کرکٹ بورڈ کے ’’لوز شاٹس‘‘
اگر ثقلین مشتاق درمیان میں نہ آتے تو اتنا مسئلہ نہ ہوتا لیکن پھر ان سے بھی پلاننگ کر کے پیچھا چھڑا لیا گیا۔
'' ایک ای میل کرنے میں کتنے پیسے لگتے ہیں''
ماضی کے ایک کرکٹر نے جب مجھ سے یہ سوال پوچھا تو میں حیرت سے ان کی جانب دیکھنے لگا، یقیناً وہ بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں چند پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے، وہ میرے تاثرات سے چند لمحے محظوظ ہوئے پھر کہنے لگے ''حیران نہ ہوں دراصل میں یہ بات اس لیے پوچھ رہا تھا کیونکہ جب بھی پی سی بی کوچنگ کیلیے اشتہار جاری کرتا ہے، میں بھی درخواست دیتا ہوں، کوالیفائیڈ اور تجربہ کار بھی ہوں، اگر تقرر نہیں کرنا تو نہ کریں، وہ تو اس بات کا بھی جواب نہیں دیتے کہ میری درخواست ملی ہے یا نہیں، ایسے میں اس عمل کو شفاف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟''۔
یہ ملاقات ختم ہونے کے بعد میں نے چند دیگر کوچز سے بھی فون پر بورڈ کی جانب سے کسی رابطے کا پوچھا سب کا جواب نفی میں تھا، ایسے میں میرے دل میں یہی بات آئی کہ اگر پی سی بی کوچنگ کے حوالے سے تنقید کی زد میں آیا تو یہ بالکل درست ہے۔ چاہے وہ کسی مہذب ملک کی ویزا یا اچھی کمپنی میں ملازمت کی درخواست ہو وہ اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ اپلائی کرنے کا شکریہ، ہم آپ سے جلد رابطہ کریں گے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا، وجہ برسوں سے عہدوں پر براجمان بعض ''بزرگ'' ہیں جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر اب شائد کسی ٹیلی ویژن چینل پر تبصروں کی کوئی اسائنمنٹ بھی مشکل سے حاصل کر سکیں، وہ جدید دور کے طور طریقوں سے واقفیت نہیں رکھتے، اسے لیے بورڈ کو ایک چھوٹی سی کمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے، یہ ایک کھلا راز تھا کہ بورڈ وقار یونس اور مشتاق احمد کے تقرر کا پہلے ہی فیصلہ کر چکا۔
اشتہار جاری کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا، اگر ثقلین مشتاق درمیان میں نہ آتے تو اتنا مسئلہ نہ ہوتا لیکن پھر ان سے بھی پلاننگ کر کے پیچھا چھڑایا گیا، اگر کسی شخص کو اس کی مارکیٹ ویلیو سے آدھے سے بھی کم معاوضے کی پیشکش کریں تو وہ خود ہی شکریہ ادا کر کے چلا جائے گا،ایسا ہی اس معاملے میں ہوا، یہ مضحکہ خیز دلیل دی گئی کہ مشتاق احمد کو انٹرنیشنل کوچنگ کے تجربے کی وجہ سے ترجیح ملی، ثقلین بھی نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے ساتھ کام کر چکے اور یہ ممالک کسی دوسرے سیارے کا حصہ نہیں ہیں، وقار یونس اور مشتاق احمد کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن فرض کریں کہ مائیکرو سافٹ کے سابق سربراہ اور دنیا کے امیرترین شخص بل گیٹس کو بھی کہیں ملازمت کی ضرورت پڑ جائے تو انھیں بھی ایسے ہی نہیں رکھ لیا جائے گا۔
ہر اچھی کمپنی قوائد وضوابط مکمل کرنے کے بعد ہی تقرری کا پروانہ جاری کرے گی، پی سی بھی اربوں روپے کے اثاثوں کا مالک ہے، اسی لیے اسے دیکھ کر سب کی رال ٹپکتی رہتی ہے، ہاکی والے آج فنڈز کی کمی کا رونا رو رہے ہیں، کھیلوں سے محبت کرنے کا دعویدار کوئی معروف صحافی،بزنسمین یا سیاستدان ادھر جانے کیلیے کیوں زور نہیں لگاتا وجہ سب کو پتا ہے، اس میں میڈیا کوریج ملے گی نہ دیگر فوائد،ایسے میں کرکٹ بورڈ جیسے اتنے بڑے ادارے کو چلانا بھی اچھے انداز سے چاہیے، اس کیلیے پڑھے لکھے قابل افراد کا تقرر ضروری ہے، یہاں سوٹ بوٹ میں گھومنے والے تاحیات عہدوں پر براجمان بعض عہدیداروں کی قابلیت پوچھی جائے تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے، ہاں اگر چمچہ گیری اور سیاسی دوستیوں پر کوئی ڈگری ملتی تو یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلاتے۔
ہم بیچارے کرکٹرز کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ مین آف دی میچ ایوارڈلیتے وقت درست انگریزی نہیں بول سکتے، کاش بعض بورڈ آفیشلز کو بھی اس معاملے میں چیک کیا جاتا، موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی یقیناً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، وہ اپنے ساتھ امجد بھٹی جیسے چند اچھے لوگ بھی لے آئے لیکن جب تک دیگر آفیشلز میرٹ پر پورا نہ اتریں یہ چند لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ پی سی بی کے پرانے ملازمین میں سبحان احمد بھی ہر لحاظ سے قابل شخص ہیں، باقی میں کسی کو انصاف دلانے کے دعویدار کی سپورٹ حاصل تو کوئی کسی اور اعلیٰ شخصیت کا واقف کار ہے، ایسے ہی لوگ چیئرمین کیلیے کام کرنا مشکل بنا چکے، ساتھ ہی الٹے سیدھے مشورے دے کر انھیں متنازع بھی بنا دیا، ہارون رشید، انتخاب عالم اور ذاکر خان نے آج تک کون سا ایسا کام کیا جس پر فخر کر سکیں، اس کے باوجود عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔
سابق کرکٹرز اگر بورڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اس کیلیے مطلوبہ اہلیت بھی حاصل ہونی چاہیے،ان لوگوں نے کرکٹ سے اتنا پیسہ نہیں کمایا ہو گا جتنا بغیر کام کیے بورڈ سے بنا لیا، اب ان کی جگہ کسی اہل شخص کولانا چاہیے ہاں مگر اس کیلیے کوچ کے تقررجیسا طریقہ کار اختیار کیا تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ نجم سیٹھی صحافت کا ایک بڑا نام ہیں، یہ نہ ہو کہ چند برس بعد جب گوگل پر کوئی ان کے بارے میں سرچ کرے تو میڈیا میں کارناموں کے بجائے پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ ذکر موجود ہو، اب بھی ان کے پاس وقت ہے، اچھی ٹیم بنا کر بورڈ کو چلائیں اور خود بھی احتیاط سے کھیلیں۔
کرکٹ میں شاٹ سلیکشن بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جہاں آپ نے غلط اسٹروک کھیلا تو فوراًآئوٹ ہو گئے، فی الحال انھیں اپنے ''امپائرز ''کا ایڈوانٹیج حاصل ہے لیکن کب تک ہر گیند کو نو قرار دے کر بچایا جا سکے گا، کبھی نہ کبھی تو وکٹ گر ہی جائے گی، اسی لیے اسٹروکس کھیلنے کیلیے لوز گیندوں کا انتظار کیا کریں، ہر گیند پر چھکے کی کوشش کرنے والے بیٹسمین کو کبھی قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا، مشکوک ماضی والے کرکٹرز کو بورڈ میں اکھٹا کر کے وہ خود اپنی ساکھ دائو پر لگا رہے ہیں، ملک میں بے داغ کھلاڑیوں کی بھی کوئی کمی نہیں، پاکستانی کرکٹ ویسے ہی ہمیشہ شکوک و شبہات کی زد میں رہتی ہے، غیروں کو مزید مواقع دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
ماضی کے ایک کرکٹر نے جب مجھ سے یہ سوال پوچھا تو میں حیرت سے ان کی جانب دیکھنے لگا، یقیناً وہ بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں چند پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے، وہ میرے تاثرات سے چند لمحے محظوظ ہوئے پھر کہنے لگے ''حیران نہ ہوں دراصل میں یہ بات اس لیے پوچھ رہا تھا کیونکہ جب بھی پی سی بی کوچنگ کیلیے اشتہار جاری کرتا ہے، میں بھی درخواست دیتا ہوں، کوالیفائیڈ اور تجربہ کار بھی ہوں، اگر تقرر نہیں کرنا تو نہ کریں، وہ تو اس بات کا بھی جواب نہیں دیتے کہ میری درخواست ملی ہے یا نہیں، ایسے میں اس عمل کو شفاف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟''۔
یہ ملاقات ختم ہونے کے بعد میں نے چند دیگر کوچز سے بھی فون پر بورڈ کی جانب سے کسی رابطے کا پوچھا سب کا جواب نفی میں تھا، ایسے میں میرے دل میں یہی بات آئی کہ اگر پی سی بی کوچنگ کے حوالے سے تنقید کی زد میں آیا تو یہ بالکل درست ہے۔ چاہے وہ کسی مہذب ملک کی ویزا یا اچھی کمپنی میں ملازمت کی درخواست ہو وہ اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ اپلائی کرنے کا شکریہ، ہم آپ سے جلد رابطہ کریں گے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا، وجہ برسوں سے عہدوں پر براجمان بعض ''بزرگ'' ہیں جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر اب شائد کسی ٹیلی ویژن چینل پر تبصروں کی کوئی اسائنمنٹ بھی مشکل سے حاصل کر سکیں، وہ جدید دور کے طور طریقوں سے واقفیت نہیں رکھتے، اسے لیے بورڈ کو ایک چھوٹی سی کمپنی کی طرح چلایا جا رہا ہے، یہ ایک کھلا راز تھا کہ بورڈ وقار یونس اور مشتاق احمد کے تقرر کا پہلے ہی فیصلہ کر چکا۔
اشتہار جاری کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا، اگر ثقلین مشتاق درمیان میں نہ آتے تو اتنا مسئلہ نہ ہوتا لیکن پھر ان سے بھی پلاننگ کر کے پیچھا چھڑایا گیا، اگر کسی شخص کو اس کی مارکیٹ ویلیو سے آدھے سے بھی کم معاوضے کی پیشکش کریں تو وہ خود ہی شکریہ ادا کر کے چلا جائے گا،ایسا ہی اس معاملے میں ہوا، یہ مضحکہ خیز دلیل دی گئی کہ مشتاق احمد کو انٹرنیشنل کوچنگ کے تجربے کی وجہ سے ترجیح ملی، ثقلین بھی نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے ساتھ کام کر چکے اور یہ ممالک کسی دوسرے سیارے کا حصہ نہیں ہیں، وقار یونس اور مشتاق احمد کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن فرض کریں کہ مائیکرو سافٹ کے سابق سربراہ اور دنیا کے امیرترین شخص بل گیٹس کو بھی کہیں ملازمت کی ضرورت پڑ جائے تو انھیں بھی ایسے ہی نہیں رکھ لیا جائے گا۔
ہر اچھی کمپنی قوائد وضوابط مکمل کرنے کے بعد ہی تقرری کا پروانہ جاری کرے گی، پی سی بھی اربوں روپے کے اثاثوں کا مالک ہے، اسی لیے اسے دیکھ کر سب کی رال ٹپکتی رہتی ہے، ہاکی والے آج فنڈز کی کمی کا رونا رو رہے ہیں، کھیلوں سے محبت کرنے کا دعویدار کوئی معروف صحافی،بزنسمین یا سیاستدان ادھر جانے کیلیے کیوں زور نہیں لگاتا وجہ سب کو پتا ہے، اس میں میڈیا کوریج ملے گی نہ دیگر فوائد،ایسے میں کرکٹ بورڈ جیسے اتنے بڑے ادارے کو چلانا بھی اچھے انداز سے چاہیے، اس کیلیے پڑھے لکھے قابل افراد کا تقرر ضروری ہے، یہاں سوٹ بوٹ میں گھومنے والے تاحیات عہدوں پر براجمان بعض عہدیداروں کی قابلیت پوچھی جائے تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے، ہاں اگر چمچہ گیری اور سیاسی دوستیوں پر کوئی ڈگری ملتی تو یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلاتے۔
ہم بیچارے کرکٹرز کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ مین آف دی میچ ایوارڈلیتے وقت درست انگریزی نہیں بول سکتے، کاش بعض بورڈ آفیشلز کو بھی اس معاملے میں چیک کیا جاتا، موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی یقیناً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، وہ اپنے ساتھ امجد بھٹی جیسے چند اچھے لوگ بھی لے آئے لیکن جب تک دیگر آفیشلز میرٹ پر پورا نہ اتریں یہ چند لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ پی سی بی کے پرانے ملازمین میں سبحان احمد بھی ہر لحاظ سے قابل شخص ہیں، باقی میں کسی کو انصاف دلانے کے دعویدار کی سپورٹ حاصل تو کوئی کسی اور اعلیٰ شخصیت کا واقف کار ہے، ایسے ہی لوگ چیئرمین کیلیے کام کرنا مشکل بنا چکے، ساتھ ہی الٹے سیدھے مشورے دے کر انھیں متنازع بھی بنا دیا، ہارون رشید، انتخاب عالم اور ذاکر خان نے آج تک کون سا ایسا کام کیا جس پر فخر کر سکیں، اس کے باوجود عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔
سابق کرکٹرز اگر بورڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اس کیلیے مطلوبہ اہلیت بھی حاصل ہونی چاہیے،ان لوگوں نے کرکٹ سے اتنا پیسہ نہیں کمایا ہو گا جتنا بغیر کام کیے بورڈ سے بنا لیا، اب ان کی جگہ کسی اہل شخص کولانا چاہیے ہاں مگر اس کیلیے کوچ کے تقررجیسا طریقہ کار اختیار کیا تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ نجم سیٹھی صحافت کا ایک بڑا نام ہیں، یہ نہ ہو کہ چند برس بعد جب گوگل پر کوئی ان کے بارے میں سرچ کرے تو میڈیا میں کارناموں کے بجائے پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ ذکر موجود ہو، اب بھی ان کے پاس وقت ہے، اچھی ٹیم بنا کر بورڈ کو چلائیں اور خود بھی احتیاط سے کھیلیں۔
کرکٹ میں شاٹ سلیکشن بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جہاں آپ نے غلط اسٹروک کھیلا تو فوراًآئوٹ ہو گئے، فی الحال انھیں اپنے ''امپائرز ''کا ایڈوانٹیج حاصل ہے لیکن کب تک ہر گیند کو نو قرار دے کر بچایا جا سکے گا، کبھی نہ کبھی تو وکٹ گر ہی جائے گی، اسی لیے اسٹروکس کھیلنے کیلیے لوز گیندوں کا انتظار کیا کریں، ہر گیند پر چھکے کی کوشش کرنے والے بیٹسمین کو کبھی قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا، مشکوک ماضی والے کرکٹرز کو بورڈ میں اکھٹا کر کے وہ خود اپنی ساکھ دائو پر لگا رہے ہیں، ملک میں بے داغ کھلاڑیوں کی بھی کوئی کمی نہیں، پاکستانی کرکٹ ویسے ہی ہمیشہ شکوک و شبہات کی زد میں رہتی ہے، غیروں کو مزید مواقع دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔