دھرتی کے سینے پر بہتے 6 کروڑ 40 لاکھ کلومیٹر طویل دریا اور ندیاں

ڈیمز بنانے سے ملکوں میں تنازعات ابھرے اور بہاؤ رکنے سے ایکو سسٹم متاثر ہوا


ڈیمز بنانے سے ملکوں میں تنازعات ابھرے اور بہاؤ رکنے سے ایکو سسٹم متاثر ہوا ۔ فوٹو : فائل

(تمغہ ء امتیاز)

لاکھوں برس سے آباد دنیا میں انسانی تاریخ تحریر ی صورت میں تقریباً پانچ ہزار سال سے لکھی جا رہی ہے۔

انسانی سماج میں آئین اور قانون کے اعتبار سے بادشاہ ہیمو رابی King Hammurabi کا دور 1792 قبل مسیح سے 1750 قبل مسیح کا ہے یعنی آج سے 38 سو سال پہلے اس بادشاہ نے عراق کی اُس زمانے کی ریاست کو آئین دیا تھا۔ اُس زمانے سے لے کر اٹھارویں صدی تک دنیا میں دریاؤں ندیوں کا نظام قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق چل رہا تھا ۔

اگرچہ انسان نے اپنی زرعی ضرورت کے لیے مصر میں ڈھائی ہزار سال پہلے ایک ڈیم بنا لیا تھا مگر یہ ابتدائی نوعیت کا تھا اور اس سے دریائے نیل کا بہاؤ رکتا نہیں تھا مگر انیسویں صدی کے وسط اور بیسویں صدی کے آغاز سے دنیا میں ایسے بڑے ڈیم بنانے کی شروعات ہوئی جن سے دریا ؤں ندیوں کے پانیوں کے بہاؤ میں کمی آنے لگی۔

اس کی بنیادی وجہ دنیا میں انسانی آبادی میں تیز رفتار اضافہ تھا۔ 1870 ء میں اس دنیا کی آبادی ایک ارب ہوئی 1900 ء میں یہ آبادی 1 ارب65 کروڑ ہو گئی، 1925 ء میں دنیا کی آبادی 2 ارب ہو گئی، 1959 ء میں دنیا کی کل آبادی 3 ارب ہو گئی ،1974 ء میں یہ آبادی 4 ارب ہو ئی، 1987 میں دنیا کی آبادی 5 ارب ہوئی، 1999 ء میں یہ آبادی 6 ارب ہو گئی۔

2012 ء میں دنیا کی آبادی 7 ارب ہوئی اور اب 2023 ء میں دنیا کی آبادی 8 ارب سے کچھ زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایک واضح تبدیلی اگر چہ 1492 ء میں اُس وقت آئی جب کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی واسکو ڈی گاما نے راس امید کا چکر کاٹ کر ہندوستان کا نیا بحری راستی دریافت کر لیا اور یوں حکمرانی اور فتوحات کا ہزاروں برس کا پرانا نظام تبدیل ہو گیا۔

اب سیاسی نو آبادیاتی نظام تھا جس کا بنیاد ی مقصد یہ تھا کہ دنیا کے ممالک کو فتح کر کے اِن ملکوں کی مال ودولت لوٹیں اور پھر یہاں کا خام مال اپنے ملکوں میں لے جا کر اپنے ملکوں کے کارخانوں سے اس خام مال کو مصنوعات میں تبدیل کر کے انہی نو آبادیاتی ملکوں میں اپنی مکمل اجارہ داری کی حامل منڈیوں میں دس گنا نفع پر فروخت کریں۔

اس ناانصافی پر اور پھر نو آبادیاتی قوتوںمیں اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر آپس میں لڑائیاںاور جنگیں ہوئیں جن میں پہلی عالمی جنگ 1914-18 ء میں جرمنی اور ترکیہ کی سلطنت عثمانیہ کے مقابلے میں اتحادی جیت گئے۔

اس جنگ میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ انسان جاں بحق ہوئے اور اس سے زیادہ زخمی اور معذور ہوئے اس کے21 سال بعد 1939 ء کو دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی جو 1945 ء میں ختم ہوئی اس جنگ میں تقریباً سات کروڑ انسان جان بحق ہوئے اور اس سے کچھ زیادہ زخمی اور معذور ہوئے۔

اگر چہ 17 ویںصدی عیسوی میں یورپ میں صنعتی انقلاب ، انقلاب ِ فرانس پھر جنگ عظیم اوّل کے آخری برس 1917 ء میں سابق رٍوس میں اشتراکی انقلاب آیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں صنعت، زراعت، آبپاشی، مواصلات اور جدید اسلحہ سازی میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تیز رفتارترقی ہوئی اورخصوصاً دوسری جنگ عظیم کے بعد میڈیکل سائنس نے بھی تیز رفتار ترقی کی۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی آبادی میں ہزاروں سال بعد نہایت تیز رفتاری آگئی، انیسویں صدی کے آخر تک دنیا کی آبادی ایک ارب ہو گئی اور بیسویں صدی کے آغاز یعنی 1900 ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب 65 کروڑ ہو گئی تھی۔ جنگ عظیم اوّل کے 7 سال بعد 1925 ء میں یہ آبادی 2 ارب ہو گئی پھر 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اس کے 14 سال بعد 1959 ء میں دنیا کی آبادی3 ارب ہو گئی اور آج 2023 ء میں یہ آبادی 8 ارب ہو چکی ہے۔

اس دوران یعنی 1900 ء سے 1974 ء تک مختلف برسوں میں چین، ایران، ہندوستان، سوویت یونین اور دیگر ملکوں میں آنے والے تقریباً دس بڑے قحطوں میں چھ کروڑ انسان جان بحق ہوئے، اس دوران پوری دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادیوں میں تیزی سے اضافے ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں دریاؤں پر ہزاروں بڑے ڈیمز تعمیر کئے گئے۔

آج دنیا بھر میں 6 کروڑ 40 لاکھ کلومیٹر سارا سال بہنے والے دریاؤں ندیوں Perennial Rivers میںسے 51% سے60 فیصد ندیاں اور دریا پانیوں سے خالی ہو گئے ہیں، اس کی وجہ سے دنیا بھر میں سارا سال بہنے والے Perennial Rivers and Streams ندیوں دریاؤں کے 60% تک خالی ہو نے کی وجہ سے بارانی یا وقفے وقفے سے بہنے والے Intermittent Rivers and Streams کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میٹھے پا نی یعنی پینے کے پا نی کی فراہمی کا قدرتی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

سائنس ڈیلی Science Daily کی 16 جون 2012 ء کی اشاعت میں Mccill University کی ریسرچ کی بنیاد ہی پر بتایا گیا ہے کہ 6 کروڑ 40 لاکھ کلومیٹر سارا سال بہتے دریاؤں اور ندیوں میں سے60% تک کے قدرتی بہاؤ روک دیئے گئے ہیں اور اس طرح بہتے پانیوں کے حوالے سے دنیا بھر کے مختلف ایکالوجیکل زونوں کے خصوصاً پانیوں سے متعلق ایکو سسٹم بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

جس سے ہائیڈولوجیکل Hydrological پانی سے متعلق اور جیولوجیکل Geological جغرافیائی یا پہاڑوں سے متعلق سارا سال بہتے دریاؤں ندیوں اور وقفے وقفے سے بہتے دریاؤں ا ور ندیوں میں پانی سے خالی ہونے کی وجہ سے انواع اقسام کی مخلوقات ،Species کا خاتمہ ہو رہا ہے جن میں مچھلیاں بہت اہم ہیں جو میٹھے پانی کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

دنیا میں سارا سال بہنے والے دریاؤں، ندیوں میںسے کئی ایک ہزاروں کلومیٹر طویل سفر کرتے سمندروں میں گرتے ہیں، موسموں کے بدلنے، بارشوں کے ہونے پر سمندروں سے مچھلیاں دریاؤں کے بہاؤ کے مخالف ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرتی ہیں، یہ مچھلیاں نہ صرف انڈے بچے دیتی ہیں بلکہ پانی کو صاف کرتی ہیں، یہ مچھلیاں ہزاروں کلومیٹر پر پھیلے کئی ایکلوجیکل زونوں کے ایکوسسٹمز کے تحت قدرتی ماحول کو متوازن رکھتی ہیں۔

اِن مچھلیوں اور دیگر آبی نیم آبی اور زمینی'' Species '' مخلوقات کو قدرت کا یہ لاکھوں برسوں کا نظام متوازن اور پا ئیدار رکھے ہوئے تھا مگر دنیا بھر میں دریاؤںاور ندیوں کا یہ نظام ایک سو برسوں سے بری طرح پامال ہو رہا ہے اور اس کو پامال کرنے کا ذمہ دار انسان ہے۔

ایک اور ریسرچ میں محققین نے یہ بتایا ہے کہ 5600 دریاؤں پر تحقیق کر کے نقشہ بنایا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اِن دریاؤں سے کہیں زیادہ پانی استعمال کرنے دریاؤں کو آلود کرنے، مچھلیاں پیداوار سے زیادہ شکا رکرنے کی صورتحال کو واضح کیا ہے۔ ریسرچ کے مطابق دنیا بھر میں سارا سال بہنے والے دریا Perennial Rivers میں سے 37 فیصد 1000 کلومیٹر سے زیادہ طویل دریا جن پر کہیں کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہیں، یہ دریا آزادانہ بہتے ہیں۔

اِن آزادانہ طور پر بہنے والے دریاؤں کی صورتحال قدرتی ماحول سے مطابقت رکھتی ہے، دریاؤں ندیوں سے متعلق ریسرچ کرنے والوں اور تجزیہ کر نے والوں کے مطابق بڑے دریاؤں پر پوری دنیا میں 60 ہزار بڑے ڈیمز قائم ہیں، اِن ساٹھ ہزار ڈیمز میں سے 3700 بڑے ڈیمز وہ ہیں جو حالیہ برسوں میں تعمیر ہوئے ہیں اسی دوران 3000 ہائیڈور پاور بھی تعمیر ہوئے ہیں۔ اس وقت دنیا کے طویل ترین ٹاپ ٹونٹی Top Tweenty Rriversکی صورتحال یوں ہے:

نمبر1: دریا ئے نیل کی لمبائی 6650 ہے، اس دریا سے مصر ایتھوپیا، ایریٹریا، سوڈان یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا، روانڈاڈی، جمہوریہ کانگو اور جنوبی سوڈان تک کروڑوں افراد مستفید ہوتے ہیں۔

نمبر2 : دریائے ایمازان Amazon River اس کی لمبائی 6575 کلومیٹر ہے، یہ دریا برازیل، پیور، بولیویا Bolivia کولمبیا، ایکا ڈور Ecudor ،وینزویلا Venezuela ،گیوناGuyana سے گزرتا ہے اس دریا کا Basin دنیا کا سب سے بڑابیسن ہے ۔

نمبر3 : Yangteze River دریائے یانگٹیزی، یہ ایسا دریا ہے جس کو UNESCO کی جانب سے عالمی ورثہ World Heritage قرار دیا گیا ہے کہ یہ دنیا کا تیسرا طویل دریا ہے جو 6300 کلومیٹر لمبا ہے اور پورا دریا چین ہی میں بہتا ہے۔

نمبر4 : Yellow River دریائے زرد کی لمبائی 5464 کلومیٹر ہے یہ دریا چین میں 9 صوبوں میں بہتا اور Bohoi Sea تک خالی ہو جاتا ہے، اس دریا کا پانی مٹیالا ہے اس لیے دریائے زرد کہلاتا ہے۔

نمبر5 : دریائے برہماپتر کی لمبائی 3848 کلومیٹر ہے، یہ چین میں تبت کے قریب واقع جھیل مانسرور سے نکل کر چین،بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش سے ہو تا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔

نمبر6: Zambezi River یہ افریقہ کا چوتھا بڑا اور اہم دریا ہے، دنیا کی دو مشہور آبشاریں ویکٹوریہ آبشاراور چاویما آبشارVictoria Fall and Chavuma Fall اس میں سے نکلتی ہیں، اس دریا کی لمبائی 2574 کلومیٹر ہے، یہ دریا زمبابوے Zimbabwe انگولاTanzania تنزانیہ موزامبیق Mozambiquia ملاوئی Malawi ، نمیبیا Namibia اور بوسٹوانا Botswana سے گزرتا ہے، یہ دریا جنگلی حیات، جنگلات، مچھلیوں، پرندوں یعنی قدرتی حیات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

نمبر7: دریائے گنگا بھی ہمالیہ کی آغوش میں واقع جھیل مانسرور کے قریب گلیشیر گگنوتری کے نیچے سے نکلتا ہے، یہ ہندوں کے لیے بہت مقدس دریا ہے جو بھارت کے بعد بنگلہ دیش کو بھی سراب کرتا خلیج فارس میں گرتا ہے، اس کی کل لمبائی 2525 کلومیٹر ہے۔

نمبر8 : دریائے کولوراڈو اپنے سفید پانی کی وجہ سے مشہور ہے، یہ یو ایس نیشنل پارک 40 ملین یعنی چار کروڑ لوگوں کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کی کل لمبائی 2333 کلومیٹر ہے، یہ امریکہ اور میکسیکو میں بہتا خلیج کیلی فورنیا Gulf of California میں گرتا ہے۔

نمبر9 : دریائے سن فرنسسکو Sao Francisco River برازیل کے اندر 2914 کلومیٹر لمبائی میں بہتا ہے۔

نمبر10: دریائے والگا Volga River یورپ کا سب سے بڑا دریا ہے جو روس کے مرکزی علاقے میں 3645 کلومیٹر تک بہتا ہوا بحیرہ کیسپین Caspian Sea میں گرتا ہے۔ اس دریا کا روسی ادب ،تہذیب ،ثقافت پر گہرا اثر ہے ۔

نمبر11: دریا ئے اب آرٹیش Ob Irtysh River روس قازقستان چین اور منگولیا میں 5410 کلومیٹر بہتا ہے جو خلیج اب آرٹیشن Gulf of Ob میں گرتا ہے۔

نمبر 12: دریائے لینا دنیا کا گیارہواں طویل دریا ہے جو روس میں 4400 کلو میٹر کی لمبائی میں بہتا ہے ۔

نمبر13: دریائے میکاننگ Mekang River دنیا کا 12 واں طویل دریا ہے اور اس کی لمبا ئی 4350 کلو میٹر ہے جو مغربی چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان گزر گاہ ہے، یہ چین، میانمار،لاوس ، تھائی لینڈ ،کمبوڈیا اور ویتنام تک بہتا ہے اور جنوبی بحیرہ چین میں گرتا ہے ۔

نمبر14: دریائے نائجیر کی لمبائی 4200 کلومیٹر ہے جوGuina گوینیا کی بلندیوں سے نکلتا ہے اور خلیج گوینیا Gulf of Guina میں گرتا ہے یہ مغربی افریقہ کا ایک اہم دریا ہے۔

نمبر15: دریائے سالوین Salween یہ سالوین کے علاقے میں بہتا ہے جو باقی دنیا سے کٹا ہوا ایک خطہ ہے ۔

نمبر16 : دریائے ریو گرانڈی Rio Grande امریکہ سے میکسیکو تک اس دریا کی لمبائی3057 کلومیٹر ہے، یہ اس علاقے میں قدرتی سرحدد کا کام بھی دیتا ہے ۔

نمبر17: دریائے ویلیوے 2650 کلومیٹر طویل ہے، یہ روس کو سائبیریا سے ملاتا ہے۔ اس کا ذکر 17 ویں صدی عیسوی سے اہمیت اختیار کر گیا، اس دریا میں پانی کااخراج 1480 کیوبک میٹر فی سیکنڈ ہے، واضح رہے کہ سائبیریا دنیا کا سرد ترین علاقہ ہے۔

نمبر18: دریائے اراکوایا Araquaia River برازیل کا ایک اہم دریا ہے، یہ برازیل اور ریاست Goias Mato,Grosso Paraاور Tocantins کے درمیان قدرتی سرحد کا کام دیتا ہے۔

نمبر19: دریائے سنا کی امریکہ کا 13 واں بڑا دریا ہے جس کی لمبائی 1735 کلومیٹر ہے۔

نمبر20 : دنیا کے ٹاپ ٹونٹی دریاؤں میں بیسویں درجے پر دریائے اروگیائے Uruguay River آتا ہے، یہ برازیل میں 1838 کلومیٹر بہتا ہوا بحرالکاہلAtlantic Ocen میں گرتا ہے، اس دریا میں طغیانیاں آتی ہیں تو اس کی موجیں اپنی تہہ سے 100میٹر تک بلند اٹھتی ہیں ۔

یہ تمام ٹاپ ٹوینٹی دریا لمبائی کے لحاظ سے بڑے ہیں اور اِن کے علاوہ بھی 100 دریا ایسے ہیں جو ایک ہزار کلومیٹر تک طویل ہیں۔ ریل کا اسٹیم انجن جارج اسٹیفن نے 1825 ء میں نہ صرف ایجاد کیا بلکہ اس سے ٹرین چلانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا اور صرف36 سال بعد انگریز سرکار نے آج کے پاکستانی علاقے میں بھی کراچی اور کوٹری کے درمیان ریلوے لائن بچھا کر ٹرین چلا دی اور چند برسوں میںہمارے ہاں بھی پورے علاقے میں ریلوے لائنیں بچھا دی گئیں۔

اس پہلے ہزاروں برسوں سے جہاںجہاں دریا بہتے تھے وہاں ذرائع آمد ورفت کا سب سے بڑا ذریعہ یہی سارا سال بہنے والے دریا تھے، ان دریاؤں میںچھوٹی بڑی کشتیوںکے ذریعے نہ صرف سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر مسافر سفر کرتے تھے بلکہ مال برداری کے لیے بھی بڑی بڑی کشتیاں استعمال کی جاتی تھیں کیونکہ اُس زمانے میں سارا سال بہتے دریا پانیوں سے بھر ے بہتے تھے اور سمندروں میں گرتے تھے۔ دیارؤں پر بڑے بڑے ہزاروں ڈیمز تعمیر نہیں ہوئے تھے۔

یوں کشتیوں میں 90% تک ایندھن بھی استعمال نہیں ہوتا تھا اس طرح دھواں بھی نہیں اٹھتا تھا۔ دنیا کی آبادی ایک ارب تھی اور انسانی ترقی نے فطری حسن اور قدرتی ماحول کو مسخ نہیں کیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کا کوئی دریا ٹاپ ٹونٹی دریاؤں شامل نہیں ہے مگر یہاں یہ بات بہت واضح ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں موجود ہے ۔

یہاں بھی جب تک ہمارے دریاؤں پر ڈیمز تعمیر نہیں ہوئے تھے اور ریلوے لائنیں نہیں بچھائی گئی تھیں تو یہ دریا اور اِن کی کچھ نہروں میں بھی کشیاںچلا کرتی تھیں مگر اب کئی برسوںسے پاکستان کو پانی کے بحران کا سامنا ہے مگر اس سے پہلے ہم پاکستان کے دریاؤں کے قدرتی نظا م کا جائزہ لے لیں ۔

کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک پہاڑ کیلا ش کہلاتا ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی 6700 میٹر پر تبت کے علاقے کے بیچ بہت بڑی جھیل مانسرور کے نام سے ہے ۔ یہ جھیل نصف دائرے کی صورت میں پچاس میل کا گھیراؤ رکھتی ہے، وسط میں گہرائی 250 فٹ ہے۔ اس بلندی پر ساراسال اتنی سردی ہوتی ہے کہ انسانی سانس جم جاتی ہے مگر یہ جھیل اس لیے نہیں جمتی کہ اس کی تہہ میں ابلتے ہوئے گرم پا نی کے چشمے ہیں۔

یہ جھیل بدھ مت اور ہندو دھرم دونوں میں مقدس سمجھی جاتی ہے، ہندوں کی سنسکرت زبان کی قدیم کتابوں میں یہ جھیل شکتی (فنا) اور مکتی (بقا) کے دیوتا شیوا اور اُن کی بیوی کی قیام گاہ ہے اور کوئی خوش قسمت انسان ہو تو اُسے یہ دونوں سفید براق کونجوں کی شکل میں جھیل میں تیرتے نظر آتے ہیں جب کہ بدھ مت کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مہاتمابدھ آج بھی اپنے پانچ سو بھکشوؤںکے ساتھ جھیل مانسرور کے کنارے پر ابدی زندگی گزار رہے ہیں ۔

اس جھیل اور اس کے قریب سے پاکستا ن ،بھارت ، بنگلہ دیش اور چین کے دریا نکلتے ہیں ۔ ہندو اور بدھ میتھالوجی میں کیلاش کے اس پہاڑ کو کائنات کی ناف قرار دیتے ہیں اور کوہ ہمالہ کو ساگر ماتا یعنی سمندروں کی ماںکہا جاتا ہے یہاں سے بہت سے اہم دریا نکلتے ہیں ، دریائے برہم پتر بھی اسی جھیل سے نکلتا ہے چین میں اسے سانپو کہتے ہیں، بعد میں یہ بھارت اور پھر بنگلہ دیش تک جاتا ہے، دوسرا دریا ستلج ہے، تیسرا دریا کرنالی ہے جو ذرا آگے چل کر بھارت کے عظیم دریا گنگا سے مل جاتا ہے ۔

گنگا گنگوتری گلیشر کے نیچے سے نکلتا ہے، پھر پانچواں دریا جمنا جو بھارت میں بہتا ہے کلاش ہی کے گلیشیر جموتری سے نکلتا ہے اور سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے بھارت کے مشہور شہر الہ آباد کے قریب گنگا اور جمنا مل جاتے ہیں۔

دریائے گنگا ہندو دھرم میں معتبر اور مقدس تصور کیا جاتا ہے، پھر چھٹے نمبر پر عظیم دریائے سندھ ہے جسے اباسین بھی کہا جاتا ہے یہ دریا بھی جھیل مانسرور سے نکلتا ہے، پھر کشمیر کے علاقے میں جہلم ، راوی ، ستلج آگے بڑھتے ہوئے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی راوی ، جہلم ،ستلج ،چناب اور سندھ کے حوالے سے پانچ دریاؤں کے ملاپ کی بنیاد پرپنجاب کہا جاتا ہے، اگرچہ دریائے سندھ میں کابل اور دیگر کچھ چھوٹے دریا اور بہت سی ندیاں بھی ملتی ہیں مگر یہ سندھ ، جہلم ، ستلج ، چناب ، بیاس اور راوی بڑے اہم ترین دریا ہیں۔

دریائے سندھ کی لمبائی جھیل مانسرور سے کراچی کے نزدیک بحیرہ عرب کے ڈیلٹا تک 3180 کلومیٹر ہے اور باقی تمام بڑے دریا مختلف مقامات پر دریائے سندھ سے ملتے ہیں اور اس کے معاون دریا کہلاتے ہیں۔ دریائے چناب کی لمبائی 720 کلومیٹر دریائے ستلج کی لمبائی1450 کلومیٹر دریائے راوی کی لمبائی 960 کلو میٹر اور دریائے جہلم کی لمبائی 725 کلومیٹر ہے، قائد اعظم ایک بہادر ، ذہین، مدبر اور عظیم لیڈر تھے اور علامہ اقبال کی لیڈر کے بارے میں تعریف پر پورے اترتے تھے '' نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پُر سوز ۔۔۔۔ یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے '' ۔ وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن پنڈت جواہر لال نہرو نے سر سیرل ریڈ کلف سے مل کر پنجاب کی تقسیم کے وقت فیروز پور، گورداسپور کی مسلم اکثریت کے اضلاع بھارت میں شامل کر کے پانی کی تقسیم کے ہیڈ ورکس بھی بھارت کے حوالے کر دئیے تھے اور کشمیر جس کو بیرونی دنیا سے ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستانی علاقے سے گزرتے ہیں۔

اِن کی بجائے بھارت کو کشمیر تک رسائی کے لیے مشرقی بھارتی پنجاب کے علاقے سے پٹھان کوٹ کا ایک مصنوعی راستہ کشمیر کو فراہم کر دیا۔ آزادی اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو نہ صرف مہاجرین کی آبادکاری کا سامنا تھا بلکہ معاشی اور مالی مشکلات میں بھی بھارت نے مبتلا کیا کہ انڈین سنٹر ل بنک میں چار ارب روپے میں سے پا کستان کے ایک ارب روپے کو روک لیا اور پھر جب عالمی دباؤ آیا تو اس میں سے صرف 20 کروڑ روپے پاکستان کو دئیے اور سب سے بڑا یہ کہ پاکستان میں آنے والے دریاؤں کے پا نی کو روک لیا۔

اسی دور میں قائد اعظم کی اسٹرٹیجی یہ رہی کہ اُنہوں نے کشمیری مجاہدین اور وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے مجاہدین کے لشکر تیار کئے، انگریز کمانڈرانچیف کی مرضی کے خلاف پاکستانی فوجی افسران نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، لداخ کا ایک بڑا حصہ پاکستان نے آزاد کر وا لیا جس سے پاکستان نے بھارت کو اسٹرٹیجی کی بنیاد پر کشمیر کے نزدیک تاجکستان اور افغانستان تک واخان راہداری کوریڈور زمینی رسائی سے محروم کر دیا ۔ قائد اعظم اس دوران جولائی 1948 ء میں ٹی بی کے مرض میں شدت آجانے کی وجہ سے زیارت بلوچستان میں علاج اور آرام کی غرض سے بھیج دیئےگئے تھے۔

وہ اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق رائے شماری کے نہرو کے وعدے پر یقین نہیں رکھتے تھے اور جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کے خلاف تھے ، قائداعظم چاہتے تھے پورا کشمیر آزادہو جائے، اگر ایسا ہو جاتا تو ہمارے دریاؤں کے علاوہ بھارت کے دریاؤں کی گزرگاہیں بھی ہمارے پا س ہوتیں مگر 11 ستمبر 1948 ء کو قائد اعظم کے انتقال کے بعد جنوری 1949 ء میں پاکستان کی حکومت نے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی اقوام متحد ہ کی قرارداد کو منظور کرتے ہوئے اُس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن کو قبول کر لیا اور طے ہوا کہ اقوام متحدہ جلد مقبوضہ جموں و آزادکشمیر میں آزادانہ استصواب ر ائے یعنی ریفرنڈم کر وائے گا۔

کشمیری فیصلہ کر لیں گے کہ کشمیر پاکستان یا بھارت میں شامل ہو گا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کی تلخ حقیقت ہے۔

اس کے بعد بھارت پانی کے تنازعے کو عالمی سطح پر لے گیا اور پھر 1960 ء میں پاکستان بھارت کے درمیان دریاؤں اور پانیوں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کی توثیق 1962 ء میں کر دی گئی۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ ،دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانیوں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کر لیا گیا اور دریائے ستلج ، روای ، بیاس بھارت کے حوالے کر دئیے گئے۔

اسی معاہدے کے تحت پاکستان میں عالمی بنک کی فنی اور مالی معاونت سے تربیلا اور منگلا ڈیمز تعمیر کئے گئے، منگلا ڈیم جہلم شہر سے 32 کلومیٹر دور آزاد کشمیر کے شہر میر پور پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس مقام کا نام منگلا ہے۔1960 ء کے Indus Water Treaty یعنی سندھ طاس معاہدے کے بعد اس منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔

مٹی اور بجری سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم کا شمار اُس وقت تو دنیا کے ٹاپ ٹوینٹی ڈیمز میں ہوتا تھا مگر اب یہ دنیا کے بڑے ڈیموں میں سے ایک ہے، اس کی جھیل 60 کلو میٹر لمبی تھی جس کی چند برس قبل توسیع ہو چکی ہے۔ منگلا ڈیم میں دریائے جہلم اپنے معاون دریاؤں نیلم، کانشی، کشن گنگا اور دریائے پونچھ کے پانیوں کو جمع کرتا ہے۔

اس ڈیم کی بلندی 49 فٹ ہے، منگلا ڈیم کی جھیل میں 9.6 ملین مکعب ایکڑ پانی کی گنجائش ہے لیکن توسیع کے بعد اس میں پانی کی گنجائش بڑھ گئی ہے، تربیلا ڈیم ایک کثیر المقاصد ڈیم ہے، تربیلا ڈیم منگلا ڈیم سے دو گنا بڑا ہے اس کا حجم cu yd 139000000 (106000000 میٹر3 ) پانی کے گزر نے کی گنجائش 650000 کیوسک cusecs ہے۔

اس کی جھیل میں پا نی جمع کر نے کی گنجائش 1941000 یعنی 1974 ء میں تھی اس میں پانی کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 450 فٹ تھی اس کے بجلی گھر سے پن بجلی بھی حاصل ہو تی ہے، یہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا ہے جو اسلام آباد سے جنوب مغرب میں 105 کلو میٹر اور پشاور سے مشرق میں 125 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، 1976 ء جب تربیلا مکمل طور پر تعمیر ہو گیا تو اُس وقت یہ دنیا کا مٹی اور بجری سے بننے والا بڑا ڈیم تھا۔ واضح رہے کہ ہمارے دریاؤں میں موسم گرما میں پانی کی مقدار میں موسم سرما کے مقابلے میں کئی گنا اضاٖفہ ہو جاتا ہے ۔

اِس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک دائمی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ دریا ہمالیہ کے برف پوش بلند پہاڑی سلسلوں اور دنیا کے بڑے گلیشیروں سے آتے ہیں، سردیوں کے موسم میں یہاں درجہ حرات جو عموماً منجمند تو رہتا ہے وہ منفی 40 سینٹی گریڈ سے زیادہ تک گر جاتا ہے اس لیے دریاؤں میں پانیوں کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور گرمیوں یہ مقدار تین چار گنا بڑھ جاتی ہے۔

پھر مو سم گر ما خصوصاً جو لائی اگست میں بھارت اور پاکستان میں مو ن سون کی بارشیں ہو تی ہیں، اپنے مزاج کے مطابق ہر تین چار سال بعد مون سون کی یہ بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں جن سے اس خطے میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں یوں ہمارے اس خطے میں یہ ڈیمز اس اعتبار سے بہتر ہیں اِن میں سیلابی پانی کو روک کر ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور اس سیلابی پانی کو جو ان ڈیمز میں ذخیرہ ہو جاتا ہے اسے زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

بد قسمتی دیکھئے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت ہی دو بڑے ڈیم یعنی منگلا اور تربیلا ڈیم بنا سکے ہیں جب کہ بھارت نے ہمارے دریاؤں پر14 بڑے ڈیموں کی تعمیر سمیت 102 بڑے ڈیم تعمیر کر لیے ہیں جب کہ ہمارے ہاں منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد تیسر ا بڑا ڈیم کالا باغ ڈیم تعمیر ہونا تھا جو بدقسمتی سے سوچے سمجھے بغیر سیاست کی نذر ہو گیا۔

پروفیسر نصیر احمد کی کتاب ( یہ دریائے سندھ ہے) کے حوالے سے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کا جا ئزہ یوں ہے'' کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا مقام تربیلا ڈیم سے نیچے دریائے سندھ جو یہاں سے 50 کلومیٹر تک ایک کشادہ میدانی علاقے میں بہتا ہے پھر اٹک خورد کے سامنے دریا ئے کابل اپنے مٹیالے پانیوں کے ساتھ آن ملتا ہے، آگے اس سے دریائے ہرو اور سواں بھی سندھ سے مل جاتے ہیں۔

اسی علاقے میں ملک کا تیسرا بڑا ڈیم بنانے کا منصوبہ تھا جس سے پاکستان میں نہ صرف سیلابوں کی تباہ کاریوں کی شدت میں کمی آتی بلکہ اس سے لاکھوں ایکڑ زمینوں کے سراب ہو نے کے ساتھ ساتھ پن بجلی کی پیداوار میں بھی قابل ِ قدر اضافہ ہوتا یعنی اگر کالا باغ ڈیم 1980 ء کی دہائی میں مکمل ہو جاتا تو ہم معاشی اقصادی طور پر اُسی وقت سے مستحکم ہو جاتے مگر افسوس کہ کالا باغ ڈیم سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔

آج اگرچہ دنیا میں دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیموں کی تعمیر سے 6 کروڑ 40 لاکھ کلومیٹر طویل سارا سال بہنے والی ندیوں اور دریاؤں Perennial Rivers کے تقریباً60% دریاؤں اور ندیوں کی ہزاروں لاکھوں سال پرانی گزر گاہوں کو پانیوں سے کافی حد تک خالی کر دیا گیا ہے اور اب ان کا پانی سمندروں میں گرنے سے کئی کئی سو کلومیٹر پہلے ہی خالی ہو جاتا ہے اور اس کے نہایت ہی منفی اثرات پوری دنیا کے ملکوں پر ماحولیاتی انداز میں مرتب ہو رہے ہیں، مگر پاکستان کی صورتحال اس اعتبار سے ناکردہ گناہوںکی سخت سزائیں بھگتنے کی سی ہے وہ یوں کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل مشترکہ پنجاب میں دریائے سندھ، جہلم، چناب ، ستلج ، راوی ، بیاس کے پانیوں کی تقسیم کے لیے 23 نہروں تھیں۔

اَن میں سے 21 نہریں پاکستان کے علاقے میں ہیں مگر تقسیم کے وقت مسلم اکثریت کے گورداسپور اور فیروز پور کے اضلاع جہاںپانی کی تقسیم کے ہیڈ ورکس تھے، یہ مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے ،1960 ء میں سندھ طاس معاہدے کے بعد بھارت نے نہ صرف اپنے حصے کے تین دریاؤں ستلج ، بیاس اور راوی کا پانی مکمل بند کر دیا ہے بلکہ ہمار ے تین دریاؤں پر بھی 14 بڑے ڈیم اپنے علاقے میںتعمیر کر لئے ہیں پھر ایک تلخ حقیقت یہ ہیں کہ اِن چھ دریاؤں کے آخری سینکڑوں کلومیٹر خالی یا خشک حصے بحیرہ عرب میں گرنے سے پہلے پاکستان میں ہیں، پھر بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق خصوصاً سیلابوں کے پانیوں کو روکنے کے لیے اپنے ہاں Perennia Rivers پر مون سون کی بارشوں کے لیے بھی ڈیمز تعمیر نہیں کئے، یوں جب سیلاب آتے ہیں تو بھارت اپنے ڈیمز کے زیادہ بھر جانے پر اِن ڈیموں کا پانی دریائے بیاس ، دریائے راوی اور دریائے ستلج میں چھوڑ دیتا ہے جو ہمارے ہاں پھر شدید تباہی کا سبب بنتے ہیں۔

واضح رہے کہ کلائمیٹ چینج ( پوری دنیا میں موسمی تبدیلی ) اور گلوبل وارمنگ ( پوری دنیا میں حرارت میں اضافہ) کی وجہ سے اب ایک جانب North Pool and Soth Pool بحر منجمد شمالی بحرمنجمد جنوبی میں لاکھوں برس سے قائم گلیشئیر اس بڑھتی ہوئی عالمی سطح کی حرارت ''گلوبل وارمنگ سے غیر معمولی انداز میں پگھلنے لگے ہیں تو ساتھ ہی دنیا میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے علاوہ خشکی پر دنیا کے تقریباً تمام بڑے گلیشئیرز پاکستان کے علاقے میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں پر موجود ہیں جواب ماضی کے مقابلے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ2050 ء تک اِن گلیشیئر میں سے بیشتر کا خاتمہ ہو جا ئے گا۔

بھارت حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اوردریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کر رہا ہے جس پر پاکستان کو قانونی اعتراض ہے۔

سندھ طاس معاہدے کو مستحکم اور پائیدار رکھنے کے لیے اُس وقت ایک مستقل انڈس کمیشن بنایا گیا تھا جس کے اجلاسوںمیں پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹرز کمشنرز شرکت کرتے ہیں، 5 جون2022 ء بی بی سی انڈیا کے مطابق انڈس کمیشن کا 118 واں اجلاس منعقد ہوا تھا، یہ اجلاس مارچ 2022 ء میں ہو اتھا اجلاس میں پاکستان کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

واضح رہے کہ انڈس کمیشن مذاکرات کی بنیاد پر سندھ طاس معاہدے سے متعلق پیدا ہو نے والے تنازعات ماضی میںحل کرتا رہا ہے جیسے دونوں ملکوں میں سلال ڈیم کا تنازعہ 1978 ء میں حل کر لیا گیا مگر پھر بگلیہاڈیم کا مسئلہ سامنے آیا تو اسے عالمی بنک کے مقررکردہ غیر جانبدار ثالث نے2007 میں حل کیا، اسی طرح کشن گنگا پروجیکٹ بھی ایک متنازعہ پروجیکٹ تھا اور یہ تنازعہ عالمی ثالثی عدالت تک پہنچا اور اس پر دس سال پہلے 2013 ء میں فیصلہ ہوا۔ اگرچہ خطے کے اور عالمی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس واحد معاہدہ ہے جو گزشتہ 63 برسوں سے قائم ہے مگر اب صورتحال بہت مختلف ہے۔

1951 ء میں آج کے پا کستان کی آبادی3 کروڑ40 تھی اور بھارت کی آبادی 31 کروڑ 10 لاکھ تھی، 1961 ء میں جب سند ھ طاس معاہد ہ ہو چکا تھا تو آج کے پا کستان کی کل آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ اور بھارت کی آبادی 43 کروڑ 89 لاکھ تھی آج بھارت کی آبادی 1 ارب42 کروڑ ہو چکی ہے اور پاکستان اپنی تقریباً 25 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں ملک ہے۔

اور اب دنیا میں فوڈ سکیورٹی کا بحران پیدا ہو چکا ہے جس میں مستقبل قریب میں شدت آجائے گی، پھر 5 اگست 2019 ء بھارت نے اپنے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی اندرونی مکمل خودمختاری کو بھارتی آئین کی شق 370 کے ختم کرنے اور ''باشندگی اور مقامیت'' کے قانون 35A کو بھی ختم کر دیا ہے۔

ان دونوں بھارتی قوانین کے تحت بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے جب کشمیر کی جنگ جاری تھی تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ قرارداد منظور کرائی تھی کہ جموں وکشمیر کا فیصلہ آزادانہ اور منصفانہ انداز میں رائے شماری کے ذریعے اقوام متحدہ کرائے گا پھر نہرو نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے بعض سیاستدانوں کو بھارتی آئین میں370 شق کے تحت یہ ضمانت دی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت اپنا صوبہ نہیں بنائے گا بلکہ یہ اندرونی طور پر ایک خود مختار ریاست ہو گی اور اِس کا اپنا وزیراعظم ہو گا اسی طرح 35A کے قانون کے تحت یہ ضمانت دی کہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تنا سب تبدیل نہیں کیا جائے گا کہ مقامی کشمیری جو صدیوں سے یہاں کے باشندے ہیں۔

اِن کے علاوہ کوئی بھی بھارتی یا کو ئی غیر ملکی شخص نہ تو یہاں جائیداد خرید سکے گا اور نہ ہی اُس کو یہاں کی قومیت اور شہریت دی جائے گی یعنی کوئی بھارتی بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کا ڈومیسائل حاصل نہیں کر سکے گا مگر اب بھارت نہ صرف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو در کر چکا ہے بلکہ اپنے آئین میں مقبوضہ جموں وکشمیر اور کشمیروں کو دی گئی ضمانت کو بھی رد کر چکا ہے اور اب بھارت اکثر ہمارے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی متنازعہ علاقہ کہتا ہے۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بھارت کو ہمارے دیا میر بھاشا ڈیم پر اعتراض ہے اور اب بھارت میں یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ معاہدہ سندھ طاس کی اب وہ حیثیت نہیں رہی، ہمیں اس کو بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 ء کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اب بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دے گا اور مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کا ایک صوبہ بن جائے گا تو پھر 1960 ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی حیثیت کیا ہوگی۔

یہاں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس معاہدے میں تیسرا فریق عالمی بنک تھا تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت پاکستان کے درمیان جموں و کشمیر میں رائے شماری کروانے کی قراردادوں کی ضمانت بھی تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے دی تھی۔ واضح رہے 1980 ء کی دہائی میں دنیا میں ماہرین نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔

اس وقت سنٹرل ایشیا افغانستان میں دریائے آمو کے پا نی پر تنازعات اٹھنا شروع ہیں، دریائے نیل جو آٹھ ملکوں سے گزرتا ہے اور بیشتر کے آپس میںنیل کے پانی پر تنازعات ہیں اور مصر اور ایتھوپیا میں تو تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

چین ،بھار ت اور بنگلہ دیش میں دریائے برہماپتر پر بھی مستقبل میں تنازعہ ابھرتا دکھائی دے رہا ہے، یوں دنیا میں کئی ایسے ملک ہیں جہاں آبی تنازعات ابھر کے سامنے آرہے ہیں لیکن سب سے زیادہ اورخطرناک صورتحال بھارت اور پاکستان کے درمیان ابھر رہی ہے جس کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔