نیب‘ سیاست اور جمہوریت
نیب کے قانون میں جو ترامیم کی گئیں اسی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تضادات کو سمجھنے کو موقع مل سکتا ہے
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں جوابدہی اور احتساب کا نظام نہیں ہے۔نیب کے قانون میں جو ترامیم کی گئیں اسی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تضادات کو سمجھنے کو موقع مل سکتا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت نے نیب قانون میں ترامیم کو بنیاد بنا کر اپنے مقدمات ختم کرنے کی کوشش کی۔پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے بعد جب ملک میں نئے انتخابات پر بات چیت جاری تھی تو اس وقت بھی یہ ہی نقطہ تھا کہ حکومت پہلے نیب کے قوانین میں ترامیم کرے گی اور خود کو محفوظ بنانے کو یقینی بنائے گی او رپھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ نیب میں جو ترامیم پی ڈی ایم حکومت نے کی تھی اس کا مقصد سیاسی، قانونی یا آئینی یا عوامی مفاد یا ریاستی مفاد کے مقابلے میں چند مخصوص او ر طاقت ور افراد کو تحفظ دینا تھا ۔یعنی حکومت میںجن افراد پرکرپشن یا بدعنوانی کے مقدمات تھے چاہے وہ درست تھے یا غلط لیکن ان ہی لوگوں نے اپنے اوپر مقدمات کو ختم کیا ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ نیب کے قانون میں کی جانے والی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا او رخیال تھا کہ عدالتی محاذ پر ان ترامیم کو کالعدم ہی قرار دیا جائے گا۔ دس میں سے نوترامیم کو کالعدم قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاست اورجمہوریت کی شفافیت کا نظام کہاں کھڑا ہے ۔
عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے کیسز بحال ، پچاس کروڑ روپے کی حد ختم، پلی بارگین کی ترمیم ، کرپشن، بے ایمانی کی تعریف، دوسرے ملک سے ملی دستاویز قابل قبول شہادت ، بار ثبوت ملزم کی ذمے داری کی شقیں ، نیب کی جانب سے سات روز میں عدالتوں کو ریکارڈ بھیجنے ، تفتیش او رانکوائریاں کا احتساب عدالتوں کو بھیجنا جیسے معاملات یا ترامیم کو کالعدم قرار دینے سے ایک نیا سیاسی بھونچال سامنے آیا ہے۔
کچھ لوگ نیب کی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے معاملات کو پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی یا عدالتوں کا پارلیمانی معاملات میں مداخلت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں او ران کی توقع ہے کہ نئے چیف جسٹس اس میں کوئی کلیدی کردار ادا کریں گے ۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں نیب کے معاملات کبھی بھی شفاف نہیں رہے ۔
نیب کو ایک سطح پر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا ہے او ریہ استعمال آج بھی بڑی شدت سے جاری ہے ۔اس لیے جو لوگ بھی نیب کے معاملات پر سخت تنقید کرتے ہیں یا اس کی شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہیں وہ بھی کافی حد تک درست تجزیہ ہے۔
لیکن جو لوگ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد پر یہ منطق دیتے ہیں کہ کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونی چاہیے یا سیاست دانوں کو کرپشن سے پاک بنا کر پیش کیا جاتا ہے یا یہ منطق دی جاتی ہے کہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے یا نیب جیسے ادارے جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں یہ بنیادی طور کرپٹ لوگوں کو بچانے کی سیاسی کوشش ہوتی ہے۔مسئلہ نیب کی شفافیت کا ہے او رادارے کو آئین اور قانون کے مطابق چلانے کے بجائے اسے عملا سیاسی بنیادوں پر چلانے کی روش خطرناک نتائج کا سبب بنتی ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ اول تو ہم نے نیب کے ادارے کی شفافیت کو یقینی بنانے کے بجائے اس کا سیاسی استحصال کیا یا اس کو خود ہی اپنی پالیسیوں یا حکمت عملیوں سے مفلوج بنایا اور دوئم ہمیں اگر نیب پر اعتراضات ہیں تو پھر یہ سوال تو بنتاہے کہ کیونکر نیب کو ختم کرکے اس کا متبادل شفاف نظام نہیں لایا گیا ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کو بنیاد بنا کر اس کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا ، مگر دونوں بڑی جماعتوں کی حکومتیں شفافیت پر مبنی نظام کو قائم نہیں کرسکیں ۔
اب بھی نیب کی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے بعد یہ سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے بعد بھی شفافیت پر مبنی احتساب ممکن ہوسکے گا یا اب بھی ان ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد بھی اسی ادارے کو پرانی ڈگر یعنی سیاسی مخالفین کے خلاف بطو رہتھیار استعمال کیا جائے گا۔
ماضی کو دیکھیں تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن عتاب میں تھی او راب ان دونوں جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی ماضی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا یا اس کا سارا ملبہ پی ٹی آئی پر گرے گا۔
خدشہ یہ ہے کہ ان ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد بھی نیب کا کھیل کا عمل جاری رہے گا ۔یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے اورانتخابات سے پہلے تمام فریقین کی جانب سے لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ بھی پیش پیش ہے ۔ ایسے میں نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے اور اسے بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں بھی سیاسی محاذ پر گردش کررہی ہیں ۔
کرپشن او ربدعنوانی کی سیاست کے خاتمہ کے لیے جہاں ہمیں اپنے اداروں کی شفافیت کے نظام کو قائم کرنا ہے وہیں ہمیں ان کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑی سخت گیر پالیسیاں اور اسٹرکچرل اصلاحات درکار ہیں ۔ جو سیاست دانوں سمیت تمام اداروں کو بھی آئین اور قانون کی حکمرانی او راحتسابی عمل میں جوابدہ بناسکے ۔
نیب میں کی جانے والی ترامیم واضح کرتی ہیں کہ ان ترامیم کا مقصد سیاسی تھا ۔یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ نیب کی بنیاد پر سیاسی قیادتوں پر سیاسی دباو بڑھایا جائے گا او رکوشش کی جائے گی کہ ان کو سیاسی طو رپر ایک مخصوص مفادات کے تحت کنٹرول کیا جائے ۔
نیب میں کی جانے والی ترامیم او راس کے بعد اس کا کالعدم ہونا بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کے نظام کو ناکامی کے طور پر اور غیر سیاسی قوتوں کی بڑی کامیابی کے طو رپر پیش کرتا ہے۔ جمہوریت اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کی جو کمزور او رلاغر شکلیں ہم دیکھ رہے ہیں ۔