ریاست کو درپیش چیلنجز
معیشت پر غیرملکی اور ملکی قرضوں کا بوجھ غیرمعمولی حد تک بڑھ چکا ہے
وطن عزیز میں جاری معاشی بحران ہمارے داخلی اور خارجی معاملات پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بیرونی دنیا میں اب ہماری پہچان بدحال معیشت کے حامل ملک کی بن گئی ہے۔
معیشت پر غیرملکی اور ملکی قرضوں کا بوجھ غیرمعمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔افسوس تو اِس رویے کا ہے کہ ہم قرض اور اپنے عوام کی حالت دکھا کر مدد مانگتے ہیں اور مدد ملنے پر اپنی قوم سے اپنی صلاحیتوں کی داد بھی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کمزورہے جس کا ذمے دار ہم کسی اور کو قرار نہیں دے سکتے۔ ہماری کمزوری، ہماری اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ چند ممالک کا ہماری خارجہ پالیسی پر گہرا سایہ ہے جس کا اثر ہمارے فیصلوں پر بھی پڑتا ہے۔
امریکا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ چند ممالک ہیں جو بہت اہم ہیں۔ امریکا اور چین بڑے ملک ہیں اس لیے ان کا اثر ایک قدرتی امر ہے۔ ترکی نے بھی پچھلے سات آٹھ سال میں پاکستان میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے ۔ خارجہ پالیسی بناتے وقت ہمیں تضادات، قومی مفادات اور دور اندیشی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا جس میں ہم ناکام رہے۔
اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر جن اَہم چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں چین اور امریکا کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور اَمریکا کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جب کہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں مگر اَفغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے کچھ تازہ واقعات کی بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں افغانستان میں موجود داعش اور ٹی ٹی پی سے ٹف ٹائم مل سکتا ہے جب کہ افغانستان کی حکومت ان گروپوں پر قابو پانے میں ناکام چلی آرہی ہے۔
یوں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگیجاری رہ سکتی ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر لگائی گئی باڑ کو اکھاڑنے اور پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات spoilers کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد کے لیے بہتر ہے۔
امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکا کی چین کے ساتھ جاری تجارتی چپقلش سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے، کیونکہ ماضی میں امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ پختگی آئی ہے۔ چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی اسٹرٹیجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
CPEC عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر ہمہ وقت ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی ایک مشکل چیلنج ہے، ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل کام ہے۔
عالمی سیاست میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش اور اثرورسوخ کی دوڑ میں پاکستان کے لیے غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے ایک متوازن اپروچ اِختیار کرنا ایک اہم اور مشکل چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق نمٹا جائے اور کسی بھی قسم کی مثالیت پرستی کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرنا چاہیے ۔
عوام کی اکثریت بے چینی کا شکار ہے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ حالات بہتر ہوںگے یا بدتر، مہنگائی کم ہوگی یا بڑھے گی، روزگار ملے گا یا مواقعے مزید کم ہوں گے، اشیائے ضروریہ اور اشیائے خور و نوش عام اور غریب پاکستانیوں کی دسترس میں ہوں گی یا مزید دور ہوں گی، بجلی کب سستی ہوگی، گیس کب دستیاب ہوگی، پٹرول کی قلت تو نہیں ہوگی، پٹرول نایاب ہوا تو کیسے سفر کریں گے۔
نظام زندگی رک تو نہیں جائے گا، ایسے بے شمار خدشات اور سوالات ہیں جن کے جواب عام پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں لیکن ہر کوئی نجومی کے طوطے کی طرح رٹے رٹائے جوابات دے کر پوچھنے والے کو نئی سمت دے دیتا ہے۔ وطن عزیز کوداخلی طور پر بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں، بسا اوقات تو سیاسی قائدین بھی اِس پر لب کشائی کرتے ہیں مگر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب وہ برسراقتدار نہیں ہوتے اور اُن کی اُس وقت حزب اقتدار کے سامنے ایک نہیں چلتی لہٰذا سچ اُگلنے کا فریضہ جبھی ادا ہوتا ہے مگر اقتدار کی کایا پلٹ جائے تو وہ تمام وعدے، ارادے اور موقف بدل جاتے ہیں، پھر سابقین کو مورود الزام ٹھہرانے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے ۔
جب وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا اُن نامساعد حالات اور بے شمار چیلنجز کے باوجود ہم نے خلوص نیت کے ساتھ پیروں پر کھڑا ہونے کا عزم مصمم کیا لہٰذا ہماری عالمی سطح پر توقیر بھی بڑھی اور بڑی طاقتیں ہماری جانب متوجہ بھی ہوئیں مگر قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے جانثار رفقا کے بعد ہم اُس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا سفر بہت مشکل ہوگیا ہے۔
کس کو قصور وار ٹھہرائیں اور کون مانے گا کہ وطن عزیز کو اِن حالات تک پہنچانے کا وہ ذمے دار ہے۔ عوام کہتے ہیں کہ تاریخ ساز مہنگائی نے جینے کے قابل نہیں چھوڑا، جینا مشکل اور مرنا آسان معلوم ہوتا ہے۔
بے روزگاری پھیل رہی ہے، نئے روزگار پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ خوراک کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں مگر خریدار کے سوا محسوس کرنے والا کوئی نہیں کہ غریب، بے روزگار اور سفید پوش کن حالات سے گذر رہے ہیں، آیا وہ پاکستانی پیٹ بھرکر روٹی کھا بھی رہے ہیں یا نہیں۔
صحت کے مسائل بھی غیر معمولی حد تک بڑھ چکے ہیں، صنعت کار سراپا احتجاج ہیں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ گیس اور بجلی بے حد مہنگی ہے کیا بنائیں اور کیا بیرون ملک برآمد کریں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ مال بندرگاہ پر پڑا ہے لیکن ادائیگی کے لیے ڈالر ہی دستیاب نہیں ہیں تو کیا لائیں اور کیا بیچیں مگر جنھوں نے اِن پسے ہوئے پاکستانیوں اور تمام شعبوں کی آواز سننی ہے اور انھیں زندہ رہنے کے لیے جواز اور آسانیاں فراہم کرنی ہیں۔
وہ بظاہر متوجہ نظر نہیں آتے ، وہ ایسے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں جو عام پاکستانی کے مسائل نہیں ہیں۔ قوم بے سکونی اور افراتفری کی کیفیت سے گذر رہی ہے، ایک افواہ پوری قوم کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے کیونکہ ملکی حالات ہی ایسے ہیں مگر حاکم اور محکوم کے مسائل اور ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو اِن مشکل حالات کا ادراک کرنا چاہیے، صرف دلجوئی کافی نہیں اب پوری توجہ اُن چیلنجز پر مرکوز کریں جو درحقیقت توجہ طلب چیلنجز ہیں اور جن کی وجہ سے ملک و قوم کئی لحاظ سے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔
قومیں قربانیاں دے کر نام اور پہچان بناتی ہیں، اِس کے لیے قائدین پہلے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں لہٰذا اب عوام کے پیٹ مزید چاک کرنے کے بجائے مسائل کا حقیقی حل تلاش کریں اور اب بھی سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد کے لیے ایک پیج پر نہ آئی نہ تو یقیناً مسائل سنگین سے سنگین تر اور کم ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے، لہٰذا سوچیں کہ عوام کس مشکل وقت سے گذر رہے ہیں اور انھیں کیسے اِن بحرانوں سے باہر نکالنا ہے۔
معیشت پر غیرملکی اور ملکی قرضوں کا بوجھ غیرمعمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔افسوس تو اِس رویے کا ہے کہ ہم قرض اور اپنے عوام کی حالت دکھا کر مدد مانگتے ہیں اور مدد ملنے پر اپنی قوم سے اپنی صلاحیتوں کی داد بھی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کمزورہے جس کا ذمے دار ہم کسی اور کو قرار نہیں دے سکتے۔ ہماری کمزوری، ہماری اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ چند ممالک کا ہماری خارجہ پالیسی پر گہرا سایہ ہے جس کا اثر ہمارے فیصلوں پر بھی پڑتا ہے۔
امریکا، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ چند ممالک ہیں جو بہت اہم ہیں۔ امریکا اور چین بڑے ملک ہیں اس لیے ان کا اثر ایک قدرتی امر ہے۔ ترکی نے بھی پچھلے سات آٹھ سال میں پاکستان میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے ۔ خارجہ پالیسی بناتے وقت ہمیں تضادات، قومی مفادات اور دور اندیشی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا جس میں ہم ناکام رہے۔
اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر جن اَہم چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں چین اور امریکا کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور اَمریکا کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جب کہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں مگر اَفغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے کچھ تازہ واقعات کی بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں افغانستان میں موجود داعش اور ٹی ٹی پی سے ٹف ٹائم مل سکتا ہے جب کہ افغانستان کی حکومت ان گروپوں پر قابو پانے میں ناکام چلی آرہی ہے۔
یوں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگیجاری رہ سکتی ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر لگائی گئی باڑ کو اکھاڑنے اور پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات spoilers کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد کے لیے بہتر ہے۔
امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکا کی چین کے ساتھ جاری تجارتی چپقلش سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے، کیونکہ ماضی میں امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ پختگی آئی ہے۔ چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی اسٹرٹیجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
CPEC عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر ہمہ وقت ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی ایک مشکل چیلنج ہے، ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل کام ہے۔
عالمی سیاست میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش اور اثرورسوخ کی دوڑ میں پاکستان کے لیے غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے ایک متوازن اپروچ اِختیار کرنا ایک اہم اور مشکل چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق نمٹا جائے اور کسی بھی قسم کی مثالیت پرستی کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرنا چاہیے ۔
عوام کی اکثریت بے چینی کا شکار ہے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ حالات بہتر ہوںگے یا بدتر، مہنگائی کم ہوگی یا بڑھے گی، روزگار ملے گا یا مواقعے مزید کم ہوں گے، اشیائے ضروریہ اور اشیائے خور و نوش عام اور غریب پاکستانیوں کی دسترس میں ہوں گی یا مزید دور ہوں گی، بجلی کب سستی ہوگی، گیس کب دستیاب ہوگی، پٹرول کی قلت تو نہیں ہوگی، پٹرول نایاب ہوا تو کیسے سفر کریں گے۔
نظام زندگی رک تو نہیں جائے گا، ایسے بے شمار خدشات اور سوالات ہیں جن کے جواب عام پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں لیکن ہر کوئی نجومی کے طوطے کی طرح رٹے رٹائے جوابات دے کر پوچھنے والے کو نئی سمت دے دیتا ہے۔ وطن عزیز کوداخلی طور پر بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں، بسا اوقات تو سیاسی قائدین بھی اِس پر لب کشائی کرتے ہیں مگر ایسا تب ہی ہوتا ہے جب وہ برسراقتدار نہیں ہوتے اور اُن کی اُس وقت حزب اقتدار کے سامنے ایک نہیں چلتی لہٰذا سچ اُگلنے کا فریضہ جبھی ادا ہوتا ہے مگر اقتدار کی کایا پلٹ جائے تو وہ تمام وعدے، ارادے اور موقف بدل جاتے ہیں، پھر سابقین کو مورود الزام ٹھہرانے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے ۔
جب وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا اُن نامساعد حالات اور بے شمار چیلنجز کے باوجود ہم نے خلوص نیت کے ساتھ پیروں پر کھڑا ہونے کا عزم مصمم کیا لہٰذا ہماری عالمی سطح پر توقیر بھی بڑھی اور بڑی طاقتیں ہماری جانب متوجہ بھی ہوئیں مگر قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے جانثار رفقا کے بعد ہم اُس درجے پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا سفر بہت مشکل ہوگیا ہے۔
کس کو قصور وار ٹھہرائیں اور کون مانے گا کہ وطن عزیز کو اِن حالات تک پہنچانے کا وہ ذمے دار ہے۔ عوام کہتے ہیں کہ تاریخ ساز مہنگائی نے جینے کے قابل نہیں چھوڑا، جینا مشکل اور مرنا آسان معلوم ہوتا ہے۔
بے روزگاری پھیل رہی ہے، نئے روزگار پیدا نہیں ہورہے ہیں۔ خوراک کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں مگر خریدار کے سوا محسوس کرنے والا کوئی نہیں کہ غریب، بے روزگار اور سفید پوش کن حالات سے گذر رہے ہیں، آیا وہ پاکستانی پیٹ بھرکر روٹی کھا بھی رہے ہیں یا نہیں۔
صحت کے مسائل بھی غیر معمولی حد تک بڑھ چکے ہیں، صنعت کار سراپا احتجاج ہیں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ گیس اور بجلی بے حد مہنگی ہے کیا بنائیں اور کیا بیرون ملک برآمد کریں، کوئی شعبہ کہتا ہے کہ مال بندرگاہ پر پڑا ہے لیکن ادائیگی کے لیے ڈالر ہی دستیاب نہیں ہیں تو کیا لائیں اور کیا بیچیں مگر جنھوں نے اِن پسے ہوئے پاکستانیوں اور تمام شعبوں کی آواز سننی ہے اور انھیں زندہ رہنے کے لیے جواز اور آسانیاں فراہم کرنی ہیں۔
وہ بظاہر متوجہ نظر نہیں آتے ، وہ ایسے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں جو عام پاکستانی کے مسائل نہیں ہیں۔ قوم بے سکونی اور افراتفری کی کیفیت سے گذر رہی ہے، ایک افواہ پوری قوم کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے کیونکہ ملکی حالات ہی ایسے ہیں مگر حاکم اور محکوم کے مسائل اور ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو اِن مشکل حالات کا ادراک کرنا چاہیے، صرف دلجوئی کافی نہیں اب پوری توجہ اُن چیلنجز پر مرکوز کریں جو درحقیقت توجہ طلب چیلنجز ہیں اور جن کی وجہ سے ملک و قوم کئی لحاظ سے خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔
قومیں قربانیاں دے کر نام اور پہچان بناتی ہیں، اِس کے لیے قائدین پہلے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں لہٰذا اب عوام کے پیٹ مزید چاک کرنے کے بجائے مسائل کا حقیقی حل تلاش کریں اور اب بھی سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد کے لیے ایک پیج پر نہ آئی نہ تو یقیناً مسائل سنگین سے سنگین تر اور کم ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے، لہٰذا سوچیں کہ عوام کس مشکل وقت سے گذر رہے ہیں اور انھیں کیسے اِن بحرانوں سے باہر نکالنا ہے۔