نقطہ ٔ نظر پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش مسائل
ملک کی آبادی میں زیادہ تر 30 سال کی عمر سے کم افراد موجود ہیں۔
شعبہ صحافت، پنجاب یونیورسٹی لاہور
پاکستان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد رکھتا ہے، ملک کی آبادی میں زیادہ تر 30 سال کی عمر سے کم افراد موجود ہیں۔ یہ نوجوان آبادی ملکی معیشت اور معاشرے کے لئے طاقت کے ایک ممکنہ ذریعہ کو ظاہر کرتی ہے، لیکن وطن عزیز میں ان نوجوانوں کو کئی چیلنجز اور مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح حیرت انگیز طور پر 9.1 فیصد ہے جو ملک میں بے روزگاری کی مجموعی شرح سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ ملازمت کے مواقع کی یہ کمی نہ صرف مالی عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے مایوسی اور ناامیدی کا احساس بھی جنم لیتا ہے۔
تعلیم جس پر ایک کامیاب کیریئر اور مستقبل تعمیر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد کو اس بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق دنیا میں دیکھا جائے تو پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے، ایک اندازے کے مطابق ملک میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے محروم ہیں۔ تعلیم کی یہ کمی نہ صرف ان کے مستقبل کے امکانات کو محدود کرتی ہے بلکہ بے روزگاری کے عوامل کو بھی بڑھاوا دیتی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میں غربت کی سطح بہت بلند ہے۔ پاکستان میں بہت سے نوجوان غربت میں زندگی گزارنے والے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو ان کی خوراک، پناہ گاہ اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات تک کر پورا نہیں کر پاتے۔ غربت نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نمایاں اثرات مرتب کرتی ہے اور انہیں اپنی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے سے روکتی ہے۔
پاکستان کو صحت کے چیلنجوں کا سامنا بھی ہے جس سے نوجوان بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غذائیت کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 40 فیصد بچے مستقل غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کو درپیش دیگر صحت کے مسائل میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کا فقدان، متعدی بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح، اور ذہنی صحت کی معاونت کا فقدان شامل ہیں۔
پاکستان میں صنفی عدم مساوات ایک اہم مسئلہ ہے، اور نوجوان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو اکثر تعلیم اور صحت کے مواقع تک یکساں رسائی حاصل نہیں، اور انہیں امتیازی سلوک اور تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوجوان مرد بھی صنفی عدم مساوات سے متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ توقع کی جاتی ہے کہ ان کا طرز عمل مردانگی اور دوسرے سخت معاشرتی اصولوں کے مطابق ہو۔
وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام کی ایک طویل تاریخ ہے، اور اس کا نوجوانوں کی زندگیوں پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ سیاسی استحکام کی کمی تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی کا باعث بن سکتی ہے، جو نوجوانوں کے لئے مستقبل کے مواقع کو محدود کرتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی عدم استحکام تشدد اور سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا ہے جس سے نوجوانوں کی ذہنی صحت اور بہبود پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ملک کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کا استعمال، دنیا میں سب سے زیادہ شرح والے ممالک میں سے ایک ہے۔
اندازے کے مطابق 70 لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ معاشرتی اور معاشیات کے مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش مسائل کثیر الجہت ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی، جو ان مسائل کی بنیادی وجوہات کو حل کرے۔ تعلیم، ملازمت کے مواقع، ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کرنا، غربت اور صحت کے مسائل سے نمٹنا، صنفی مساوات کو فروغ دینا، اور منشیات کے استعمال اور مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے کو حل کرنا وہ تمام اہم اقدامات ہیں جن کو یقینی بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں نوجوان اپنی پوری صلاحیت کا مثبت استعمال کرسکیں۔ پاکستان اپنے نوجوانوں کو ملک کے روشن مستقبل کے خواب کی تعبیر کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔
سکون کی تلاش
کبھی کبھی ہم انجانے میں فطرت سے برعکس عمل کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ ''جو تیری مرضی'' میں ایک بے بسی کی کیفیت ہے، جس کے بعد صبر کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خوشی سے اپنی دل کی آواز پر لبیک کہنا فطرت کے نظام سے ہم آہنگ ہونے کی ہی صورت ہے۔
فطرت کے نظام سے جْڑ جانے سے دل کو سکون ضرور ہوتا ہے کہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کر رہا ہے وہی ہم بھی کر رہے ہیں تو پھر بے چینی کیسی؟ منفی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں ، اور مثبت قوت ہمارے اندر جو حوصلہ پیدا کرتی ہے اس کے آگے کسی قسم کی چیز حائل نہیں ہو سکتی کیونکہ خالقِ کائنات کے نظام کی فراوانی اور تسلسل میں ہمیں وہ تمام اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جو خالق کے پاس ہیں۔
گویا زندگی کو پْرسکون بنانے کے لئے یہ پہلا مرحلہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فطرت کے نظام سے جوڑے رکھیں۔ ایک طریقہ سے دیکھا جائے تو انداز تو یہ بھی وہی ہے کہ ''جو تیری مرضی'' لیکن اس میں کوئی زور زبردستی اور مجبوری نہیں بلکہ ہم نے خوشی سے، اپنی رضامندی سے اپنے سکون کی خاطر یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ:
1۔ مجبوری میں ''جو تیری مرضی'' کہنے سے زندگی میں آسانیاں تو آ جائیں گی لیکن دلی سکون میسر نہ ہو پائے گا۔
2۔ خوشی سے ''جو تیری مرضی'' کہنے سے زندگی میں نہ صرف آسانیاں آ جائیں گی بلکہ ذہنی و دلی سکون حاصل ہوگا۔
3۔ انجانے میں ''جو تیری مرضی'' کہنے سے بے چینی کی کیفیت کا احساس ہی نہ ہوگا کیونکہ کبھی بے چینی کی کیفیت سے واسطہ ہی نہیں پڑتا۔
پھر کہنے میں اور کر کے دکھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اپنی زندگی کا رخ یہاں سے وہاں اور اس طرف سے اس طرف موڑ دو لیکن اس پہ عمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی انسان دوسرے نمبر کے اصول کو اپنا لے اور اس پر عمل کرتا رہے تو اس سے اچھی زندگی اور کس کی ہوگی؟ کیونکہ انجانے میں ''جو تیری مرضی'' پر چلنے والے کو تو کسی کیفیت کا احساس ہی نہیں۔ اگر کوئی انسان درد اور تکلیف کے وقت سے گزر رہا ہے تو اس پر گزرنے والی تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے۔ دوسرے صرف دلاسا دے سکتے ہیں، حالات کو سہنے کا کام ہم نے خود کرنا ہوتا ہے اور اپنی ذات کے ساتھ جنگ بھی خود کرنی ہوتی ہے۔ مجبوری میں ''جو تیری مرضی'' پر عمل کرنے والے کو ہر برے وقت سے دو چار ہونے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ مثبت و منفی قوت کے اثرات ہوتے کیسے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں یہ احساس ہوجائے کہ فطرت کے نظام کو قبول کر لینے کے بعد کس قدر آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کسی وقت بھی ہم خود کو اکیلا محسوس نہ کریں اور نہ ہی کبھی ڈپریشن یا مایوسی کی کیفیت طاری نہ ہو۔ بس اس بات پر ایمان رکھیں کہ جو بھی ہوا منظور خدا ہو گا اور اللہ کی رضا اور بہتری اس میں شامل ہو گی۔
اقصیٰ سجاد
شعبہ صحافت، پنجاب یونیورسٹی لاہور
٭ آپ نے دل کی بات کہنی ہو، پہلے ہی جملے کے لیے موزوں الفاظ کا چنائو کس قدر مشکل ہے۔ زبان سے نکلا ایک ایک حرف اپنے ساتھ اچھائی اور برائی دونوں لے کر پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک حرف چند لمحوں میں زندگی کے حالات و واقعات بدل ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لفظ قلم سے نکلتا ہے اور سوچ دل و دماغ سے، اور دل کا مکالمہ لفظ ہے، حرف ہے۔ قلم کے لکھنے کا انداز لفظ کی وقعت کو بڑھا دیتا ہے سو ہلکی سی غلطی محرم کو مجرم اور مجرم کو محرم بنا دیتی ہے۔ وقت یہ کہتا ہے کہ سچ لکھا جائے کیونکہ حالات بہت سنجیدہ ہیں اور معاملات ناقابل تحریر۔ہمارے پیارے ملک کو مالی، معاشی آزادی تو کبھی نہیں ملی لیکن اب معاشی غلامی کی جن رسیوں میں ہم بندھ چْکے ہیں اْس کا ذمہ دار کون ہے؟ سوال کڑوا ہے لیکن عوام کو سچائی اور حقائق سے آگاہ کرنا بھی تو ضروری ہے۔ سوویت یونین کیسے بکھرا اور افغانستان کی یہ صورت حال کیوں ہے۔ جبکہ دوسری طرف بنگلہ دیش نے کم عرصے میں ترقی کیسے حاصل کی اور انڈیا نے ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ کھربوں کے ذخائر کیسے بنائے، اس کے لیے نہ تو کسی تفتیش و تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی مخصوص سوچ کی، سوائے اس کے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ریاستیں جمہوریت اور سیاسی استحکام سے معاشی استحکام اور جغرافیائی سلامتی کو یقینی بناتی ہیں۔
بے شمار قرضوں تلے دب کر نہ تو ہم معاشی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی بڑے دعوے کرنے والا ہمیں غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔ 'ہم کوئی غلام ہیں' کے نعرے نہ تو ہمیں اربوں ڈالرز کے قرضوں سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں بیٹھے بیٹھے اصل آزادی دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے معاشی خود کفالت کی ضرورت ہے جو دستیاب نہیں، اور جیب کا حال بھی ایسا کہ جو پیسے آئیں وہ بھی نکل جائیں۔
معیشت تو ویسے بھی کبھی اچھی نہ تھی مگر موجودہ صورتحال ایسی حیران کن ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں اور معمولی سی چیز بھی عوام کی پہنچ سے دور ہے۔ نہ کل دودھ اور شہد مہیا تھا، نہ ہی اب روٹی، کپڑا اور مکان عوام کی پہنچ میں ہیں مگر حالات اس حد تک برے ہوں جائیں گے یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ موجودہ حالات پر نظرثانی کرنے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ایک طرف سوویت یونین کی مثالیں دی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی جانب سے معاشی مطالبے پورے نہ ہونے کے صورت میں وفاق کو دبانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلہ پر ہر قسم کی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے تو دوسری جانب مغربی سرحد پر بے امنی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان ایک بار پھر سے سر گرم دکھائی دے رہی ہے اور اے این پی کے ایمل ولی خان کو دی جانے والی دھمکیاں اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس کا فوری احساس ہونا ضروری ہے۔کمزور اور لاچار معیشت اور اندرونی بحران کسی بھی ملک کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اس سب کے درمیان نفسیاتی جنگ جس کا مقابلہ ریاست اور عوام دونوں کو مل کر کرنا ہے، لیکن سیاسی تفریق ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نہ تو ہم سوویت یونین ہیں اور نہ ہی ہماری پالیسیاں ترقی یافتہ ممالک جیسی ہیں جو ہم ان کا استعمال کر کے ملک کو ترقی کے دہانے پر لے جائیں۔ آمریتوں اور کنٹرولڈ جمہوریت کے دوران، ہم اب بھی عوامی سطح پر جمہوریت پسند ملک ہیں۔ کسی معاشی تنگی اور نقصان کے منتظر منافق اور موقع پرست یاد رکھیں کہ اْن کے سیاسی مفادات بھی اسی ملک کے عوام، ریاست کے ساتھ ہی جْڑے ہیں۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وطن عزیز کے عوام بدقسمت ہیں جو ملک کا اصل اثاثہ ہیں۔ یہ جمہوریت پسند عوام مشکلات کے باوجود محنت سے سماجی سطح پر ملک کا نظام چلا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حکمرانوں کو صرف اپنے مفادات اور اقتدار عزیز ہیں۔ یہ 'خوش قسمت' حکمران ملکی وسائل کا بے رحمی سے ضیاع کرتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کی رقم اپنے ذاتی عیش و آرام پر خرچ کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور عوامی مفاد کو دیکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جس سے آنے والے برسوں میں عوام کی مشکلات میں کمی ہو اور عوام خوشحال زندگی گزار سکیں۔ موجودہ معاشی بحران کی ذمہ داری کا جائزہ لینے کے لیے 'سچائی کمیشن' بھی تشکیل دیا جائے جو عوام کو آگاہ کرے کہ کن معاشی پالیسیوں اور کن شخصیات کے باعث آج مملکت اس جگہ اور مقام پر پہنچے ہیں کہ جہاں آگے کھائی اور پیچھے سمندر ہے۔
پاکستان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد رکھتا ہے، ملک کی آبادی میں زیادہ تر 30 سال کی عمر سے کم افراد موجود ہیں۔ یہ نوجوان آبادی ملکی معیشت اور معاشرے کے لئے طاقت کے ایک ممکنہ ذریعہ کو ظاہر کرتی ہے، لیکن وطن عزیز میں ان نوجوانوں کو کئی چیلنجز اور مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح حیرت انگیز طور پر 9.1 فیصد ہے جو ملک میں بے روزگاری کی مجموعی شرح سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ ملازمت کے مواقع کی یہ کمی نہ صرف مالی عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے مایوسی اور ناامیدی کا احساس بھی جنم لیتا ہے۔
تعلیم جس پر ایک کامیاب کیریئر اور مستقبل تعمیر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد کو اس بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یونیسکو کے مطابق دنیا میں دیکھا جائے تو پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے، ایک اندازے کے مطابق ملک میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے محروم ہیں۔ تعلیم کی یہ کمی نہ صرف ان کے مستقبل کے امکانات کو محدود کرتی ہے بلکہ بے روزگاری کے عوامل کو بھی بڑھاوا دیتی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میں غربت کی سطح بہت بلند ہے۔ پاکستان میں بہت سے نوجوان غربت میں زندگی گزارنے والے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو ان کی خوراک، پناہ گاہ اور صحت کی دیکھ بھال جیسی بنیادی ضروریات تک کر پورا نہیں کر پاتے۔ غربت نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نمایاں اثرات مرتب کرتی ہے اور انہیں اپنی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے سے روکتی ہے۔
پاکستان کو صحت کے چیلنجوں کا سامنا بھی ہے جس سے نوجوان بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غذائیت کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 40 فیصد بچے مستقل غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کو درپیش دیگر صحت کے مسائل میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کا فقدان، متعدی بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح، اور ذہنی صحت کی معاونت کا فقدان شامل ہیں۔
پاکستان میں صنفی عدم مساوات ایک اہم مسئلہ ہے، اور نوجوان اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو اکثر تعلیم اور صحت کے مواقع تک یکساں رسائی حاصل نہیں، اور انہیں امتیازی سلوک اور تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوجوان مرد بھی صنفی عدم مساوات سے متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ توقع کی جاتی ہے کہ ان کا طرز عمل مردانگی اور دوسرے سخت معاشرتی اصولوں کے مطابق ہو۔
وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام کی ایک طویل تاریخ ہے، اور اس کا نوجوانوں کی زندگیوں پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ سیاسی استحکام کی کمی تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی کا باعث بن سکتی ہے، جو نوجوانوں کے لئے مستقبل کے مواقع کو محدود کرتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی عدم استحکام تشدد اور سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا ہے جس سے نوجوانوں کی ذہنی صحت اور بہبود پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ملک کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات کا استعمال، دنیا میں سب سے زیادہ شرح والے ممالک میں سے ایک ہے۔
اندازے کے مطابق 70 لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال سے نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ معاشرتی اور معاشیات کے مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش مسائل کثیر الجہت ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی، جو ان مسائل کی بنیادی وجوہات کو حل کرے۔ تعلیم، ملازمت کے مواقع، ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کرنا، غربت اور صحت کے مسائل سے نمٹنا، صنفی مساوات کو فروغ دینا، اور منشیات کے استعمال اور مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے کو حل کرنا وہ تمام اہم اقدامات ہیں جن کو یقینی بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں نوجوان اپنی پوری صلاحیت کا مثبت استعمال کرسکیں۔ پاکستان اپنے نوجوانوں کو ملک کے روشن مستقبل کے خواب کی تعبیر کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔
سکون کی تلاش
کبھی کبھی ہم انجانے میں فطرت سے برعکس عمل کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ ''جو تیری مرضی'' میں ایک بے بسی کی کیفیت ہے، جس کے بعد صبر کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خوشی سے اپنی دل کی آواز پر لبیک کہنا فطرت کے نظام سے ہم آہنگ ہونے کی ہی صورت ہے۔
فطرت کے نظام سے جْڑ جانے سے دل کو سکون ضرور ہوتا ہے کہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کر رہا ہے وہی ہم بھی کر رہے ہیں تو پھر بے چینی کیسی؟ منفی قوتیں ختم ہو جاتی ہیں ، اور مثبت قوت ہمارے اندر جو حوصلہ پیدا کرتی ہے اس کے آگے کسی قسم کی چیز حائل نہیں ہو سکتی کیونکہ خالقِ کائنات کے نظام کی فراوانی اور تسلسل میں ہمیں وہ تمام اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جو خالق کے پاس ہیں۔
گویا زندگی کو پْرسکون بنانے کے لئے یہ پہلا مرحلہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فطرت کے نظام سے جوڑے رکھیں۔ ایک طریقہ سے دیکھا جائے تو انداز تو یہ بھی وہی ہے کہ ''جو تیری مرضی'' لیکن اس میں کوئی زور زبردستی اور مجبوری نہیں بلکہ ہم نے خوشی سے، اپنی رضامندی سے اپنے سکون کی خاطر یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ:
1۔ مجبوری میں ''جو تیری مرضی'' کہنے سے زندگی میں آسانیاں تو آ جائیں گی لیکن دلی سکون میسر نہ ہو پائے گا۔
2۔ خوشی سے ''جو تیری مرضی'' کہنے سے زندگی میں نہ صرف آسانیاں آ جائیں گی بلکہ ذہنی و دلی سکون حاصل ہوگا۔
3۔ انجانے میں ''جو تیری مرضی'' کہنے سے بے چینی کی کیفیت کا احساس ہی نہ ہوگا کیونکہ کبھی بے چینی کی کیفیت سے واسطہ ہی نہیں پڑتا۔
پھر کہنے میں اور کر کے دکھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اپنی زندگی کا رخ یہاں سے وہاں اور اس طرف سے اس طرف موڑ دو لیکن اس پہ عمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی انسان دوسرے نمبر کے اصول کو اپنا لے اور اس پر عمل کرتا رہے تو اس سے اچھی زندگی اور کس کی ہوگی؟ کیونکہ انجانے میں ''جو تیری مرضی'' پر چلنے والے کو تو کسی کیفیت کا احساس ہی نہیں۔ اگر کوئی انسان درد اور تکلیف کے وقت سے گزر رہا ہے تو اس پر گزرنے والی تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے۔ دوسرے صرف دلاسا دے سکتے ہیں، حالات کو سہنے کا کام ہم نے خود کرنا ہوتا ہے اور اپنی ذات کے ساتھ جنگ بھی خود کرنی ہوتی ہے۔ مجبوری میں ''جو تیری مرضی'' پر عمل کرنے والے کو ہر برے وقت سے دو چار ہونے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ مثبت و منفی قوت کے اثرات ہوتے کیسے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں یہ احساس ہوجائے کہ فطرت کے نظام کو قبول کر لینے کے بعد کس قدر آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کسی وقت بھی ہم خود کو اکیلا محسوس نہ کریں اور نہ ہی کبھی ڈپریشن یا مایوسی کی کیفیت طاری نہ ہو۔ بس اس بات پر ایمان رکھیں کہ جو بھی ہوا منظور خدا ہو گا اور اللہ کی رضا اور بہتری اس میں شامل ہو گی۔
اقصیٰ سجاد
شعبہ صحافت، پنجاب یونیورسٹی لاہور
٭ آپ نے دل کی بات کہنی ہو، پہلے ہی جملے کے لیے موزوں الفاظ کا چنائو کس قدر مشکل ہے۔ زبان سے نکلا ایک ایک حرف اپنے ساتھ اچھائی اور برائی دونوں لے کر پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک حرف چند لمحوں میں زندگی کے حالات و واقعات بدل ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لفظ قلم سے نکلتا ہے اور سوچ دل و دماغ سے، اور دل کا مکالمہ لفظ ہے، حرف ہے۔ قلم کے لکھنے کا انداز لفظ کی وقعت کو بڑھا دیتا ہے سو ہلکی سی غلطی محرم کو مجرم اور مجرم کو محرم بنا دیتی ہے۔ وقت یہ کہتا ہے کہ سچ لکھا جائے کیونکہ حالات بہت سنجیدہ ہیں اور معاملات ناقابل تحریر۔ہمارے پیارے ملک کو مالی، معاشی آزادی تو کبھی نہیں ملی لیکن اب معاشی غلامی کی جن رسیوں میں ہم بندھ چْکے ہیں اْس کا ذمہ دار کون ہے؟ سوال کڑوا ہے لیکن عوام کو سچائی اور حقائق سے آگاہ کرنا بھی تو ضروری ہے۔ سوویت یونین کیسے بکھرا اور افغانستان کی یہ صورت حال کیوں ہے۔ جبکہ دوسری طرف بنگلہ دیش نے کم عرصے میں ترقی کیسے حاصل کی اور انڈیا نے ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ کھربوں کے ذخائر کیسے بنائے، اس کے لیے نہ تو کسی تفتیش و تحقیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی مخصوص سوچ کی، سوائے اس کے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ریاستیں جمہوریت اور سیاسی استحکام سے معاشی استحکام اور جغرافیائی سلامتی کو یقینی بناتی ہیں۔
بے شمار قرضوں تلے دب کر نہ تو ہم معاشی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی بڑے دعوے کرنے والا ہمیں غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔ 'ہم کوئی غلام ہیں' کے نعرے نہ تو ہمیں اربوں ڈالرز کے قرضوں سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں بیٹھے بیٹھے اصل آزادی دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے معاشی خود کفالت کی ضرورت ہے جو دستیاب نہیں، اور جیب کا حال بھی ایسا کہ جو پیسے آئیں وہ بھی نکل جائیں۔
معیشت تو ویسے بھی کبھی اچھی نہ تھی مگر موجودہ صورتحال ایسی حیران کن ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں اور معمولی سی چیز بھی عوام کی پہنچ سے دور ہے۔ نہ کل دودھ اور شہد مہیا تھا، نہ ہی اب روٹی، کپڑا اور مکان عوام کی پہنچ میں ہیں مگر حالات اس حد تک برے ہوں جائیں گے یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ موجودہ حالات پر نظرثانی کرنے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ایک طرف سوویت یونین کی مثالیں دی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی جانب سے معاشی مطالبے پورے نہ ہونے کے صورت میں وفاق کو دبانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلہ پر ہر قسم کی تقسیم شدت اختیار کر رہی ہے تو دوسری جانب مغربی سرحد پر بے امنی وبال جان بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان ایک بار پھر سے سر گرم دکھائی دے رہی ہے اور اے این پی کے ایمل ولی خان کو دی جانے والی دھمکیاں اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جس کا فوری احساس ہونا ضروری ہے۔کمزور اور لاچار معیشت اور اندرونی بحران کسی بھی ملک کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اس سب کے درمیان نفسیاتی جنگ جس کا مقابلہ ریاست اور عوام دونوں کو مل کر کرنا ہے، لیکن سیاسی تفریق ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نہ تو ہم سوویت یونین ہیں اور نہ ہی ہماری پالیسیاں ترقی یافتہ ممالک جیسی ہیں جو ہم ان کا استعمال کر کے ملک کو ترقی کے دہانے پر لے جائیں۔ آمریتوں اور کنٹرولڈ جمہوریت کے دوران، ہم اب بھی عوامی سطح پر جمہوریت پسند ملک ہیں۔ کسی معاشی تنگی اور نقصان کے منتظر منافق اور موقع پرست یاد رکھیں کہ اْن کے سیاسی مفادات بھی اسی ملک کے عوام، ریاست کے ساتھ ہی جْڑے ہیں۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وطن عزیز کے عوام بدقسمت ہیں جو ملک کا اصل اثاثہ ہیں۔ یہ جمہوریت پسند عوام مشکلات کے باوجود محنت سے سماجی سطح پر ملک کا نظام چلا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حکمرانوں کو صرف اپنے مفادات اور اقتدار عزیز ہیں۔ یہ 'خوش قسمت' حکمران ملکی وسائل کا بے رحمی سے ضیاع کرتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کی رقم اپنے ذاتی عیش و آرام پر خرچ کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور عوامی مفاد کو دیکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جس سے آنے والے برسوں میں عوام کی مشکلات میں کمی ہو اور عوام خوشحال زندگی گزار سکیں۔ موجودہ معاشی بحران کی ذمہ داری کا جائزہ لینے کے لیے 'سچائی کمیشن' بھی تشکیل دیا جائے جو عوام کو آگاہ کرے کہ کن معاشی پالیسیوں اور کن شخصیات کے باعث آج مملکت اس جگہ اور مقام پر پہنچے ہیں کہ جہاں آگے کھائی اور پیچھے سمندر ہے۔