کوچۂ سخن اور ’’کوئے ملامت‘‘ دوسری اور آخری حصہ

شاعری اور طوائف کے تعلق سے دل چسپ واقعات 


فوٹو : فائل

مرزا غالب ؔجب چند دن کے لیے آگرہ تشریف لائے تو ان کی تقریب پذیرائی کے طور پر معروف شاعر متی انعام اللہ شاعر ؔنے ایک محفل سخن کا اہتمام کیا۔

تقریب میں مہاراجا بلون سنگھ راجا اسیرؔ ، خلیفہ گلزار علی شیونؔ، غلام قطب الدین خان باطنؔ کے علاوہ اپنے زمانے کی معروف مغنیہ اور شاعرہ درگا بائی صنم ؔنے بھی شرکت کی۔ بائی صنم ؔکچھ اس اندازِ دل ربائی اور طرح داری کے ساتھ محفل میں آئی کہ شرکائے محفل میں سے ہر ایک کی نگاہ کا مرکز بن گئی۔ ایسے میں مرزا غالب ؔنے ساتھ نشست پر موجود اپنے دوست مرزا حسام الدین بیگ کو مخاطب کر کے صنم ؔکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

؎سیاہ چوٹی، زرافشاں مانگ، سبز اس پر دوشالہ ہے

غضب ہے کہ پر ِطاؤس میں کالے کو پالا ہے!!!

ایک محفل میں میرعبدالحئی تاباںؔ اور میر محمد علی حشمتؔ اکھٹے ہوئے۔ میرحشمت ؔنے فرمائش کی عبدالحئیؔ کوئی لطیفہ سنائیے! تو میرعبدالحئی گلا کھنکارتے ہوئے گویا ہوئے،''دلی میں ایک صاحب جو کہ پہلے پھلوں کی آڑھت کرتے تھے ۔۔اپنے تعلقات کی بنا پر نئے نئے منصب دار تعینات ہوئے۔ ان صاحب نے سن رکھا تھا کہ عمدۃ الملک شہید امیر خان جب نور بائی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دونوں میں خوب چوٹیں چلتی تھیں۔

اب ان بے چارے میں نہ وہ سلیقہ، نہ وہ فقرہ سازی کا ڈھنگ، نہ وہ بذلہ سنجی۔ انھیں مگر شوق پیدا ہوا کہ نوربائی نہ سہی شمشاد بائی تو ہے اور عمدۃالملک امیر خان نہ سہی ہم تو ہیں۔ وہ خوش خیالیوں کا طومار باندھے تشریف لے گئے۔ شمشاد بائی نے ان کو عزت دیتے ہوئے اور بڑا خیال کرتے ہوئے ان کی تواضع نچلی منزل میں نہ کی بلکہ انہیں بالاخانے کی خاص با رہ دی میں لے گئیں۔

اب اس گاؤدی احمق زماں کو دیکھیے کہ وقت رخصت ذومعنی انداز میں گویا ہوا،''بائی صاحب! بالا خانہ تو اپنا آپ نے خوب دکھا یا۔۔۔لیکن وہ آپ کی نچلی منزل کیسی ہے؟ اور اس کا راستہ کہاں سے جاتا ہے؟؟'' شمشادبائی اس بدمذاقی پر ٹھٹکیں اور تنک کے ناک چڑھاتے ہوئے بولیں:''سرکار نے غور نہیں کیا!! سرکار اسی منزل سے تو ہو کر تو یہاں تک پہنچے ہیں۔''

کہتے ہیں کہ ایک روز نواب عمدۃالملک نے اپنی منظورِنظر شمشاد بائی سے خلوت میں ملاقات چاہی تو شمشاد بائی نے عرض کی ''حضور!! آپ انتظار کی زحمت گوارا کیجیے، کنیز آپ کے شایانِ شان آرام گاہ کا انتظام کرکے ابھی حاضر ہوئی۔''

اسی اثنائے انتظار میں نواب صاحب کی آنکھ لگ گئی۔ جب شمشاد بائی دوبارہ نواب صاحب کو آرام گا تشریف لانے کی اطلاع دینے آئی تو دیکھا کہ نواب صاحب خمارغنودگی سے نیم خوابی کے عالم میں ہیں تو وہ واپس پلٹنے لگی کہ ناگاہ پازیبوں کی چھنچھناہٹ سے نواب صاحب کی آنکھ کھل گئی، اس وقت بے ساختہ زبان سے یہ مصرعہ جاری ہوا:

؎آکر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے

وہیں شمشاد بائی نے جواب دیا:

؎خواب عدم سے فتنے کو بیدار کر چلے

معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ایک دن اپنے دوستوں شادؔ امرتسری اور اے حمید کے ساتھ صبح کے وقت بازار حسن جا پہنچے۔ بازار شیخوپوریاں کی شناسا طوائف نے بصد تزک و احتشام استقبال کیا۔ منٹو صاحب کے اعزاز میں خصوصی طور پر سازندوں کو طلب کیا گیا۔

سامان مے و نوش سے محفل کو آراستہ کیا گیا۔ پینے پلانے کا دور شروع ہوا اور منٹو صاحب مخمور ہونے لگے۔ طوائف نے لکھنوی انداز میں منٹو سے پوچھا،''منٹو صاحب! کیا پیش کروں؟''منٹو نے فرمائش کی،''غالب کی وہ غزل سناؤ جس کا مطلع ہے:

؎نکوہش ہے سزا فریادی ِبیداد ِدلبر کی

مبادا خندئہ ِدنداں نما ہو صبحِ محشر کی''

ایک لمحے کے لیے طوائف پر سکتہ طاری ہوگیا، مگر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے معصومیت سے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی،''منٹو صاحب ! کوئی غریبی دعوے کی آسان سی غزل بتائیں، یہ دو منزلہ غزل میرے بس کی بات نہیں۔''

نجو نامی ایک طوائف لاہور کی رہنے والی ایک دن حکیم فقیرؔ محمد چشتی کے پاس مطب میں بیٹھی تھی۔ عبدالمجید سالکؔ جو پہنچے تو حکیم صاحب نے ان سے کہا:''یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہے، آپ اس کوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سنا ہی ہوگا۔'' اس پر سالک بولے،''بھئی نجو کیا نام ہوا؟''چشتی صاحب نے جواب دیا:'' لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں، پورا نام تو' نجات المومینین' ہے۔''

کیٹی جان دلی کی ایک مشہور طوائف تھیں۔ رنگ کالا مگر نور کا گلا پایا تھا۔ شامتِ اعمال ایک دن سبز رنگ کی ساڑھی پہنے لال کنوئیں کے پاس سے گزریں تو ایک کرخندار نے آوازہ کسا،''ابے شالو! دیکھ ریا ہے لو لگی کیری کو!!'' یہ پھبتی ایسی جمی کہ بعد ازآں کیٹی جان کی ذات سے چپک کر رہ گئی۔

قمرجان مشتری اور اس کی چھوٹی بہن امراؤ جان زہرہ دو خوش گلو طوائفیں لکھنؤ میں رہتی تھیں۔ ایک روز مشہور شاعر نیاز احمد محزوں ؔ ان کے مکان پر گئے۔ شعر و شاعری کا ذکر چھڑ گیا۔ دونوں بہنوں نے محزوں کو یہ مصرع دے کر تضمین کے لیے اصرار کیا:

؎سیرِفلک کو ہم کبھی تنہا نہ جائیں گے

محزوں ؔنے برجستہ مصرع ثانی لگا کے دونوں کو ایسا مسرور کیا کہ اچھل پڑیں:

؎زُہرہ کے ساتھ جائیں گے یا مشتری کے ساتھ

وحیدؔ الہ آبادی ایک عاشق مزاج اور حسن پرست شاعر تھے۔ ایک بار لکھنؤ تشریف لائے، شام کو چوک میں ٹہلنے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ ایک پری چہرہ طوائف کھڑکی میں بیٹھی چاقو سے خربوزے کی قاشیں تراش رہی ہے۔ آپ بے تکلف وہیں رک گئے۔ جب اس مہ جبین نے ان کے طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آپ نے یہ شعر موزوں کر کے با آواز ِ بلند پڑھا:۔

؎مصروف ہیں جو آپ بنانے میں قاش کے

رکھ لیجیے گا دل بھی ہمارا تراش کے

وہ سن کر پھڑک اٹھی اور آدمی بھیج کے بلوایا اور بڑی تعظیم وتکریم سے پیش آئی۔

ہندوستان کے شہر سہارن پور میں ''عیدن'' نامی طوائف معروف تھی۔ انتہائی باذوق، سخن فہم اور سلیقہ شعار۔ شہر کے اکثر ذی علم حضرات کی اس کے ہاں آمدورفت رہتی تھی۔ ایک دن مولوی فیض سہارن پوری بھی وہاں جاپہنچے۔

عیدن ٹھہری پرانے زمانے کی عورت، جدید تہذیب سے نا آشنا۔ بے جا عشوہ وغمزہ اور نازوادا کے ہنر سے بے خبر، بیٹھی نہایت سادگی سے چرخہ کات رہی تھی۔ علامہ کی نظر جو اس پر پڑی تو اسے دیکھتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے۔ جب عیدن کو خبر ہوئی تو آواز دی،''حضرت تشریف لائیے!! واپس کیوں چل دیے؟؟'' مولوی صاحب نے رکے بغیر اور پلٹے بنا باآواز بلند کہا،''ارے ! رہنے دیجیے۔ ایسی تو ہم اپنے گھر بھی چھوڑ آئے ہیں۔''

دلی کی معروف طوائف شیریں بائی کے گھر محفل مشاعرہ منعقد تھی۔ دلی کے تمام نامی گرامی شعراء موجود تھے۔ معروف شاعر ولایت حسین معروفؔ اپنی باری آنے پر غزل سرا ہوئے اور آخر میں بانی مشاعرہ شیریں بائی کے نام کی رعایت سے ان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں مقطع پڑھا:

؎فرہاد اپنے وقت کا ہوں میں بھی اے سرورؔ

''شیریں'' کو دیکھتا ہوں محبت کی آنکھ سے

ادیب و شاعر چراغ حسن حسرت، مختلف معروف شخصیات کے خاکوں پر مشتمل اپنی کتاب ''مردم دیدہ'' میں شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی کا خاکہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''ان کے ہاں ہر قسم کے لوگ علاج کی غرض سے حاضر ہوتے جن میں بعض نامی طوائفیں بھی تھیں۔ ایک دفعہ ایک سیاہ فام طوائف علاج کرانے آئی۔

حکیم صاحب کی حاضرجوابی اور بذلہ سنجی کی شہرت اس نے سن رکھی تھی۔ اس لیے آتے ہی ان پر ایک دو پھبتیاں کس دیں۔ گرمی کے د ن تھے اور وہ سفید جالی کا کرتا پہنے ہوئے تھی، جس سے اس کا سیاہ فام جسم جھلک رہا تھا۔ حکیم صاحب اس کی باتیں سن کر بولے،''آپ اپنی کہیے! یہ باورچی خانے میں سفیدی کیسی کرا رکھی ہے؟''

تصحیح
سنڈے میگزین کی گذشتہ اشاعت میں شہزاد نیاز ایڈووکیٹ کا مضمون بہ عنوان ''مجروح سلطان پوری۔۔۔فن وشخصیت کا سرسری جائزہ'' شایع کیا گیا تھا۔ مضمون نگار نے اس تحریر میں سہواً دیگر شعراء کے فلمی گیتوں کو مجروح سلطان پوری سے منسوب کردیا۔ یہاں ان گیتوں کے اصل تخلیق کاروں کے نام دیے جارہے ہیں۔ مضمون نگار اور ادارہ اس سہو پر باذوق قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔
٭ تیرے بنا زندگی سے............گلزار
٭ کبھی کبھی میرے دل میں.........ساحر لدھیانوی
٭ تم جو مل گئے ہو...............کیفی اعظمی
٭ یہ دنیا یہ محفل..................کیفی اعظمی
٭ چودھویں کا چاند ہو...............شکیل بدایُونی
٭ چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا.........کیفی اعظمی
٭ آج پھر جینے کی تمنا ہے............شیلندرا
٭ اے میری زہرہ جبیں............ساحر لدھیانوی
٭ دل اپنا اور پریت پرائی............شیلندرا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں