قائد اعظم ایک اصول پسند رہنما
قیام پاکستان کی ابتداء میں ہی قائداعظم نے خبردار کردیا تھا کہ پاکستان ایک تھیو کریٹک یعنی مذہبی ریاست نہیں ہوگا
www.facebook.com/shah Naqvi
قائداعظم کو ہم سے بچھڑے ہوئے 75برس ہو گئے ہیں ہر سال ان کا یوم وفات منایا جاتا ہے ۔ چاہے چودہ اگست ہو یا ان کا یوم وفات اب تو سب کچھ رسمی ہو کر رہ گیا ہے ۔ کانفرنسز ہوتی ہیں ۔ تقاریر ہوتی ہیں اور بس ۔اُن کے افکار ان کی تعلیمات سب کچھ ہم بھول چکے ہیں ۔
اُن جیسا لیڈر پاکستان کو پھر نصیب نہیں ہوا۔ دیانتداری ، امانتداری ، راست گوئی اور اصول پسندی پر ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکے ۔
ان کی وفات پر سب نے دل کھول کر ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ان کے باکردار ساتھیوں کو بھی ایک منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت ایک ایک کرکے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان پر امریکی سامراجی قبضہ مکمل ہو گیا۔
قائداعظم نے 72سال کی عمر پائی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ایک سال چند ماہ حیات رہے۔ قائد اعظم کی علالت 58 سال کی عمر میں شروع ہوئی ۔ یہاں تک کہ 14سال کی اس طویل بیماری نے آخر کار ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔ لیکن انھوں نے مسلمان قوم کے مفاد میں اپنی علالت کو ہمیشہ خفیہ رکھا۔
محمد علی جناح کی ابتدائی سیاسی زندگی کی تشکیل پر اُس وقت کے لبرل سیاسی مدبرین دادا بھائی نوروجی ، فیروز شاہ مہتہ اور جی کے گھوکھلے کے اثرات رہے جب کہ وہ برطانیہ کے گلیڈ اسٹون اور جان مارلے سے بھی متاثر رہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی تعلیمات پر بھی گہری نظر رہی۔ عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف ان کی ہمیشہ ترجیح رہی ۔ تحریک پاکستان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ داروں اور مسلم بورژوا طبقے کے مفادات کار فرما تھے۔
ایک مغربی دانشور نے اپنے تحقیقی مقالے میں ممبئی ، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورژوا طبقے کے حقیقی عزائم سے پردہ اٹھایا ہے ۔
جس کا خیال تھا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی وصنعتی مراکزبدستور قائم رکھے گا جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرش راہ ہو گا۔ یعنی سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوس زر جو قائداعظم سے پوشیدہ نہیں تھی کے پیش نظر 1943میں ہی انڈیا آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے اس مفاد پرست طبقے کو وارننگ دے دی تھی یہ کہہ کر کہ "پاکستان میں عوامی حکومت ہو گی اور میں یہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہو گیا ہے عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہو گئی ہے۔
انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں ۔ حرص اور خود غرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں ۔ میں گاؤں میں گیا ہوں وہاں لاکھوں ، کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ۔
کیا یہی تہذیب ہے ؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں" خوش قسمت ہیں وہ قومیں جنھیں ایسے عوام دوست حکمران میسر آجائیں اور جو عوام کی محبت میں سرشار ہوں ۔قائداعظم کی تقریر قیام پاکستان سے چار برس پہلے کی ہے ہمیں اس تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی کروڑوں افراد کو دن میں ایک وقت کی بھی روٹی میسر نہیں تھی اور آج بھی یہی صورتحال پاکستان میں پائی جاتی ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کے کم از کم 40فیصد حصے کو ایک وقت کی بھی روٹی میسر نہیں ۔
قیام پاکستان کی ابتداء میں ہی قائداعظم نے خبردار کردیا تھا کہ پاکستان ایک تھیو کریٹک یعنی مذہبی ریاست نہیں ہوگا ۔ اس کا ثبوت ان کی 11اگست 1947کی وہ تقریر ہے جس میں انھوں نے کہا "آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جائیں ۔ اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں آپ کا کسی مذہب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہوکاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے" لیکن اس تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی ۔
اب بھی صورت حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیشتر زبانوں میں قائداعظم کے خطابات ناپید ہیں ۔ ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظر عام پر آسکے جن کا منظر پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔ قائداعظم کی زندگی کے وہ روشن پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے ، بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا ۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم کی تقریر کو سنسر کرنے اور ان کی تعلیمات کو چھپانے کی کوشش کیوں کی گئی ۔
افسرشاہی کو یہ ہمت اور جرات کیسے ہوئی کہ وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایسا سلوک کرے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت بھی افسرشاہی ہو یا فوج ملکہ برطانیہ کے ماتحت تھی ۔ آج بھی افسرشاہی امریکا ، برطانیہ کی غلام ہے۔
اب تو اس غلامی میں پاکستان کے سرمایہ دار ، جاگیردار ، قبائلی سردار بیشتر سیاستدان مذہبی طاقتیں سب شامل ہو گئی ہیں ۔
یہاں تک کہ اس نیک کام میں میڈیا کا بیشتر حصہ بھی پیچھے نہ رہا۔ پاکستان کو مذہبی جنونیت کی راہ پر ڈالنا سوویت یونین کے خلاف امریکا کی ضرورت تھی ۔ پاکستان کی پوری تاریخ اس کا ثبوت ہے لیکن یہاں ہر وہ کام کیا گیا جس سے امریکی سامراج کو تو فائدہ لیکن پاکستان اور پاکستانی عوام تباہ وبرباد ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم اشرافیہ کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے ۔