حق آزادی

عالمی سطح پر صحافیوں کے حوالے سے کام کرنیوالی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر کے جاری کردہ اعداد و شمار ۔۔۔

mjgoher@yahoo.com

پوری دنیا میں گزشتہ دنوں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا گیا، اس حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی صحافتی تنظیموں کی جانب سے مذاکرے اور سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا جہاں شعبہ صحافت و سیاست سے وابستہ اہم شخصیات نے اپنی تقاریر میں پاکستانی صحافیوں اور موجودہ ملکی حالات میں صحافت کے مقدس پیشے کو درپیش مسائل و مشکلات کا بڑی تفصیل سے احاطہ کیا بالخصوص گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور ملک کے اہم ترین دفاعی ادارے کے درمیان غیر متوقع طور پر پیدا ہونیوالے تنازعے کے پس منظر میں صحافتی برادری کے مابین جس طرح کی تفریق اور خلیج پیدا ہونے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں۔

اس حوالے سے مقررین نے بڑی پرمغز و جامع تقاریر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران آزادی اظہار کے لیے صحافیوں نے جو گراں قدر خدمات اور قربانیاں دی ہیں ان کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ و وفاقی اردو یونیورسٹی اور کراچی پریس کلب کے باہمی اشتراک سے ''محصور صحافی'' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے واضح انداز میں کہا کہ میڈیا مالکان اپنی جنگ میں صحافیوں کو شامل نہ کریں، صحافیوں کو مسلمہ صحافتی اصولوں کے مطابق عوام کے مفاد میں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ صحافی و اینکر پرسنز کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کا مفاد سب سے افضل ہے انھیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے صرف عوام کی نمایندگی کرنی چاہیے اسی طرح وہ اپنا وقار قائم رکھ سکتے ہیں۔

مذکورہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران نے کہا کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں کسی بھی ادارے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ایسے کسی بھی اقدام کو آزادی صحافت کی خلاف ورزی کہا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہیے اور صحافیوں کو بھی اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہو گا۔ صدر شعبہ ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے اداروں پر پابندی پاکستان میں صحافت کو درپیش مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہو گی اور صحافیوں میں کسی بھی قسم کی تقسیم کا فائدہ ان حلقوں کو ہو گا جو عوامی مفاد کو ترجیح دینے پر آمادہ نہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی نے اپنے خطاب میں میڈیا کے اداروں میں موجودہ تقسیم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج کا میڈیا تمام تر آزادی کے باوجود ''محصور'' ہے اور ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے علاوہ مرئی و غیرمرئی بہت سے حصار ایسے ہیں جن میں صحافی محصور ہیں۔ طاہر نجمی نے واضح طور پر کہا کہ ہر میڈیا کا ادارہ صرف اپنے صحافیوں پر ہونیوالے ظلم و تشدد کی خبریں جاری کرتا ہے جو انتہائی دکھ و افسوس کی بات ہے۔

اس امر میں تو کوئی کلام نہیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران قدم قدم پر انگنت مسائل و مشکلات اور رکاوٹوں و پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ریاستی اداروں و حکومتی اہلکاروں کے دباؤ میں تو کبھی میڈیا مالکان کی باہمی رنجشوں کے حصار میں رہ کر جبر وگھٹن کے ماحول میں کام کرنا کسی بھی طرح آزادی اظہار کی تعریف کے زمرے میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کو ''اپنی پالیسی'' قرار دیے جانے والے اسی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے اسی باعث دنیا بھر کے صحافیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


عالمی سطح پر صحافیوں کے حوالے سے کام کرنیوالی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق (2004ء سے 2008ء) کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران 350 سے زائد صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے عراق سرفہرست رہا جہاں مذکورہ دورانیے میں 157 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ 2008ء میں 21 ممالک کے صحافیوں کو ٹارگٹڈ کلنگ کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا جب کہ 2007ء میں 32 ممالک، 2006ء میں 22 ، 2005ء میں 23 اور 2004ء میں 19 ملکوں کے صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ اس عرصے میں پاکستان میں صورتحال بڑی حد تک تشویشناک رہی اور تقریباً 35 سے زائد صحافیوں کی ٹارگٹڈ کلنگ کی گئی۔

آپ قومی و عالمی سطح پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں صحافتی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے جاری کردہ اعداد و شمار اور نشر و شایع ہونے والی خبروں، تبصروں اور تجزیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اظہار رائے و صحافت کی آزادی کے حوالے سے پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جہاں صحافیوں کو چن چن کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جہاں صحافیوں کو اغوا کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور کبھی غائب کر دیا جاتا ہے اور کوئی بھی ادارہ اس کی ذمے داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں صحافیوں کی گرفتاریاں، قید و بند کی صعوبتیں، جان سے مار دینے کی دھمکیاں اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات ہے۔

ایک ایسے ملک میں جو ایک عشرے سے دہشتگردی کا شکار ہو اور عسکریت پسند گروپوں کی صاف گوئی و سچائی کی تشہیر پسند نہ آئے تو ان کی جانب سے بھی میڈیا ہاؤس اور صحافیوں پر حملے کیے جانے لگے ہیں جن کی زندہ مثال ایکسپریس میڈیا گروپ ہے جس پر چار مرتبہ شدت پسند عناصر نے حملے کیے اور گروپ سے وابستہ صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں اور کراچی میں ''ایکسپریس وین'' پر حملہ کر کے تین افراد کو شہید کر دیا گیا جو اس وقت اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریاں ادا کر رہے تھے۔ ایسے مخدوش و خطرناک حالات میں صحافت کے پیشے سے وابستگی بڑی ہمت و جواں مردی کا کام ہے اور یہ فریضہ وہی سرفروش انجام دے سکتے ہیں جو اس مقدس پیشے کی آبرو اور وطن پر جان قربان کر دینے کا جذبہ صادق رکھتے ہیں۔

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما، سینئر پارلیمنٹیرین سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ''ورلڈ پریس فریڈم ڈے'' کے حوالے سے اپنے تجربے کی روشنی میں بڑی اہم باتیں کی ہیں جن میں ارباب حل و عقد کے لیے غور و فکر کا سامان موجود ہے انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ''حب الوطنی'' اور ''قومی سلامتی'' کی حدود کا تعین کرنا کسی فرد واحد یا کسی ادارے کے سپرد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس حوالے سے کسی سطح پر مباحثے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک مخصوص گروپ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ''سیکیورٹی رسک'' قرار دے دیا تھا جب کہ بعض میڈیا گروپ کی طرف سے آزادی صحافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا تھا اور میڈیا کی طرف سے ''کوڈ آف کنڈکٹ'' پر عمل درآمد نہ کرنے کی مذمت بھی کی تھی اس کے باوجود پیپلز پارٹی حقیقی یا فرضی الزامات کے تحت کسی میڈیا ہاؤس پر پابندی لگانے کی حمایت نہیں کریگی۔

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی کہا ہے کہ صحافتی اداروں کو ''کوڈ آف کنڈکٹ'' پر عمل کرنا چاہیے اور ہماری پارٹی محض الزامات کے تحت کسی میڈیا ہاؤس پر پابندی کی حامی نہیں۔ مذکورہ جماعت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ میڈیا کی آزادی برقرار رکھنے اور قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ ریاستی ادارے، میڈیا ہاؤسز اور صحافتی برادری ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کریں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اصولوں و ضابطوں کی پابندی کریں اور ایک دوسرے کے وقار کا احترام اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ جدید دنیا صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے لہٰذا دیگر اداروں پر لازم ہے کہ اس کے ''حق آزادی'' کو بھی دیانت داری سے تسلیم کریں۔
Load Next Story