ملکی استحکام اور خودغرض سیاست

ملک کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے خودغرض سیاستدانوں نے پہنچایا ہے

پاکستان کی عظیم ریاست کو ملک کی سیاست نے مفلوج کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمے دار ہماری ستر سالہ سیاست ہے۔ سیاسی لڑائی، سیاسی مقدمات اور اپنی حکومت کو بچانے کےلیے اتحادیوں سے بلیک میل ہونے اور سب مل کر کھاؤ جیسی پالیسیوں نے ملک میں ہر طرف بدنظمی عام کردی ہے۔


اگر آپ انتظامی امور اور پالیسیوں میں موجود خامیوں اور غلطیوں کو شمار کرنا شروع کردیں تو شاید ان کا گننا بھی ممکن نہ ہوگا۔ ہر آنے والا حکمران پچھلے پر سارا کیچڑ اچھال کر ہاتھ صاف کرکے کپڑے جھاڑ کر چلا جاتا ہے جبکہ ملکی نظام کی تباہی میں سب ہی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔


پاکستان کی عظیم ریاست کو ملک کی سیاست نے مفلوج کردیا ہے۔ اشرافیہ کی شاہ خرچیوں نے ملک کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ قرض کی رقم کو واپس کرنے کےلیے اشیائے خورونوش، بجلی، گیس اور ایندھن اس قدر مہنگا کردیا گیا ہے کہ غریب اور مڈل کلاس کےلیے زندگی گزارنا اب انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل ملز جیسے ادارے بھی ان ہی سیاسی جماعتوں اور سیاسی بھرتیوں نے تباہ کردیے ہیں۔ یہ ادارے قوم کا اربوں روپے اب بھی ہر سال کھا رہے ہیں۔ ماضی میں ان اداروں کو خریدنے اور ٹھیکے پر لینے کےلیے کئی مستحکم پارٹیاں تیار تھیں لیکن عوام کا استحصال کرنے والے سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے یہ بھی نہ ہونے دیا اور مختلف نعروں سے عوام کو بے وقوف بنا کر اپنی سیاست چمکائی۔


پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس کلیکشن ریٹ انتہائی کم ہے۔ ٹیکس کلیکشن ریٹ بڑھانے کی بات کریں تو ملک کا کاروباری طبقہ میدان میں آجاتا ہے، مزدوروں کا استحصال کرنے والا یہ طبقہ بھی ملک کی تباہی میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور ان کے احتجاج کے بعد ایک بار پھر ٹیکس کا بوجھ بھی عوام اور چھوٹے کاروباری کو اٹھانا پڑتا ہے۔



لیکن سنا ہے اب کی بار حالات بدل رہے ہیں۔ نگرانوں کی پالیسی میں سب ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ جلد انتخابات ایجنڈے میں شامل نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کےلیے ملک سے مخلص کئی طاقتیں اب میدان میں آچکی ہیں۔ آرمی چیف بھی اپنا مکمل کردار ادا کررہے ہیں۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے عوامل میں سب سے اہم منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ ہیں، ان دونوں عوامل کو روکنے کےلیے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ملک سے ڈالر باہر لے جانے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ملک بھر میں ان کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ فلمی سین کی طرح دیواروں میں پیسہ چھپانے والوں کی بھی دوڑیں لگ رہی ہیں، جبکہ اطلاعات ہیں کہ لینڈ گریبرز کا بھی جلد نمبر آئے گا۔


یہ دن سب سے مشکل عوام کےلیے ہوں گے۔ جب تک معیشت سنبھل نہیں جاتی تب تک مہنگائی کا جن بے قابو رہے گا۔ جب تک آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کےلیے کیے جانے والے اقدامات کی کامیابی نہیں ہوتی تب تک جینا مشکل ہوگا اور سکون صرف قبر میں ہی ہوگا، لیکن مقابلہ تو اب کرنا ہوگا۔ دعا گو رہیں کہ جو اقدامات کیے جارہے ہیں اللہ ان سب میں کامیابی عطا کرے اور ملک کے حالات بہتر ہوں۔ ملک کی معیشت بہتر ہونے کی جانب اگر گامزن ہوئی تو پاکستان مخالف ریاستیں اور ان کے آلہ کار بھی اپنی سازشوں کا آغاز کردیں گے۔ پھر ملک میں دہشتگردی کے واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں اور مذہبی و لسانی فسادات کی کوششیں بھی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہم سب کی بھی ذمے داری ہے کہ اپنی آنکھیں اور ذہن کھلا رکھیں۔ نگرانوں کو ملک میں اشرافیہ کا پروٹوکول اور سبسڈی بھی ختم کرنا ہوگی۔ انہیں خود بھی سادگی کو اپنانا ہوگا اور ضرورت سے زیادہ خرچ سے گریز کرنا ہوگا۔ ملک میں نافذ اشرافیہ کا وی آئی پی کلچر، پروٹوکول اور سبسڈی بھی اس ملک پر بہت عظیم بوجھ ہے، اس کا خاتمہ بھی ملکی استحکام کےلیے ناگزیر ہے۔


واضح رہے کہ ان تمام کوششیں میں جمہوریت کا استحکام بھی لازم ہے۔ اگرچہ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا بڑا کردار ہے لیکن پھر بھی پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت ہی میں ملک کا استحکام ہے۔ عام انتخابات میں حالات کے پیش نظر تاخیر ضرور ممکن ہے لیکن اسے مکمل طور پر نظر انداز کردینا درست نہ ہوگا۔ احتساب کے معاملے میں کسی کو نہ بخشا جائے تاکہ ملکی سیاست سے بھی کرپٹ افراد کا صفایا ہو اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو کام کا موقع ملے۔


ملک کا ہر سیاستدان اور ہر جماعت کرپٹ نہیں لیکن اب کی بار عوام کو بھی فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ روٹی، کپڑا اور مکان، ووٹ کو عزت دو، مذہب کا محافظ اور ابسیلوٹلی ناٹ جیسے نعروں سے متاثر ہونے کے بجائے ماضی کی کارکردگی پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ نگرانوں کی اچھی اور کچھ طویل نگرانی اور عوام میں شعور کی بیداری اب بھی ملک کے حالات بدل سکتی ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story