قیادت کا ورلڈکپ اورچچا چیف سلیکٹر

بورڈ بھی حیران ہے کہ اندر کی باتیں کون سامنے لا رہا ہے،تھوڑی تحقیقات کیں تو امام الحق کا نام سامنے آیا


Saleem Khaliq September 18, 2023
بورڈ بھی حیران ہے کہ اندر کی باتیں کون سامنے لا رہا ہے،تھوڑی تحقیقات کیں تو امام الحق کا نام سامنے آیا (فوٹو: فائل)

سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایک بار تاریخی جملہ کہا تھا کہ ''کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں جبکہ شکست یتیم ہوتی ہے'' اگر آپ قومی کرکٹ ٹیم کے معاملات کا جائزہ لیں تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، جب وہ جیتے تو ایسے ایسے لوگ کریڈٹ لینے سامنے آ جاتے ہیں جو ایک فیصد بھی حقدار نہیں ہوتے،کھلاڑی کے محلے کا دکاندار بھی کہتا ہے کہ میں نے اسے مشورے دیے تو آج ہیرو بن گیا۔

شکست پر کوئی ساتھ نہیں کھڑا ہوتا، پاکستان کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی زیر قیادت کافی عرصے سے اچھا کھیل پیش کر رہی تھی، برسوں بعد ہمیں نئے سپراسٹارز ملے،اس اعتماد کا فائدہ ہوا اور نقصان بھی سامنے آیا، کرکٹرز کی فین فالوئنگ بڑھی، آپ کسی پر ذرا سی تنقید کردیں سوشل میڈیا پیچھے پڑ جاتا، ان کے اپنے ایجنٹس ٹرینڈز چلوا دیتے، کھلاڑی اتنے طاقتور ہو گئے کہ پی سی بی کو سینٹرل کنٹریکٹ کے قوائد وضوابط ڈکٹیٹ کرانے لگے۔

ورلڈکپ قریب ہے حکام بھی کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے فرمائشیں سنتے رہے،پھر کرکٹ کا 9 مئی آ گیا،ایشیا کپ میچ میں 10ستمبر کو بھارت نے پاکستان کیخلاف 228 رنز کی ریکارڈ ساز فتح حاصل کر لی،اس ایک شکست نے ٹیم کو آسمان سے زمین پر پہنچا دیا، لاڈلوں سے بھی باز پرس ہونے لگی، پھر رہی سہی کسر سری لنکا کیخلاف ناکامی اور فائنل سے اخراج نے پوری کر دی، بابر اعظم پاکستان کے سپراسٹار ہیں، انھوں نے بطور بیٹر کئی کارنامے انجام دیے،کپتانی میں بھی کامیابیاں سمیٹیں لیکن ایشیا کپ میں ان کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔

خاص طور پر فیلڈ پلیسنگ اور بولرز کے استعمال میں خامیاں نظر آئیں،آخری میچ کے بعد ان کی شاہین آفریدی سے تلخ کلامی کی باتیں بھی سامنے آئیں،البتہ قومی ٹیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف میچ کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی،ویسے بورڈ بھی حیران ہے کہ اندر کی باتیں کون سامنے لا رہا ہے،تھوڑی تحقیقات کیں تو امام الحق کا نام سامنے آیا۔

اگر واقعی ایسا ہے تو انھیں محتاط ہو جانا چاہیے کیونکہ بورڈ نے اگر ایکشن لیا تو چچا چیف سلیکٹر بھی نہیں بچا سکیں گے، ویسے بھی اہم مواقع پر ان کے اچانک ''ان فٹ'' ہونے پرآفیشلز حیران ہیں،شکستوں نے واضح کر دیا کہ ٹیم میں کچھ مسائل بھی ہیں، حکام کو فورا ایکشن لینا چاہیے ورنہ ''کپتانی کا ورلڈکپ'' معاملات بگاڑ سکتا ہے،کھلاڑیوں کے بارے میں یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ سینٹرل کنٹریکٹ تنازع سے کھیل پر ان کی توجہ کم ہوئی،کرکٹ ہے تو کرکٹرز ہیں،وہ اچھا کھیلیں گے تو اسی لحاظ سے معاوضے اور مراعات بھی ملیں گی۔

بورڈ نے معاوضوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے اسے قبول کرنا چاہیے، بار بار مطالبات کریں گے تو بلیک میلنگ کا تاثر سامنے آئے گا لیکن کیا کریں ہماری کرکٹ کا کلچر ہی ایسا ہے یہاں تو چچا چیف سلیکٹر نے ہی مطالبات نہ ماننے پر ایک ماہ میں دو بار مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی، ذکا اشرف نرم مزاج کے شریف انسان ہیں، ان کی سادگی کا کسی کو بھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے،اگر وہ اپنی اتھارٹی منوانے پر آگئے تو پھر سخت ایکشن بھی لے سکتے ہیں، ورلڈکپ سے قبل سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط ہونا ضروری ہیں۔

دراصل یہ معاملہ چیئرمین لیول کا ہے ہی نہیں،شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کو ہی اسے حل کر لینا چاہیے تھا، ہم ذاکر خان کو سفارشی یا کچھ بھی کہیں وہ سخت انداز میں ایسے معاملات حل کر لیتے تھے، عثمان واہلہ بھی کوشش تو کر رہے ہیں مگر معاملہ خوامخواہ طول پکڑ گیا۔ اس ایشیا کپ کو ایشین کرکٹ کونسل نے ہی برباد کر دیا، شاید ہی اس سے خراب ایونٹ کبھی منعقد ہوا ہو، اس کی تمام تر ذمہ داری جے شاہ پر عائد ہوتی ہے۔

بھارتی ٹیم کے پاکستان آنے سے انکار پر نجم سیٹھی نے جو ہائبرڈ ماڈل پیش کیا اس سے بھی بہت مسائل ہوئے، کھلاڑی سفر کر کے ہی تھک گئے، بھارتی ٹیم آرام سے ایک ہی جگہ موجود رہی، اگر کولمبو سے سپرفور میچز منتقل کر لیے جاتے تو اتنا مسئلہ نہ ہوتا،صرف پاک بھارت میچ کیلیے ریزرو ڈے رکھنے سے پاکستان فائنل کی دوڑ سے باہر ہوا، ورنہ ایک پوائنٹ کام آ سکتا تھا، ٹکٹوں کی قیمتیں زیادہ رکھی گئیں۔

غیریقینی موسم کی وجہ سے بھی کراؤڈ نہ آیا، رہی سہی کسر انتہائی یکطرفہ فائنل نے پوری کر دی، سری لنکن ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر 50 رنز پر کیسے ڈھیر ہوئی؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے،اس ایونٹ سے بھارتی ٹیم کو بہت فائدہ ہوا ،وہ ہوم گراؤنڈ پر بھرپور اعتماد کے ساتھ ورلڈکپ میں حصہ لے گی،پاکستان کو تو شائقین کی آمد سے بھی بہت کم رقم ہی ملے گی،سری لنکن حکومت ٹیکس کی رقم الگ منہا کرے گی۔

اب تو یہ لگتا ہے کہ اس سے اچھا تھا رواں برس ایشیا کپ کرایا ہی نہ جاتا۔ پی سی بی میں ان دنوں پھر غیر یقینی کا راج ہے، ٹیم کی طرح بورڈ میں بھی سیکریسی موجود نہیں، پوری کی پوری ایکسل شیٹس تک لیک ہو رہی ہیں، ایچ آر میں بھی شاید کوئی گھر کا بھیدی بیٹھا ہے، سی او او سلمان نصیر بھی سنا ہے آج کل دستخط کرنے کے معاملے میں کنجوسی دکھا رہے ہیں، ڈائریکٹر لیگل آنے والے ہیں اور اس شعبے کی نمبر ٹو خاتون 2 ماہ کی چھٹیوں پر چلی گئیں۔

نمبر 3 پوزیشن کے حامل ایک اور آفیشل کو تین ماہ کیلیے ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا، اب نئے صاحب کام کیسے کریں گے؟ اسی طرح ایک اور اہم شعبے میں بھی کنٹریکٹس سے قبل اختیارات کی جنگ جاری ہے، کئی اعلیٰ آفیشلز کے سابقہ انتظامیہ سے روابط ہیں، ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے، ذکا اشرف عمدگی سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ہائبرڈ ماڈل ایشیا کپ انھیں ورثے میں ملا ، اب ان کا کام ہے کہ ورلڈکپ کیلیے کھلاڑیوں کو بھرپور اعتماد بخشیں تاکہ مثبت نتائج سامنے آئیں،ذکا اشرف کو آستینیں بھی جھاڑ لینی چاہییں، کئی اعلیٰ افسران کے فون چیک کیے جائیں تو وفاداری کسی اور سے نبھاتے پائے جائیں گے، خیر بورڈ کی سیاست تو چلتی رہے گی ٹیم کے معاملات سدھرنے چاہیئں تاکہ ورلڈکپ میں بھی خدانخواستہ کہیں ایشیا کپ جیسا حال نہ ہو۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں