آڈیو لیکس اور ریکارڈنگز میں ہمارا کوئی کردار نہیں وزارت دفاع

وفاقی حکومت عدالتی سوالوں کے جواب دے ورنہ حساس اداروں کو براہ راست فریق بنا کر جواب طلب کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

وفاقی حکومت عدالتی سوالوں کے جواب دے ورنہ حساس اداروں کو براہ راست فریق بنا کر جواب طلب کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ آڈیو ریکارڈنگ میں ان کا کوئی کردار ہے نہ موجودہ کیس میں کوئی ریکارڈنگ کی گئی ہے۔

عدالت نے وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کے تحریری جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفصیلی جواب مانگ لیا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے جواب سے لگتا ہے کہ کوئی بھی ریکارڈنگ نہیں کر سکتا اور کسی کے پاس ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کی سہولت نہیں۔ وفاقی حکومت عدالتی سوالوں کے جواب دے ورنہ حساس اداروں کو براہ راست فریق بنا کر جواب طلب کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی کی فون بگنگ اور آڈیو لیکس کے خلاف درخواست جبکہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی آڈیو لیک کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔


ڈپٹی اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث پیش نا ہوئے۔ وزارت داخلہ اور پی ٹی اے نے تحریری جواب جمع کرائے جنہیں عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفصیلی جواب طلب کیا۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے جواب سے لگتا ہے کہ کوئی بھی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ نہیں کر سکتا اور کسی کے پاس یہ گفتگو ریکارڈ کرنے کی سہولت ہی نہیں۔ تحریری جوابات میں عدالتی سوالات کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ یہ عدالت تحمل کا مظاہر کرتے ہوئے ایک آخری موقع دے رہی ہے۔ حکومت جواب دے ورنہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے۔ دو ہی صورتیں ہیں کہ حکومت جواب دے یا ایجنسیز کو فریق بنائیں۔

پٹیشنرز کی جانب سے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا مسز بشری عمران کو ایف آئی اے روز بلا کر کہتا ہے کہ وائس ریکارڈ کرائیں تاکہ وائس میچنگ کرا سکیں۔ ایف آئی اے کبھی وائس میچنگ کیلئے بلا رہی ہے کبھی کسی اور وجہ سے۔ بشری بی بی کو بار بار طلب کر کے ہراساں کیا جا رہا ہے، ایسا کرنے سے روکا جائے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا میں ایک انوسٹی گیشن ایجنسی کو انوسٹی گیشن سے نہیں روک سکتا، جب قانون کی کوئی خلاف ورزی ہو تو آپ اسے چیلنج کر سکتے ہیں، آپ یہ آرڈر چاہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرے۔ یہ تو بےمعنی آرڈر ہو گا کیونکہ ایف آئی اے نے قانون کے مطابق ہی کام کرنا ہے۔آپ کہتے ہیں تو میں آرڈر لکھوا دیتا ہوں کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرے۔

عدالت نے سابق چیف جسٹس کے بیٹے کو پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کے سمن کی معطلی کے آرڈر میں ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی
Load Next Story