بلوچستان گیارہ مئی سے گیارہ مئی تک

من پسند افراد کو نوازنے کا لامتناہی سلسلہ۔ بے مقصد کانفرنسوں کے نام پہ لاکھوں روپے محض ایک، ایک فرد کے اکاؤنٹ ۔۔۔


عابد میر May 14, 2014
[email protected]

تو بلوچستان میں ایک اور گیارہ مئی آ گیا۔ وہ گیارہ مئی جسے پاکستان سمیت بلوچستان میں بھی ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ووٹ کے ذریعے اقتدار کی منتقلی ہوئی۔ اور پہلی بار ایوانِ اقتدار میں آنے والوں کی اکثریت غیر سرداروں کی تھی۔ اور پہلی بار اقتدار غیر سردار کے سر پہ آ بیٹھا۔ اور پھر یوں ہوا کہ احساسِ تفاخر کی جگہ، احساسِ ندامت نے لے لی۔ آج جب اس حکومت کو ایک برس پورا ہوا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے ہم اس حکومت کی پہلی سالگرہ کی بجائے، سیاسی کارکنوں کے خوابوں کی پہلی برسی منا رہے ہوں۔

بلوچستان کے کونے کونے سے ہر روز آنے والی خبریں ہماری شرمساری میں اضافہ کیے دیتی ہیں۔ کوئی روز ایسا نہیں کہ حسرتوں کے محل زمیں بوس نہ ہوتے ہوں۔ جس سے متعلق اپنے فیضؔ صاحب نے کہا تھا، 'چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے، نظر جھکا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے!'سو ہم محض کچھ اعداد و شمار کی بات کرتے ہیں جو بلوچستان میں گیارہ مئی سے گیارہ مئی تک کی تبدیلی کا اشاریہ ہیں۔بلوچستان کی موجودہ حکومت کا حقیقی 'مینڈیٹ' بلوچستان میں ایک عرصے سے جاری بد امنی پہ قابو پانا، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور لاپتہ افراد کا معاملہ حل کرنا تھا۔

حکومت نے آتے ہی خود بھی یہی راگ الاپنا شروع کیا۔ شروع کے کئی ماہ اس دُھائی میں گزار دیے کہ انھیں مکمل اختیارات حاصل نہیں۔ اور پھر مکمل 'بااختیاری' کے دعوے کے ساتھ یہ خبر بھی ہر فورم پہ سنانا شروع کی کہ ان کے آنے سے بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کم ہو کر، نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ کچھ لاپتہ افراد بازیاب بھی کروائے گئے ہیں۔ بدامنی کے واقعات میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ لیکن المیہ یہ رہا کہ جس دن اخبارات میں حکومت کا ایسا کوئی دعویٰ شایع ہوتا، اسی روز کہیں نہ کہیں کسی بم دھماکے کی، کسی لاش کی برآمدگی کی، کسی سیاسی کارکن کے لاپتہ ہونے کی خبر بھی شایع ہو جاتی۔

ایسی ہی خبروں کا 'کچا چٹھا' ایک خبر رساں ادارے نے حکومت کی پہلی 'برسی' کے موقعے پر شایع کیا ہے۔لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئر مین نصر اللہ بلوچ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گیارہ مئی 2013ء سے 11مئی 2014ء تک تین سو پینسٹھ دنوں میں373 افراد ماورائے آئین و قانون گرفتار و لاپتہ کیے جا چکے ہیں جب کہ اس دوران 255 سے زائد گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جہاں تک لاپتہ افراد کی بازیابی کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کے حکم پر، ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ کیے جانے والے کا ہو بگٹی کی ڈیرہ سال بعد بازیابی ممکن ہو سکی۔

اس کے علاوہ کوئی شخص بازیاب نہیں ہوا۔ اور ہوا ہے تو حکومت اسے سامنے لائے۔ اس دوران ملنے والی 255 لاشوں میں سے 130 کی شناخت ہوئی ہے۔ رواں سال جنوری میں خضدار کے علاقے توتک سے ملنے والی لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی جو ایک سو سے زائد ہیں۔ گو کہ اجتماعی قبر کی دریافت اور ملنے والی لاشوں سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل تشکیل دیا گیا لیکن اس کا اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ خضدار کے علاقے توتک میں مزید اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا اور علاقے کے مقامی افراد نے بتایا ہے کہ انھوں نے وہاں سے ملنے والی مزید نو لاشیں دیکھی ہیں جنھیں میڈیا پر نہیں لایا گیا اور باقی قبروں کو بلڈوز کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ وہ تعداد ہے، جس سے متعلق تمام کوائف مذکورہ تنظیم کے پاس موجود ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل ہی نہیں، جن کے کوائف دستیاب نہیں۔امن و امان کا یہ عالم ہے کہ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا کہ کہیں بم دھماکے کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ آپریشن بند کروانے کے دعوے تو قلات کے گرد و نواح میں گزشتہ ماہ اور حالیہ دنوں دنوں میں پنجگور اور تربت میں ہونے والی کارروائیوں نے ہوا میں تحلیل کر دیے۔ یہ اعزاز بھی اس 'پڑھی لکھی متوسط طبقے' کی حکومت کو جائے گا کہ بلوچستان میں پہلی بار کتابوں کی دکانوں پہ، لائبریریوں پہ، کالج کے ہاسٹل میں، تعلیمی اداروں میں چھاپے پڑے۔ بعض تعلیمی اداروں کو بند کروا دیا گیا۔ بعض 'ناپسندیدہ' کتابوں پہ پابندی عاید کر دی گئی۔ ایک طرف کرپشن کے خاتمے کے واشگاف اعلانات، دوسری طرف بعض 'طاقت ور' وزرا کی بے لگام کرپشن کے سامنے کوئی بند باندھنے کی ہمت نہیں۔

من پسند افراد کو نوازنے کا لامتناہی سلسلہ۔ بے مقصد کانفرنسوں کے نام پہ لاکھوں روپے محض ایک، ایک فرد کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کی خبریں... نہ کوئی حساب، نہ کتاب۔ ایک طرف کتاب دوستی کے دعوے، دوسری طرف کتابوں کی دکانوں پہ چھاپے، کتابوں پہ پابندیاں۔ محض ان ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت کے لیے 'صوابدیدی' فنڈز کے دروازے کھولے گئے ہیں جو حکمرانوں کے در پہ آ کے گڑگڑائیں، دُھائی دیں، ان کی عظمت کے ترانے گائیں، ان کی شان میں قصیدے پڑھیں۔ مخالفیں سے نمٹنے کا ایسا انتظام کہ حکمرانوں کی ناپسندیدہ بلوچ طلبہ تنظیم کے جنرل سیکریٹری کو گزشتہ برس چودہ اگست کے روز وزیر اعلیٰ کے حلقہ انتخاب، تربت میں ایک ساتھی سمیت قتل کر دیا گیا۔ چھ ماہ بعد، ابھی حال ہی میں اسی تنظیم کے چیئرمین کو وردی پوش دن دہاڑے اٹھا کے لے گئے۔

کوئی مدعی، نہ منصف۔ تنظیم کے کارکن بیس دنوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا کے بیٹھے ہیں۔ ایک کارکن چیئرمین کی بازیابی تک، تادم مرگ بھوک ہڑتال پہ ہے، پر مجال ہے جو یہاں کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ وزیراعلیٰ جب بیرونِ ملک دوروں سے فارغ ہوں، تو شاید اس پہ بھی غور فرما لیں۔سہولیات کا یہ عالم ہے کہ باقی بلوچستان تو چھوڑیے، بیس لاکھ نفوس پر مشتمل دارالحکومت کوئٹہ شہر مہینے میں پندرہ دن پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رہتا ہے۔

ابھی رواں ماہ واسا ملازمین کی جانب سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتال کے باعث مسلسل ایک ہفتہ کوئٹہ کے کسی گھر میں پانی نہیں تھا، ٹینکر مافیا کی اجارہ داری رہی۔ حکومت اور اپوزیشن ایوان میں بیٹھی منرل واٹر سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ چار کھمبے گرنے سے کوئٹہ شہر دس دنوں تک دن میں بارہ گھنٹے بجلی سے محروم رہتا ہے، کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ بلوچستان میں چونکہ اپوزیشن کی کوئی روایت ہی نہیں رہی اس لیے اس پہ تو کوئی بات ہی نہیں ہو سکتی۔ یہاں کی اپوزیشن چند ٹھیکوں، ٹینڈر، نوکریوں اور مراعات کی مار ہے۔ اور بلوچستان میں الحمداللہ شروع سے 'مل بانٹ' کر کھانے کی مستحکم روایت رہی ہے۔

جون قریب ہے، اس لیے شہر بھر کی سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ ٹھیکوں اور ٹینڈر کا موسم عروج پہ ہے۔ تو یوں بلوچستان میں جمہوریت کے ثمرات جاری ہیں۔ انھیں بہرحال جاری رہنا چاہیے۔ کہ حقیقی جمہوریت تک جانے کا راستہ اسی 'دلدل' سے ہو کر گزرتا ہے۔ رہے عوام، تو جو عوام بنا پانی اور بجلی کے محض جلنے، کڑھنے پہ قناعت کر لیتے ہوں، انھیں اس فانی دنیا سے کیا لینا۔ ان کے لیے دوسرے جہان میں نعمتیں وافر ہوں گی... جمہوریت چلتی رہے، ہماری زندگیوں میں گیارہ مئی کی بہاریں کھلتی رہیں۔ دنیا فانی ہے، ہر خوشی آنی جانی ہے...رہے نام اللہ کا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔