غیروں کی اندھی تقلید

قرآن و سیرت محمدیؐ کا کلمہ پڑھنے والوں نے اس دنیا میں جب تک عمل کیا وہ کامیابی و کامرانی کو اپنے دامن میں سمیٹتے گئے


[email protected]

اللہ رب العزت نے زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر تخلیق فرمایا اور ہر عہد میں اپنے بندوں کی اصلاح اور ان کی نجات کے لیے پیغمبروں کو پیدا فرمایا۔ انبیائے کرام کی آمد کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا جنہوں نے دنیا سے تاریکی اور جہالت کو نہ صرف ختم کیا بلکہ انسان کو کامیاب و کامران زندگی بسر کرنے کا نسخہ عظیم عطا کیا۔ اسلام کی تعلیمات اور مساوات و محبت اخوت و بھائی چارے کی وہ عظیم الشان یادیں چھوڑیں جن پر آج بھی دنیا حیران ہے۔

قرآن و سیرت محمدیؐ کا کلمہ پڑھنے والوں نے اس دنیا میں جب تک عمل کیا وہ کامیابی و کامرانی کو اپنے دامن میں سمیٹتے گئے لیکن جب حالات، وقت اور مال و دولت کی حرص و ہوس میں یہ قوم ڈوب گئی تو پھر دنیا نے دیکھا کہ جس قوم کے پاس قرآن جیسا صحیفہ حیات موجود ہے اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ نبی کریمؐ جیسی ہستی و پیغمبر کی تعلیمات و سیرت کے ہونے کے باوجود آج دنیا بھر میں ظلم و سفاکیت اور مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ غیروں کی غلامی نے مسلمانوں کے دلوں اور ان کی روح کو ختم کر دیا ہے۔ دور حاضر کا مسلمان اور اسلام کے کلمہ گو مسلمانوں کا معاشرہ جس تیزی سے اپنی موت آپ مر گیا ہے یا مر رہا ہے یہ ہم سب بخوبی اور آسانی سے دیکھ رہے ہیں، ایسے میں ہمارا ذہن کام نہیں کر رہا اور عقل پر تالے پڑ چکے ہیں۔

جسم بے جان ساکت کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ زمانے اور قوم کی تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جو قومیں وقت اور حالات کے تناظر میں اپنا محاسبہ نہیں کرتیں وہ قومیں اللہ رب العزت کے عذاب کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ مغرب کی ترقی اور اس کی کامیابی نے مشرق کے اطوار زندگی کو دور حاضر میں مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے خاص طور پر اگر ہم اپنے وطن عزیز میں دور حاضر کے حالات کو مدنظر رکھیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہو گا کہ ہمارے چاروں طرف دشمن نے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی سلامتی و استحکام کو اس وقت شدید خطرات کا سامنا ہے اور آج کہیں زیادہ ہوش مندی سے کام لینے کی ضرورت ہے، اس نازک موقعے پر ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کو اور خطرات میں گھری ہوئی پاکستانی عوام اور اس کی سرحدوں کو بچانے کی جستجو عقل و ہوش، تحمل و بردباری و صبر و استقامت سے کرنا چاہیے۔

مغرب کے پھیلائے ہوئے جال سے اس کی تہذیب و تمدن سے اس کی ثقافت و تعلیمات سے مسلمانوں کو آزاد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلمان مغرب کی طوفانی لہروں میں خود کو بہا کر آج اس مقام پر لے گئے ہیں کہ وطن عزیز کے اندر اور باہر دشمن موقعے کی تلاش میں ہے کہ کب پاکستان اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے۔ اگر ہم نے اپنے موجودہ حال پر غور نہیں کیا اور خود کو مغرب کے جال سے نہیں نکالا تو اس کا انجام آج سے زیادہ بھیانک صورت میں آئے گا۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور جو قومیں اپنی آزادی کی اور وطن کی قدر و محبت نہیں کرتے اللہ رب العزت بھی ان کی مدد اور قدر نہیں کیا کرتا۔

غفلت میں ڈوبے پاکستانی مسلمانوں کو اب اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی اگر انھوں نے اپنی زندگی کا محاسبہ نہ کیا، اپنے رب کی تعلیمات و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے خود کو ہم آہنگ نہ کیا تو زمانے کا سیلاب ان کو بہا کر لے جائے گا۔ جس طرح طوفان نوح نے سب کچھ بہا کر تباہ و برباد کر دیا تھا۔ اللہ رب العزت اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم خود اپنے حالات بدلنے پر کمر بستہ نہ ہو۔ وقت اور حالات اور بڑھتے ہوئے انسانی زندگی کے مسائل کا فوری اور قابل قبول حل یہ ہے کہ تمام امت محمدیہ ایک مرکز پر جمع ہوں اور سچے دل سے اللہ رب العزت سے توبہ و استغفار کریں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔

دور حاضر کا معاشرہ خاندان اور گھر جس تیزی سے تباہی و بربادی کا شکار ہو چکا ہے اس پر اظہار تحریر انتہائی محال ہے۔ غیروں کے رسوم و رواج نے، غیروں کی اندھی تقلید نے، غیروں کی بنائی ہوئی نمود و نمائش کی اشیا نے اور غیروں کے بچھائے ہوئے جال نے مسلم امہ اور مسلمانوں کو بری طرح سے جکڑ لیا ہے۔ نہ ہی مسلم حکمرانوں میں سوچ و فکر اور عقل و دانش کا مادہ رہا اور نہ ہی عوام اپنی ایمانی طاقت و روح کا مظاہرہ کر پا رہی ہے۔ آج ہماری صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی بے دین لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔

تعلیم، تمدن، معیشت اور سیاست، مذہب ہر معاملے میں مسلمانوں کو راستہ دکھانا اور اپنے پیچھے لے کر چلنا ان لوگوں کا کام ہو گیا ہے جو نہ دین کو جانتے ہیں اور نہ ہی دین سے محبت رکھتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے سیاست کی کاغذی سند مغرب سے حاصل کی۔ مغرب کی طرز حکومت کے اصول و ضوابط کا مطالعہ کیا ہے۔ لہٰذا وہ ان ہی کے اصول و ضوابط کے مطابق عمل کرتے ہیں ان ہی اصول و ضوابط کے مطابق طرز حکمرانی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

دور حاضر میں خرابی کا اثر تمام شعبہ حیات میں ہم بہ چشم خود دیکھ سکتے ہیں کہ خرابی اور برائی نے کس قدر معاشرے اور انسانی حیات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہمارے سیاستدان و حکمرانوں نے اس ملک کو جس راستے پر ڈالا تھا، اس کا نتیجہ 67 سال کے عرصے میں ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ ان حکمرانوں کی سوچ، غور و فکر اور اقدامات یہ تھے کہ اہل وطن کو مادہ پرستانہ سوچ و خیالات کے دریا میں غرق کردیا جائے لہٰذا آج ہم اپنی آنکھوں سے ان تمام مناظر کو دیکھ رہے ہیں جس نے مادہ پرستانہ ہوس کو اختیار کر لیا ہے۔ ہر فرد مادیت اور مال و دولت کے گرداب کا شکار ہو چکا ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں اور مغربی طرز زندگی کے تہذیب و تمدن نے بری طرح سے انسانیت کو اپنا شکار بنایا ہے۔

آج ہم اپنی تباہی و بربادی پر جس قدر افسردہ اور نوحہ خواں ہوں کم ہے کیونکہ اگر حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا جائے اور اپنے گناہوں پر سچے دل سے نادم و پشیماں ہو کر اللہ رب العزت کے حضور معافی طلب کی جائے تو وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے، توبہ کو قبول کرتا ہے۔ انسان ایک بھٹکا ہوا راہی ہے وہ اپنی منزل اور اپنے راستے سے بھٹک چکا ہے۔ آج اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت اور گمراہی میں ڈوبی ہوئی قوم کو تاریکی سے نکالا جائے۔

آج کا دور مسلم امہ اور پاکستانی مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ موجودہ صورتحال اور مصیبت و پریشانی کا یہ وقت خاموشی سے گزار دینے کا ہرگز نہیں ہے بلکہ دور حاضر کے حالات اور خطرات کا گہری سوچ، عقل و فہم اور ادراک کے ساتھ غور و فکر کا ہے، باہمی اتحاد و اتفاق کے مظاہرے کا ہے، قومی یک جہتی اور حب الوطنی کا ہے۔ اگر آج مسلمانان پاکستان نے اس نازک اور خطرناک وقت میں غفلت اور بے پرواہی سے کام لیا۔ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے اور ''ہنوز دلی دور است'' جیسا نعرہ لگاتے رہے تو ایک جرم عظیم ہو گا جس کے نقصان اور ازالے کی گنجائش نہ ہو گی اور اس جرم عظیم کا ہمیں حساب دینا ہو گا۔

ہماری زندگی غیروں کی غلامی میں بدل جائے گی۔ چہرے ہمارے ہوں گے فیصلے پرائے کریں گے، ملک ہمارا ہو گا راج غیروں کا ہو گا۔ زمانے کا بے درد ہاتھ ان کی آنکھوں کے سامنے اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک ایک نشان کو مٹاتا چلا جائے گا اور پھر وہ بے حسرت و یاس سے اپنی تباہی و بربادی کو دیکھا کریں گے اور آج ہم سب اس حقیقت کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو موجودہ لہر قومی وجود اور وحدت کو ملیا میٹ کر دے گی اور ہم سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہ کر سکیں گے، آج یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں