نواز شریف کی واپسی

نواز شریف آرہے ہیں اور میں عمار مسعود کو یاد کر رہا ہوں

farooq.adilbhuta@gmail.com

نواز شریف آرہے ہیں اور میں عمار مسعود کو یاد کر رہا ہوں۔ میاں محمد نواز شریف وطن واپسی کے بعد جیل جائیں یا 2018 کے برعکس کھلی فضا میں جمہور کو صدا دیں، دونوں صورتوں میں یہ ملک اور اس کی سیاست ایک نئی کروٹ لے گی۔ پاکستان کی سیاست کو کیا کروٹ لینی ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ حقیقت بعض لوگوں کے اندیشوں اور بعض کی توقعات کے بالکل برعکس ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ اس کی کچھ واضح اور کچھ دھندلی تصویریں مجھے عمار مسعود کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

رہ گئی بات یہ کہ عمار کون ہیں تو اس سوال کا جواب آسان ہے۔ عمار ایک اینکر ہیں، کالم نگار ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے شخص کے فرزند ہیں جو ہمارے دلوں میں بستا ہے یعنی حضرت انور مسعود۔ انور مسعود صاحب کا تذکرہ یوں سرسری انداز میں یا ان کے بیٹے کے تعلق سے کرنا سوئے ادب ہے، اس لیے واپس عمار کی طرف چلتے ہیں۔

عمار کا اور میرا آنکھ مچولی کا رشتہ ہے۔ میں انھیں دائیں جانب سے پکڑنے کی کوشش کروں تو وہ بائیں جانب نکل جاتے ہیں اور بائیں جانب سے چھاپہ ماروں تو وہ ادھر سے بھی کنی کاٹ جاتے ہیں۔

اسی سبب سے مجھے کبھی کبھی شک ہوتا تھا کہ انھیں میری تحریر اور تحریر شناسی پر زیادہ اعتبار نہیں لیکن بھلا ہو ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا۔ انھوں نے مصر کا سفر نامہ کچھ ایسی چابک دستی سے لکھا۔ یوں پاکستان اور مصر کے تعلقات کے سارے نشیب و فراز اس خوبی سے بیان ہو گئے کہ طبیعت اش اش کر اٹھی۔ عمار کی نگاہ سے میرا یہ تبصرہ گزرا تو انھوں نے سوچا کہ کبھی کبھی کھوٹے سکے بھی کام آ جاتے ہیں یوں انھوں نے مجھے اپنے کالموں کے مجموعے ' نواز شریف کی سیاست: پاناما کے بعد' کے مطالعے کے قابل سمجھ لیا۔ اب مجھے یہ اندازہ تو نہیں ہے کہ ان کے ذہن میں یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ نہیں کہ کبھی نہ کبھی میں اس پر لکھ بھی سکتا ہوں۔

خیر، مجھے یہ فکر بھی نہیں ہے کہ عمار کے ذہن میں کیا ہے۔ مجھے تو یہ بتانا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کی خبر پر مجھے اس کتاب کی یاد کیوں آئی اور اس کتاب میں کیا ہے جو اہل وطن کے علم میں بھی آنا چاہیے۔

صحافت بلکہ خاص طور پر اخبار کے بارے میں عمومی طور لوگوں کی رائے کچھ اچھی نہیں۔ وہ جیسے کہا جاتا کہ آج مرے کل دوسرا دن۔ اسی طرح شام کے ہوتے ہوتے اخبار بھی اپنی قدر کھو بیٹھتا ہے۔

یہ جو پرانے زمانوں میں مہینے کے آخر میں ہمارے گھروں سے سیروں ردی نکلا کرتی تھی، اس کا سبب بھی یہی رہا ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا اخبار کل کی تاریخ ہوتا ہے۔


اسی سبب سے مؤرخ اسے سینت سینت کر رکھتا ہے اور اپنی آنکھیں پھوڑ کر اس کی ایک ایک سطر پڑھتا ہے اور ہمارے آج کے دکھوں کی تشخیص تہہ خانوں میں رکھے اور مٹی میں اٹے اخبار کے صفحات کے مطالعے سے کرتا ہے۔ یہ ایک عمومی اصول ہے لیکن اگست 2014 سے شروع ہونے والے زمانے پر تو اس اصول کا اطلاق خاص طور پر ہوتا ہے۔

اصول تو یہی ہے کہ صحافت غیر جانب دار ہوتی ہے اور سیاست صاف شفاف، عوام کی امنگوں کے عین مطابق لیکن 2014 سے شروع ہونے والے زمانے میں گنگا کو الٹا بہنا تھا اور وہ اگلے چار برس تک اس شان کے ساتھ بہتی رہی کہ تاریخ میں ایسی کیا مثال ملے گی۔ یوں اس عہد میں قومی تاریخ میں جو جو ان ہونیاں ہوئیں، ان کا کھوج لگانے کے لیے جب مؤرخ اخبارات کا مطالعہ کرے گا تو یقین جانئے کہ اس کی آنکھوں اور کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا۔

خیر، اس عہد میں ہماری صحافت کا یہ ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس عہد میں بہت کچھ ایسا بھی تھا جس کا بوجھ اس کے لیے اٹھانا ممکن بھی نہیں تھا۔ ہمارا بھائی عمار بھی ان لوگوں میں سے ایک ہے جس کی تحریریں اور کالم بھائی وجاہت مسعود کی ' ہم سب' پر اس اضافے کے ساتھ جگہ پاتے تھے کہ یہ ان کالموں میں سے ایک ہے، اخبار جس کا بوجھ نہیں اٹھا سکا۔

سچ تو یہ ہے کہ جب اس عہد کی صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس کی پہچان یہی بوجھ نہ اٹھا پانے والا جملہ بنے گا۔ اس زمانے میں اپنے دوستوں کو جب میں نے یوں دباؤ اور سختیوں کا شکار دیکھا تو مجھے ان پر رشک آیا اور میں نے سوچا کہ کچھ کالم مجھے بھی اس طرح کے لکھنے چاہئیں تاکہ اس عہد کے مجاہدین صحافت میں میرا نام بھی رجسٹر ہو جائے لیکن پھر تحریک خلافت تا تحریک پاکستان تک کے زمانے کے ایک بزرگ صحافی نصراللہ خان عزیز کا قول یاد آ گیا۔

فرمایا کرتے تھے کہ وہ صحافی ہی نہیں جو اپنے لکھے پر پکڑا جائے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی مشکل اور بھاری بات سو طریقوں سے لکھی جاسکتی ہے۔

اس لیے درست بات سپرد قلم کرنے پر آزمائش سے دوچار ہو جانے سے بہتر ہے کہ نصراللہ خان عزیز کی پیروی کی جائے۔ بزدل نہ سمجھا جائے تو مجھے صحافت کی اس قسم کا پیرو سمجھ لیں لیکن جب میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا مولانا ظفر علی خان ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا حسرت موہانی، فیض احمد فیض اور شورش کاشمیری جیسے بزرگ اسلوب میں کسی سے کم تھے کہ بچ بچا کر بات کہہ نہ پاتے؟ اگر اس صلاحیت کے باوجود وہ قید و بند کا شکار ہوئے تو کوئی بات تو ہوگی۔ مطلب یہ ہوا کہ زبان و بیان پر قدرت کے باوجود بھی کبھی کبھی جبر برداشت کرنا پڑتا ہے۔

تو بات یہ ہے کہ ہمارے یار عمار مسعود نے عہد عمرانیہ کے چار برس اسی اذیت میں گزارے لیکن وہ بات ضرور لکھی جو ان کے ضمیر نے انھیں سجھائی لہٰذا اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ عمار کی یہ کتاب اس دور جبر کی یہی تاریخ بیان کرتی ہے، خاص طور پر اس اخلاقی کج روی کی تاریخ جسے اس عہد میں ٹرولنگ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ کسب ہماری اخلاقی روایت اور تہذیب سے کتنا بے گانہ تھا، اس کے اظہار کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں اختلاف تو کیا گیا اور ڈٹ کر کیا گیا لیکن ایسا کرتے ہوئے عزتوں یعنی خواتین کا لحاظ ہمیشہ کیا گیا لیکن عہد مزکور میں ہمارے یہاں پہلی بار خواتین کے لیے بھی ایسی زبان اختیار کی گئی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دوسری بات اتنی مختصر نہیں۔ یہ اس جمہوری جدوجہد کی کہانی ہے جس کی قیادت کبھی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر کرنی پڑی اور کبھی اسی کشا کش میں بیٹی کو سینے سے لگا کر جیل جانا پڑا۔

عمار کی یہ کتاب جمہوری جدوجہد میں پیش آنے والی آزمائشوں کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے اور اس سوال کا جواب بھی فراہم کرتی ہے کہ وہ کیا خاص بات ہے جس کی وجہ سے سولہ ماہ کی مشکل ترین حکومت کے باوجود پاکستان کا مستقبل نواز شریف کے ساتھ وابستہ نظر آتا ہے۔
Load Next Story