپے بل آتا تھا۔اب وہی بل سولہ سے بیس ہزار کے مابین آ رہا ہے۔ یہ ٹیکس صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ حکومت پاکستان کی آمدن بڑھ سکے اور وہ شعبہ بجلی کے اپنے بڑھتے اخراجات پورے کر سکے۔
سوال یہ ہے کہ شعبہ بجلی میں حکومتی اخراجات کیوں بڑھ رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ یہ خود حکمران طبقے کی نااہلی، دوراندیشی کی کمی ، وقتی فوائد پر توجہ، بدانتظامی اور لالچ یعنی کرپشن کا شاخسانہ ہے۔اس داستان ِغم کا آغاز 1984ء سے ہوتا ہے جب اہل پاکستان لوڈشیڈنگ کی بلا سے دوچار ہوئے۔ یہ آفت بھی حکمران طبقے کی نااہلی کا نتیجہ تھی۔
آخری ڈیم بنے کئی سال بیت چکے تھے اور نئے ڈیم بنانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس دوران آبادی بڑھنے کی وجہ سے بجلی کی طلب بڑھتی چلی گئی۔جب بجلی پوری نہ ہو سکی تو لوڈشیڈنگ کا جن متعارف کرایا گیا تاکہ طلب کم ہو سکے۔
حکمران طبقے میں شامل بزرجمہروں نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار کا ٹھیکہ سونپ دیا جائے۔چناں چہ 1992ء میں نوازشریف حکومت کے دوران نجی کمپنی سے بجلی کا پلانٹ لگانے کا پہلا معاہدہ ہوا ۔ایسی کمپنیوں کو بعد ازاں ''آئی پی پی ایس ''(Independent Power Producers )کہا گیا۔
میاں نواز شریف کا حکمران طبقے کے دیگر ارکان سے تصادم ہو گیا اور ان کی حکومت رخصت ہوئی۔بے نظیر بھٹو حکومت آئی تو اس نے نئی پاور پالیسی بنائی اور اسی کے تحت 1994ء میں کئی آئی پی پی ایس سے معاہدے کیے گئے۔
انجم صدیقی ایک آئی پی پی ایس، حب پاور کپمنی کے سینئر مشیر رہے ہیں۔ آئی پی پی ایس کے بارے میں ان کا ایک مضمون مشہور جریدے ، دی پاکستان ڈویلپمنٹ ریویو (The Pakistan Development Review)کے شمارہ سرما، 1998ء میں شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ نجی کمپنیوں (آئی پی پی ایس)نے تب پاکستان بھر میں بجلی کی پیداوار و تقسیم کے سرکاری ادارے، واپڈا کے افسران کو بھاری رشوت دی تھی۔مقصد یہ تھا کہ معاہدوں میں خود کو بھاری مالی فوائد پہنچانے والی شرائط لکھ دی جائیں۔
'' کیپیسٹی چارجز''
آئی پی پی ایس سے کیے گئے معاہدوں میں سب سے قابل اعتراض شرط'' کیپیسٹی چارجز''(capacity charges) کی ہے۔اس شرط کے تحت حکومت پاکستان نے نجی کمپنیوں کی یہ بات مان لی کہ ہر پلانٹ میں جس طرح بھی اور جتنی بھی بجلی بنی، حکومت اسے خریدنے کی پابند ہو گی۔اگر کسی وجہ سے نہ خریدی تب بھی حکومت کو اس کی ڈالر کے ریٹ کے حساب سے قیمت ادا کرنا ہو گی۔اسی قیمت کو کیپیسٹی چارجز کہا گیا۔
یہ '' کیپیسٹی چارجز'' ہی پاکستان میں بجلی کی قیمت اور بل بھی بڑھانے کی پہلی اہم وجہ ہیں۔ پچھلے مالی سال میںماہ جون تک حکومت نے چالیس سے زائدآئی پی پی ایس کو ''ایک ہزار تین سو ارب روپے'' کی خطیر رقم بطور کیپیسٹی چارجز ادا کی تھی۔ شنید ہے کہ اگلے سال کیپیسٹی چارجز ''دو ہزار کھرب روپے'' سے بڑھ جائیں گے۔
چناں چہ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا۔اور یہ قیمت حکمران طبقہ بجلی کی قیمت بڑھا کر پاکستانی عوام سے وصول کرے گا۔واضح رہے، 2013ء میں کیپیسٹی چارجز کی مجموعی رقم صرف ایک سو پچاسی ارب روپے تھی جو اگلے آٹھ سال میں پونے چار ہزار ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا دعوی ہے کہ اکثر آئی پی پی ایس بڑھا چڑھا کر کیپیسٹی چارجز وصول کرتی ہیں تاکہ اپنا منافع زیادہ سے زیادہ بڑھا سکیں۔
اسی لیے ماہرین مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کمپنیوں کا آڈٹ کرایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔اور اگر سرکاری افسروں کی ملی بھگت سے کسی قسم کی کرپشن ہو رہی ہے تو وہ سامنے آ سکے۔
بنگلہ دیش نے چھٹکارا پا لیا
پانچ چھ سال پہلے بنگلہ دیش بھی بجلی کی کمی کاشکار ہوا تو اس نے آئی پی پی ایس کو بجلی بنانے کا ٹھیکہ دے دیا۔ مگر بنگلہ دیشی حکومت کو بھی کیپیسٹی چارجز کا جن چمٹ گیا اور انھیں ہر سال اربوں ٹکا آئی پی پی ایس کو دینے پڑے۔پچھلے مالی سال کے دوران تو کیپیسٹی چارجز کا خرچ آسمان پر جا پہنچا۔
اسی لیے بنگلہ دیشی حکومت نے رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اب آئی پی پی ایس سے جو بھی نئے معاہدے ہوئے، ان میں کیپیسٹی چارجز کی شرط شامل نہیں ہو گی۔
بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اس لحاظ سے دوراندیشی ، عقل مندی اور اچھے انتظام ِحکومت کا ثبوت دیا کہ سبھی آئی پی پی ایس سے مختصر مدت کے معاہدے کیے جو چند سال میں ختم ہو جائیں گے۔ یوں بنگلہ دیشی قوم کو کیپیسٹی چارجز کی آفت سے نجات مل جائے گی۔
پاکستانی حکمران طبقے نے مگر آئی پی پی ایس سے اکثر معاہدے طویل المدتی کر رکھے ہیں۔بعض تو 2040ء میں جا کر ختم ہوں گے۔لہٰذا تب تک پاکستانی قوم کیپیسٹی چارجز کا عذاب سہتی رہے گی۔ یہ پاکستانی حکمران طبقے کی نااہلی اور غیرذمے داری کی انتہا ہے۔
آج پاکستان میں ''61 فیصد''بجلی یہی آئی پی پی ایس بنا رہی ہیں۔ یہی نہیں ، وہ اپنے بجلی پلانٹس میں عموماً بیرون ملک سے منگوایا مہنگا ایندھن استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے بجلی بھی زیادہ مہنگی تیار ہوتی ہے۔
گویا یہ مرے پہ درے مارنے کی مثال ہو گئی۔ عوام پہلے تو کیپیسٹی چارجز کا بوجھ برداشت کرے اور پھر مہنگی بجلی استعمال کرنے کا خرچ بھی اس کے ناتواں کاندھوں پہ ڈال دیا جائے۔
گردشی قرضہ
یہ ایک اور عفریت ہے جو حکمران طبقے کی نااہلی کے باعث عوام ِپاکستان کوچمٹ گیا۔حکومت اگر آئی پی پی ایس کو مطلوبہ رقم ادا نہ کرے تو باقی رہ جانے والی رقم '' گردشی قرضے'' میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس رقم پہ حکومت کو سود بھی دینا پڑتا ہے۔
تازہ اعداد وشمار کی رو سے پاکستانی حکومت پہ تقریباً ''دو ہزار ستر ارب روپے'' کا گردشی قرضہ چڑھ چکا۔ معنی یہ کہ1994ء سے لے کر اب تک آنے والی حکومتیں آئی پی پی ایس کو مطلوبہ رقم ادا نہیں کر سکیں۔ لہذا ادا نہ کی گئی رقم اب پہاڑ بن چکی۔
یہ واضح ہے کہ گردشی قرضہ بھی حکمران طبقے کی نااہلی کے باعث پیدا ہوا۔ وہ ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی منصوبوں پہ خرچ کرتا اور آئی پی پی ایس کو رقم دینے سے کتراتا رہا۔اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو اپنے آپ کو نکالنے کے لیے حکمران طبقے نے بوجھ عوام الناس پہ ڈال دیا۔یعنی گردشی قرضہ ختم کرنے کی خٓاطر بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی اور عام آدمی کو بھاری بل آنے لگا۔
بجلی چوری
پاکستان میں سارے عوام بھی دودھ کے دھلے نہیں ، ان میں موجود بجلی چوروں کی وجہ سے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ۔ مگر ایمان دار صارفین کے ساتھ یہ سخت ناانصافی ہے کہ حکومت بجلی چوری کا مالی نقصان بھی ان کے بجلی کے بل بڑھا کر پورا کر رہی ہے۔
گویا اس شعبے میں بھی حکمران طبقے نے اپنی نااہلی کا ملبہ ایمان دارو لوگوں پہ ڈال دیا۔ وہ بجلی چوروں کو گرفتار کرنے کے لیے تو متحرک نہیں ہوتی، بس آسان راستہ یہی نظر آیا کہ بجلی کی قیمت بڑھا کر اپنا مالی نقصان پورا کر لیا جائے۔
حکومت کا دعوی ہے کہ ہر سال پاکستانی ''پانچ سو ارب روپے ''سے زائد کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ یہ چوری ''کنڈے''ڈال کر یا میٹر میں ردوبدل کر کے کی جاتی ہے۔بجلی چوری کرنے والے پاکستانی نہایت مکار و عیار ہیں۔
مثلاً حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے سکھر ڈویژن میں اے بی سی تاریں (aerial bundled cables) متعارف کرائی تھیں۔ وہاں بجلی چوروں نے ان تاروں سے بجلی چرانے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔ یہ بجلی چور پھر کرپٹ لوگوں کو سستے داموں چرائی گئی بجلی فروخت کرنے لگے۔
اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پختون خیبر خواہ میں ہر سال سب سے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے۔ اس کی مالیت دو سو ارب روپے سے زائد ہے۔
صوبے میں بجلی چوری میں ضلع بنوں سرفہرست ہے۔ اس کے بعد مردان کا نمبر آتا ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی بجلی چوری کی شرح کافی زیادہ ہے۔ پنجاب میں یہ شرح سب سے کم ہے۔ گویا اہل پنجاب کی اکثریت اپنا بل ادا کر دیتی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ بجلی چوروں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔ فی الوقت پاکستان میں بجلی چور نرم قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹ جاتے ہیں۔ امریکا میں کوئی شہری بجلی چوری کرتا پکڑا جائے تو اسے ''1500 ڈالر''جرمانہ ہوتا ہے اور عموماً پانچ سال کی جیل بھی کاٹنا پڑتی ہے۔اسی طرح بھارت میں بجلی چوری کی سزا تین سال قید ہے۔
نگران حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے مہم کاآغاز کیا ہے۔ دیکھیے اس سرکاری مہم کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ماضی کو دیکھا جائے تو ایسی مہمات کے نتائج تقریباً صفر ہی رہے ہیں۔
یہ بھی مشہور ہے کہ میٹر ریڈر اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں(DISCOs) کے افسروں کی ملی بھگت سے بھی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے، وہ ایسے سخت اقدامات کرے کہ بجلی کمپنیوں کے اہل کاروں کے لیے کسی قسم کی کرپشن کرنا ناممکن ہو جائے۔ بجلی چوری کی روک تھام سے آخرکار ایمان دار صارفین کو فائدہ ہو گا کہ ان کے بجلی کے بل کم ہوں گے۔
لائن لاسیز
یہ ایک اور آفت ہے جس سے پاکستانی صارفین بجلی کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والے بیشتر آلات اور متعلقہ سازوسامان مثلاًکنڈیکٹر، ٹرانسمیشن تاریں، ٹرانسفارمر وغیرہ پرانا ہو چکا۔ اس باعث ان میں دوڑتی بجلی کا اچھا خاصا حصہ تکنیکی مسائل اور خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ضیاع ہی اصطلاح میں لائن لاسیز(line losses)کہلاتا ہے۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ پاکستان میں ہر سال کتنی بجلی لائن لاسیز کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے ۔ تین سال پہلے کے الیکٹرک نے یہ دیکھنے کے لیے تحقیق کرائی تھی کہ پاکستان سمیت مخصوص ممالک میں ہر سال لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث کتنی بجلی ضائع جاتی ہے۔ یہ تحقیق کے الیکٹرک انویسٹر پریزنٹیشن (K-Electric Investor Presentation 2020)کے نام سے شائع ہوئی۔
اس تحقیق کی رو سے پاکستان میں ہر سال 29.7 فیصد بجلی لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث صارفین تک نہیں پہنچ پاتی ۔ یہ خطے میں بجلی کا سب سے بڑا ضیاع ثابت ہوا۔رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں یہ شرح 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ اس کے بعد ترکی (14.8)، بنگلہ دیش(21.9)، بھارت(23.9)اور نیپال (24.4)کا نمبر آتا ہے۔
پاکستان میں فی الوقت موسم کے اعتبار سے ہر سال دس ہزار تا تیس ہزار میگا واٹ بجلی تیار ہوتی ہے۔ درج بالا رپورٹ کی رو سے اس تیار شدہ بجلی میں سے 29.7 فیصد بجلی لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث ضائع ہو جاتی ہے۔ اس ضائع شدہ بجلی کی قیمت ایک ہزار روپے بنتی ہے۔ اب یہ رقم بھی بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی صورت صارفین سے لی جا رہی ہے ۔اور اس وجہ سے بھی بلوں کی رقم میں اضافہ ہوا۔
نادہنگان
بجلی کے بل بڑھانے کی ایک وجہ نادہنگان بھی ہیں جنھوں نے بجلی تو استعمال کی مگر اب بل دینے سے انکاری ہیں یا فرار ہو چکے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور شخصیات سے'' بائیس سو ارب روپے'' سے زائد رقم لینی ہے۔ جب یہ رقم وصول نہیں ہوتی تو اس کے ذمے دار بھی بیچارے ایمان دار صارفین ٹھہرتے ہیں۔ لہذا ان کے بلوں میں اس خرابی کا خرچ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔
مفت بجلی
بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا تو عوام پاکستان یہ مطالبہ کرنے لگے کہ حکمران طبقے میں شامل جس اعلی وادنی کو مفت بجلی دی جا رہی ہے، اس سے یہ سہولت واپس لی جائے۔ اگر ایک غریب مزدور اور ایک نجی کمپنی کا کلرک اپنا سارا بل ادا کر سکتا ہے تو مفت بجلی لینے والوں کو بھی اپنا بل اپنی جیب سے ادا کرنا چاہیے۔
ان میں سے اکثریت کی ویسے بھی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں جو عوام سے حاصل شدہ ٹیکسوں کی رقم سے ادا کی جاتی ہیں۔مزید براں بجلی کی قیمت میں اضافے کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے۔لہذا وہ مفت بجلی لینا بند کرے تاکہ عوام کو احساس ہو کہ وہ بھی مشکل گھڑی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں حکمران طبقہ کتنی مفت بجلی پی جاتا ہے تاہم ماہرین کے نزدیک اس بجلی کی مالیت چالیس سے بچاس ارب روپے کے درمیان ہے۔ شعبہ بجلی کے دیگر نقائص کی مالیت دیکھتے ہوئے یہ خرچ بہرحال خاصا کم ہے۔ لیکن ''ساٹھ ہزار ارب روپے'' کے بھاری بھرکم قرضوں میں جکڑے پاکستان کے لیے تو اخراجات میں ایک ارب روپے کی کمی بھی اچھی خاصی بن جاتی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا عذاب
کیپیسٹی چارجز اور گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی پی پی ایس تو پوری بجلی بنا رہی ہیں مگر حکومت ان سے ساری بجلی نہیں لیتی۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ جب مطلوبہ مقدار میں بجلی بن رہی ہے تو آج بھی پاکستانی قوم کو لوڈشیڈنگ کا عذاب کیوں سہنا پڑتا ہے؟وجہ بدانتظامی، لائن لاسیز اور بجلی چوری ہے۔ ان عوامل کی بنا پر سسٹم کو پوری بجلی نہیں ملتی اور لوڈ شیڈنگ سے کام چلانا پڑتا ہے۔گویا اس معاملے میں بھی خواری اور ذلت ایمان داری سے بل دینے والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔
قربانی کا بکرا
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے نے بجلی کے شعبے میں اپنی نااہلی ، خراب انتظام حکومت (بیڈ گورننس)، کرپشن اور ناعاقبت اندیشی پوشیدہ رکھنے کے لیے صارفین ِبجلی کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔مقصد یہ ہے کہ اپنی نااہلی سے جو اخراجات بڑھے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح صارفین کی جیبوں سے نکلوا لیے جائیں۔ یہ تو ایک طرح کا کھلے عام انجام پایا ڈاکہ ہوا جو سرکاری سرپرستی میں عوام کے گھروں میں ڈالا جا رہا ہے۔
حقائق سے یہ بھی آشکارا ہے کہ پاکستان اگر کیپیسٹی چارجز، گردشی قرضے، بجلی چوری، لائن لاسیز اور مفت بجلی کے نقائض سے نجات پا لے تو یہاں بھی پڑوسی ممالک کی طرح بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ نقائص صرف ایسا حکمران طبقہ ہی دور کر سکتا ہے جو اہل ، محب وطن، ذمے دار، کرپشن سے پاک، محنتی اور ذاتی مفادات سے ماورا ہو۔اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ پاکستانی قوم کو کب ایسا حکمران طبقہ نصیب ہو گا؟
روکھی سوکھی کھا، رب کا کر شکر!
پاکستان کو موسم سرما میں دس ہزار میگاواٹ جبکہ موسم گرما میں تیس ہزار میگاواٹ تک بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیم دریائوں ، ندی نالوں پہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر موسم گرما میں کم از کم پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بن سکتا ہے۔یہ بجلی بہت سستی بھی ہوتی ہے، چند روپے فی یونٹ!حکمران طبقے کو ڈیم بنانے چاہیں تھے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یوں اس کی نااہلی سے مہنگی بجلی قوم کا مقدر بن گئی۔
سیاسی حکومتیں بہرحال عوام کو بجلی، سوئی گیس، پٹرول اور خوراک پہ سبسڈی دیتی رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ اگلے الیکشن میں عوام انہی کو ووٹ دیں ۔اگست 2018 ء میں صورت حال بدل گئی جب پی ٹی آئی حکومت آئی۔ اس نے آتے ہی ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی متعارف کرائے۔ یوں پاکستان میں مہنگائی کی لہر چل پڑی کیونکہ جن کمپنیوں پہ ٹیکس لگا، انھوں نے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام پہ بوجھ ڈال دیا۔
تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ نئے وزیراعظم کا خیال تھا کہ سرکاری خزانے میں زیادہ رقم آنی چاہیے تاکہ وہ غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے منصوبے شروع کر سکیں۔ اور انھوں نے کئی عوام دوست پروگرام شروع بھی کیے۔
ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے سے مگر پاکستان میں مہنگائی بڑھ گئی اور عام آدمی پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنانے لگا۔پی ٹی آئی کے حامی ماہرین کا دعوی ہے کہ تب قائدین ِجماعت کو احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انھیں بطور چارہ استعمال کیا ہے۔حکمران طبقے نے پچھلے ستّر برسوں میں آسائشوں سے پُر اپنا سیٹ اپ یا نظام اپنا لیا ہے۔
اب بیشتر رقم بڑھتے قرضوں اور سود کی مد میں ادا ہونے لگی تھی، اس لیے اسے ضعف پہنچنے لگا ۔ لہذا یہ پُرتعیش نظام بچانے کے لیے حکمران طبقے نے فیصلہ کیا کہ سبسڈیاں ختم کر کے نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پہ ڈال دیا جائے تاکہ سرکاری آمدن میں اضافہ ہو سکے۔
اس حکمت عملی کی وجہ سے مگر پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوا تو پی ٹی آئی قائدین کو ہوش آیا۔ وہ پھر 2021 ء کے اوائل سے پٹرول، بجلی ، سوئی گیس اور خوراک پر بھی سبسڈی دینے لگے تاکہ عوام میں اپنی شہرت بحال کر سکیں۔مگر اسٹیبلشنٹ اپنی حکمت عملی ضائع ہوتے نہ دیکھ سکی ، چناں چہ پی ٹی آئی حکوتت ختم کر دی گئی۔
اس کے خاتمے کی یہ اہم وجہ تھی۔جو نئے حکمران آئے، وہ دل وجان سے حکمران طبقے کے منصوبے پہ عمل کرنے لگے۔اسی لیے مہنگائی بڑھنے کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اسے پر لگ گئے۔ کئی اشیا کی قیمتوں میں دنوں کے لحاظ سے اضافہ ہوا کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھنے سے روزمرہ ضرورت کی ہر شے کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
حکومت مگر مہنگائی کا ذمے دار آئی ایم ایف معاہدے کو قرار دے کر بدنام مغربی ادارے کو کرتی ہے۔پی ڈی ایم کے وزیراعظم جاتے جاتے فخریہ اعلان کر گئے کہ انھوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں جو اقدامات ہوئے، ان کی بدولت حکمران طبقے کا شاہانہ سیٹ اپ برقرار رہا اور وہ دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ۔ عوام ِپاکستان کا کیا ہے، وہ تو روکھی سوکھی کھا کر بھی صبر شکر کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔
بلوں نے ہزارہا گھرانوں میں امن وسکون غارت کر دیا اور وہاں پریشانیوں اور غم وغصّے نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔اگر پڑوسی ممالک میں بجلی کی فی یونٹ قیمت دیکھی جائے تو عام پاکستانی کا احتجاج درست دکھائی دیتا ہے۔
اعدادوشمار کی رو سے بھارت میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 7 تا 8 روپے ہے۔بنگلہ دیش میں ایک یونٹ 9 تا 10 ٹکا میں پڑتا ہے۔دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا میں البتہ قیمت کچھ زیادہ ہے ۔وہاں کوئی 200 یونٹ ماہانہ سے زائد بجلی استعمال کرے تو اسے فی یونٹ 32 روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ سری لنکا میں بھی بل میں صرف ایک ٹیکس، فکسڈ چارج وصول کیا جاتا ہے جو دو سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 480 روپے ہے۔پاکستان میں تو بجلی کے بل میں حکومت نے ایسے عجیب وغریب ٹیکس بھی ڈال دئیے ہیں جو بہ مشکل ہی کسی کی سمجھ میں آتے ہیں۔انہی ٹیکسوں کی وجہ سے عام آدمی کے بل میں ہزاروں روپے کا اضافہ ہو گیا۔
ورنہ محض چار پانچ سال پہلے تک تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے پر ڈھائی تین ہزار روپے بل آتا تھا۔اب وہی بل سولہ سے بیس ہزار کے مابین آ رہا ہے۔ یہ ٹیکس صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ حکومت پاکستان کی آمدن بڑھ سکے اور وہ شعبہ بجلی کے اپنے بڑھتے اخراجات پورے کر سکے۔
سوال یہ ہے کہ شعبہ بجلی میں حکومتی اخراجات کیوں بڑھ رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ یہ خود حکمران طبقے کی نااہلی، دوراندیشی کی کمی ، وقتی فوائد پر توجہ، بدانتظامی اور لالچ یعنی کرپشن کا شاخسانہ ہے۔اس داستان ِغم کا آغاز 1984ء سے ہوتا ہے جب اہل پاکستان لوڈشیڈنگ کی بلا سے دوچار ہوئے۔ یہ آفت بھی حکمران طبقے کی نااہلی کا نتیجہ تھی۔
آخری ڈیم بنے کئی سال بیت چکے تھے اور نئے ڈیم بنانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس دوران آبادی بڑھنے کی وجہ سے بجلی کی طلب بڑھتی چلی گئی۔جب بجلی پوری نہ ہو سکی تو لوڈشیڈنگ کا جن متعارف کرایا گیا تاکہ طلب کم ہو سکے۔
حکمران طبقے میں شامل بزرجمہروں نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار کا ٹھیکہ سونپ دیا جائے۔چناں چہ 1992ء میں نوازشریف حکومت کے دوران نجی کمپنی سے بجلی کا پلانٹ لگانے کا پہلا معاہدہ ہوا ۔ایسی کمپنیوں کو بعد ازاں ''آئی پی پی ایس ''(Independent Power Producers )کہا گیا۔
میاں نواز شریف کا حکمران طبقے کے دیگر ارکان سے تصادم ہو گیا اور ان کی حکومت رخصت ہوئی۔بے نظیر بھٹو حکومت آئی تو اس نے نئی پاور پالیسی بنائی اور اسی کے تحت 1994ء میں کئی آئی پی پی ایس سے معاہدے کیے گئے۔
انجم صدیقی ایک آئی پی پی ایس، حب پاور کپمنی کے سینئر مشیر رہے ہیں۔ آئی پی پی ایس کے بارے میں ان کا ایک مضمون مشہور جریدے ، دی پاکستان ڈویلپمنٹ ریویو (The Pakistan Development Review)کے شمارہ سرما، 1998ء میں شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ نجی کمپنیوں (آئی پی پی ایس)نے تب پاکستان بھر میں بجلی کی پیداوار و تقسیم کے سرکاری ادارے، واپڈا کے افسران کو بھاری رشوت دی تھی۔مقصد یہ تھا کہ معاہدوں میں خود کو بھاری مالی فوائد پہنچانے والی شرائط لکھ دی جائیں۔
'' کیپیسٹی چارجز''
آئی پی پی ایس سے کیے گئے معاہدوں میں سب سے قابل اعتراض شرط'' کیپیسٹی چارجز''(capacity charges) کی ہے۔اس شرط کے تحت حکومت پاکستان نے نجی کمپنیوں کی یہ بات مان لی کہ ہر پلانٹ میں جس طرح بھی اور جتنی بھی بجلی بنی، حکومت اسے خریدنے کی پابند ہو گی۔اگر کسی وجہ سے نہ خریدی تب بھی حکومت کو اس کی ڈالر کے ریٹ کے حساب سے قیمت ادا کرنا ہو گی۔اسی قیمت کو کیپیسٹی چارجز کہا گیا۔
یہ '' کیپیسٹی چارجز'' ہی پاکستان میں بجلی کی قیمت اور بل بھی بڑھانے کی پہلی اہم وجہ ہیں۔ پچھلے مالی سال میںماہ جون تک حکومت نے چالیس سے زائدآئی پی پی ایس کو ''ایک ہزار تین سو ارب روپے'' کی خطیر رقم بطور کیپیسٹی چارجز ادا کی تھی۔ شنید ہے کہ اگلے سال کیپیسٹی چارجز ''دو ہزار کھرب روپے'' سے بڑھ جائیں گے۔
چناں چہ بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا۔اور یہ قیمت حکمران طبقہ بجلی کی قیمت بڑھا کر پاکستانی عوام سے وصول کرے گا۔واضح رہے، 2013ء میں کیپیسٹی چارجز کی مجموعی رقم صرف ایک سو پچاسی ارب روپے تھی جو اگلے آٹھ سال میں پونے چار ہزار ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا دعوی ہے کہ اکثر آئی پی پی ایس بڑھا چڑھا کر کیپیسٹی چارجز وصول کرتی ہیں تاکہ اپنا منافع زیادہ سے زیادہ بڑھا سکیں۔
اسی لیے ماہرین مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کمپنیوں کا آڈٹ کرایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔اور اگر سرکاری افسروں کی ملی بھگت سے کسی قسم کی کرپشن ہو رہی ہے تو وہ سامنے آ سکے۔
بنگلہ دیش نے چھٹکارا پا لیا
پانچ چھ سال پہلے بنگلہ دیش بھی بجلی کی کمی کاشکار ہوا تو اس نے آئی پی پی ایس کو بجلی بنانے کا ٹھیکہ دے دیا۔ مگر بنگلہ دیشی حکومت کو بھی کیپیسٹی چارجز کا جن چمٹ گیا اور انھیں ہر سال اربوں ٹکا آئی پی پی ایس کو دینے پڑے۔پچھلے مالی سال کے دوران تو کیپیسٹی چارجز کا خرچ آسمان پر جا پہنچا۔
اسی لیے بنگلہ دیشی حکومت نے رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اب آئی پی پی ایس سے جو بھی نئے معاہدے ہوئے، ان میں کیپیسٹی چارجز کی شرط شامل نہیں ہو گی۔
بنگلہ دیشی حکمران طبقے نے اس لحاظ سے دوراندیشی ، عقل مندی اور اچھے انتظام ِحکومت کا ثبوت دیا کہ سبھی آئی پی پی ایس سے مختصر مدت کے معاہدے کیے جو چند سال میں ختم ہو جائیں گے۔ یوں بنگلہ دیشی قوم کو کیپیسٹی چارجز کی آفت سے نجات مل جائے گی۔
پاکستانی حکمران طبقے نے مگر آئی پی پی ایس سے اکثر معاہدے طویل المدتی کر رکھے ہیں۔بعض تو 2040ء میں جا کر ختم ہوں گے۔لہٰذا تب تک پاکستانی قوم کیپیسٹی چارجز کا عذاب سہتی رہے گی۔ یہ پاکستانی حکمران طبقے کی نااہلی اور غیرذمے داری کی انتہا ہے۔
آج پاکستان میں ''61 فیصد''بجلی یہی آئی پی پی ایس بنا رہی ہیں۔ یہی نہیں ، وہ اپنے بجلی پلانٹس میں عموماً بیرون ملک سے منگوایا مہنگا ایندھن استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے بجلی بھی زیادہ مہنگی تیار ہوتی ہے۔
گویا یہ مرے پہ درے مارنے کی مثال ہو گئی۔ عوام پہلے تو کیپیسٹی چارجز کا بوجھ برداشت کرے اور پھر مہنگی بجلی استعمال کرنے کا خرچ بھی اس کے ناتواں کاندھوں پہ ڈال دیا جائے۔
گردشی قرضہ
یہ ایک اور عفریت ہے جو حکمران طبقے کی نااہلی کے باعث عوام ِپاکستان کوچمٹ گیا۔حکومت اگر آئی پی پی ایس کو مطلوبہ رقم ادا نہ کرے تو باقی رہ جانے والی رقم '' گردشی قرضے'' میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس رقم پہ حکومت کو سود بھی دینا پڑتا ہے۔
تازہ اعداد وشمار کی رو سے پاکستانی حکومت پہ تقریباً ''دو ہزار ستر ارب روپے'' کا گردشی قرضہ چڑھ چکا۔ معنی یہ کہ1994ء سے لے کر اب تک آنے والی حکومتیں آئی پی پی ایس کو مطلوبہ رقم ادا نہیں کر سکیں۔ لہذا ادا نہ کی گئی رقم اب پہاڑ بن چکی۔
یہ واضح ہے کہ گردشی قرضہ بھی حکمران طبقے کی نااہلی کے باعث پیدا ہوا۔ وہ ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی منصوبوں پہ خرچ کرتا اور آئی پی پی ایس کو رقم دینے سے کتراتا رہا۔اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو اپنے آپ کو نکالنے کے لیے حکمران طبقے نے بوجھ عوام الناس پہ ڈال دیا۔یعنی گردشی قرضہ ختم کرنے کی خٓاطر بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی اور عام آدمی کو بھاری بل آنے لگا۔
بجلی چوری
پاکستان میں سارے عوام بھی دودھ کے دھلے نہیں ، ان میں موجود بجلی چوروں کی وجہ سے بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ۔ مگر ایمان دار صارفین کے ساتھ یہ سخت ناانصافی ہے کہ حکومت بجلی چوری کا مالی نقصان بھی ان کے بجلی کے بل بڑھا کر پورا کر رہی ہے۔
گویا اس شعبے میں بھی حکمران طبقے نے اپنی نااہلی کا ملبہ ایمان دارو لوگوں پہ ڈال دیا۔ وہ بجلی چوروں کو گرفتار کرنے کے لیے تو متحرک نہیں ہوتی، بس آسان راستہ یہی نظر آیا کہ بجلی کی قیمت بڑھا کر اپنا مالی نقصان پورا کر لیا جائے۔
حکومت کا دعوی ہے کہ ہر سال پاکستانی ''پانچ سو ارب روپے ''سے زائد کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ یہ چوری ''کنڈے''ڈال کر یا میٹر میں ردوبدل کر کے کی جاتی ہے۔بجلی چوری کرنے والے پاکستانی نہایت مکار و عیار ہیں۔
مثلاً حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے سکھر ڈویژن میں اے بی سی تاریں (aerial bundled cables) متعارف کرائی تھیں۔ وہاں بجلی چوروں نے ان تاروں سے بجلی چرانے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔ یہ بجلی چور پھر کرپٹ لوگوں کو سستے داموں چرائی گئی بجلی فروخت کرنے لگے۔
اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پختون خیبر خواہ میں ہر سال سب سے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے۔ اس کی مالیت دو سو ارب روپے سے زائد ہے۔
صوبے میں بجلی چوری میں ضلع بنوں سرفہرست ہے۔ اس کے بعد مردان کا نمبر آتا ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی بجلی چوری کی شرح کافی زیادہ ہے۔ پنجاب میں یہ شرح سب سے کم ہے۔ گویا اہل پنجاب کی اکثریت اپنا بل ادا کر دیتی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ بجلی چوروں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔ فی الوقت پاکستان میں بجلی چور نرم قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹ جاتے ہیں۔ امریکا میں کوئی شہری بجلی چوری کرتا پکڑا جائے تو اسے ''1500 ڈالر''جرمانہ ہوتا ہے اور عموماً پانچ سال کی جیل بھی کاٹنا پڑتی ہے۔اسی طرح بھارت میں بجلی چوری کی سزا تین سال قید ہے۔
نگران حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے مہم کاآغاز کیا ہے۔ دیکھیے اس سرکاری مہم کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ماضی کو دیکھا جائے تو ایسی مہمات کے نتائج تقریباً صفر ہی رہے ہیں۔
یہ بھی مشہور ہے کہ میٹر ریڈر اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں(DISCOs) کے افسروں کی ملی بھگت سے بھی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے، وہ ایسے سخت اقدامات کرے کہ بجلی کمپنیوں کے اہل کاروں کے لیے کسی قسم کی کرپشن کرنا ناممکن ہو جائے۔ بجلی چوری کی روک تھام سے آخرکار ایمان دار صارفین کو فائدہ ہو گا کہ ان کے بجلی کے بل کم ہوں گے۔
لائن لاسیز
یہ ایک اور آفت ہے جس سے پاکستانی صارفین بجلی کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والے بیشتر آلات اور متعلقہ سازوسامان مثلاًکنڈیکٹر، ٹرانسمیشن تاریں، ٹرانسفارمر وغیرہ پرانا ہو چکا۔ اس باعث ان میں دوڑتی بجلی کا اچھا خاصا حصہ تکنیکی مسائل اور خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ضیاع ہی اصطلاح میں لائن لاسیز(line losses)کہلاتا ہے۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ پاکستان میں ہر سال کتنی بجلی لائن لاسیز کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے ۔ تین سال پہلے کے الیکٹرک نے یہ دیکھنے کے لیے تحقیق کرائی تھی کہ پاکستان سمیت مخصوص ممالک میں ہر سال لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث کتنی بجلی ضائع جاتی ہے۔ یہ تحقیق کے الیکٹرک انویسٹر پریزنٹیشن (K-Electric Investor Presentation 2020)کے نام سے شائع ہوئی۔
اس تحقیق کی رو سے پاکستان میں ہر سال 29.7 فیصد بجلی لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث صارفین تک نہیں پہنچ پاتی ۔ یہ خطے میں بجلی کا سب سے بڑا ضیاع ثابت ہوا۔رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں یہ شرح 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ اس کے بعد ترکی (14.8)، بنگلہ دیش(21.9)، بھارت(23.9)اور نیپال (24.4)کا نمبر آتا ہے۔
پاکستان میں فی الوقت موسم کے اعتبار سے ہر سال دس ہزار تا تیس ہزار میگا واٹ بجلی تیار ہوتی ہے۔ درج بالا رپورٹ کی رو سے اس تیار شدہ بجلی میں سے 29.7 فیصد بجلی لائن لاسیز اور بجلی چوری کے باعث ضائع ہو جاتی ہے۔ اس ضائع شدہ بجلی کی قیمت ایک ہزار روپے بنتی ہے۔ اب یہ رقم بھی بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی صورت صارفین سے لی جا رہی ہے ۔اور اس وجہ سے بھی بلوں کی رقم میں اضافہ ہوا۔
نادہنگان
بجلی کے بل بڑھانے کی ایک وجہ نادہنگان بھی ہیں جنھوں نے بجلی تو استعمال کی مگر اب بل دینے سے انکاری ہیں یا فرار ہو چکے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور شخصیات سے'' بائیس سو ارب روپے'' سے زائد رقم لینی ہے۔ جب یہ رقم وصول نہیں ہوتی تو اس کے ذمے دار بھی بیچارے ایمان دار صارفین ٹھہرتے ہیں۔ لہذا ان کے بلوں میں اس خرابی کا خرچ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔
مفت بجلی
بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا تو عوام پاکستان یہ مطالبہ کرنے لگے کہ حکمران طبقے میں شامل جس اعلی وادنی کو مفت بجلی دی جا رہی ہے، اس سے یہ سہولت واپس لی جائے۔ اگر ایک غریب مزدور اور ایک نجی کمپنی کا کلرک اپنا سارا بل ادا کر سکتا ہے تو مفت بجلی لینے والوں کو بھی اپنا بل اپنی جیب سے ادا کرنا چاہیے۔
ان میں سے اکثریت کی ویسے بھی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں جو عوام سے حاصل شدہ ٹیکسوں کی رقم سے ادا کی جاتی ہیں۔مزید براں بجلی کی قیمت میں اضافے کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے۔لہذا وہ مفت بجلی لینا بند کرے تاکہ عوام کو احساس ہو کہ وہ بھی مشکل گھڑی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں حکمران طبقہ کتنی مفت بجلی پی جاتا ہے تاہم ماہرین کے نزدیک اس بجلی کی مالیت چالیس سے بچاس ارب روپے کے درمیان ہے۔ شعبہ بجلی کے دیگر نقائص کی مالیت دیکھتے ہوئے یہ خرچ بہرحال خاصا کم ہے۔ لیکن ''ساٹھ ہزار ارب روپے'' کے بھاری بھرکم قرضوں میں جکڑے پاکستان کے لیے تو اخراجات میں ایک ارب روپے کی کمی بھی اچھی خاصی بن جاتی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا عذاب
کیپیسٹی چارجز اور گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی پی پی ایس تو پوری بجلی بنا رہی ہیں مگر حکومت ان سے ساری بجلی نہیں لیتی۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ جب مطلوبہ مقدار میں بجلی بن رہی ہے تو آج بھی پاکستانی قوم کو لوڈشیڈنگ کا عذاب کیوں سہنا پڑتا ہے؟وجہ بدانتظامی، لائن لاسیز اور بجلی چوری ہے۔ ان عوامل کی بنا پر سسٹم کو پوری بجلی نہیں ملتی اور لوڈ شیڈنگ سے کام چلانا پڑتا ہے۔گویا اس معاملے میں بھی خواری اور ذلت ایمان داری سے بل دینے والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔
قربانی کا بکرا
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے نے بجلی کے شعبے میں اپنی نااہلی ، خراب انتظام حکومت (بیڈ گورننس)، کرپشن اور ناعاقبت اندیشی پوشیدہ رکھنے کے لیے صارفین ِبجلی کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔مقصد یہ ہے کہ اپنی نااہلی سے جو اخراجات بڑھے ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح صارفین کی جیبوں سے نکلوا لیے جائیں۔ یہ تو ایک طرح کا کھلے عام انجام پایا ڈاکہ ہوا جو سرکاری سرپرستی میں عوام کے گھروں میں ڈالا جا رہا ہے۔
حقائق سے یہ بھی آشکارا ہے کہ پاکستان اگر کیپیسٹی چارجز، گردشی قرضے، بجلی چوری، لائن لاسیز اور مفت بجلی کے نقائض سے نجات پا لے تو یہاں بھی پڑوسی ممالک کی طرح بجلی سستی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ نقائص صرف ایسا حکمران طبقہ ہی دور کر سکتا ہے جو اہل ، محب وطن، ذمے دار، کرپشن سے پاک، محنتی اور ذاتی مفادات سے ماورا ہو۔اللہ پاک کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ پاکستانی قوم کو کب ایسا حکمران طبقہ نصیب ہو گا؟
روکھی سوکھی کھا، رب کا کر شکر!
پاکستان کو موسم سرما میں دس ہزار میگاواٹ جبکہ موسم گرما میں تیس ہزار میگاواٹ تک بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیم دریائوں ، ندی نالوں پہ چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر موسم گرما میں کم از کم پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بن سکتا ہے۔یہ بجلی بہت سستی بھی ہوتی ہے، چند روپے فی یونٹ!حکمران طبقے کو ڈیم بنانے چاہیں تھے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یوں اس کی نااہلی سے مہنگی بجلی قوم کا مقدر بن گئی۔
سیاسی حکومتیں بہرحال عوام کو بجلی، سوئی گیس، پٹرول اور خوراک پہ سبسڈی دیتی رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ اگلے الیکشن میں عوام انہی کو ووٹ دیں ۔اگست 2018 ء میں صورت حال بدل گئی جب پی ٹی آئی حکومت آئی۔ اس نے آتے ہی ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی اور نئے ٹیکس بھی متعارف کرائے۔ یوں پاکستان میں مہنگائی کی لہر چل پڑی کیونکہ جن کمپنیوں پہ ٹیکس لگا، انھوں نے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام پہ بوجھ ڈال دیا۔
تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ نئے وزیراعظم کا خیال تھا کہ سرکاری خزانے میں زیادہ رقم آنی چاہیے تاکہ وہ غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے منصوبے شروع کر سکیں۔ اور انھوں نے کئی عوام دوست پروگرام شروع بھی کیے۔
ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے سے مگر پاکستان میں مہنگائی بڑھ گئی اور عام آدمی پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنانے لگا۔پی ٹی آئی کے حامی ماہرین کا دعوی ہے کہ تب قائدین ِجماعت کو احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انھیں بطور چارہ استعمال کیا ہے۔حکمران طبقے نے پچھلے ستّر برسوں میں آسائشوں سے پُر اپنا سیٹ اپ یا نظام اپنا لیا ہے۔
اب بیشتر رقم بڑھتے قرضوں اور سود کی مد میں ادا ہونے لگی تھی، اس لیے اسے ضعف پہنچنے لگا ۔ لہذا یہ پُرتعیش نظام بچانے کے لیے حکمران طبقے نے فیصلہ کیا کہ سبسڈیاں ختم کر کے نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پہ ڈال دیا جائے تاکہ سرکاری آمدن میں اضافہ ہو سکے۔
اس حکمت عملی کی وجہ سے مگر پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوا تو پی ٹی آئی قائدین کو ہوش آیا۔ وہ پھر 2021 ء کے اوائل سے پٹرول، بجلی ، سوئی گیس اور خوراک پر بھی سبسڈی دینے لگے تاکہ عوام میں اپنی شہرت بحال کر سکیں۔مگر اسٹیبلشنٹ اپنی حکمت عملی ضائع ہوتے نہ دیکھ سکی ، چناں چہ پی ٹی آئی حکوتت ختم کر دی گئی۔
اس کے خاتمے کی یہ اہم وجہ تھی۔جو نئے حکمران آئے، وہ دل وجان سے حکمران طبقے کے منصوبے پہ عمل کرنے لگے۔اسی لیے مہنگائی بڑھنے کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اسے پر لگ گئے۔ کئی اشیا کی قیمتوں میں دنوں کے لحاظ سے اضافہ ہوا کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھنے سے روزمرہ ضرورت کی ہر شے کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
حکومت مگر مہنگائی کا ذمے دار آئی ایم ایف معاہدے کو قرار دے کر بدنام مغربی ادارے کو کرتی ہے۔پی ڈی ایم کے وزیراعظم جاتے جاتے فخریہ اعلان کر گئے کہ انھوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں جو اقدامات ہوئے، ان کی بدولت حکمران طبقے کا شاہانہ سیٹ اپ برقرار رہا اور وہ دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ۔ عوام ِپاکستان کا کیا ہے، وہ تو روکھی سوکھی کھا کر بھی صبر شکر کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔