ڈاکٹر ادیب رضوی سالگرہ مبارک آخری حصہ

ہمارے ملک میں انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والوں کے دشمن بہت ہوتے ہیں

zahedahina@gmail.com

مجھے پیرس کے ایک اسپتال میں دم توڑتے ہوئے پرنسس ڈیانا یاد آتی ہے جس نے ڈاکٹروں کو یہ وصیت کی کہ اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے بدن کے وہ اعضاء نکال لیے جائیں جن کی کسی بھی انسان کے جسم میں پیوند کاری کی جاسکتی ہو۔

یہ ایک بجھتی ہوئی شمع کی آرزو تھی، دوسروں کی زندگیوں کا چراغ روشن کرنے کی آرزو۔ اس رات شہزادی کے بدن سے دو قرنیے، ایک پھیپھڑا، دونوں گردے، لبلبہ، جگر اور کھال کے چند ٹکڑے نکال لیے گئے اور چند گھنٹوں کے اندر فرانس، بیلجیئم، انگلینڈ اور نیدر لینڈ کے 8 بچوں اور بڑوں کے بدن میں ان کی پیوند کاری کر دی گئی۔

شہزادی کا یہ عطیہ ان لوگوں کی زندگی بدل گیا جن میں سب سے چھوٹی بچی 8 برس کی تھی اور سب سے بڑی عورت کی عمر 33 برس تھی۔ یورپ اور امریکا میں ایسی وصیت کوئی انوکھی بات نہیں لیکن شہزادی ڈیانا کے اس عطیے کو کچھ عرصے تک پوشیدہ رکھا گیا۔

اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ شہزادی کے عطیات جن لوگوں کا جزو بدن ہوئے ہیں انھیں فوری طور پر اخبارات کے نمایندوں اور ٹیلی ویژن کیمروں کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عام ہوگئی۔ آج جب ڈیانا کو خاک ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے تب بھی وہ آٹھ انسانوں کے بدن میں زندہ ہے۔

اپنی موت کے بعد، زندگی کا تحفہ دوسروں کو دینے کے حوالے سے سری لنکا کی مثال نہیں ملتی۔ 1961 میں سری لنکا آئی ڈونیشن سوسائٹی قائم ہوئی جس نے قرنیہ کی پیوند کاری کے لیے عطیات اکٹھا کرنا شروع کیے۔ یہ ادارہ اب تک دنیا کے 57 ملکوں کے لوگوں کو بینائی عطا کرچکا ہے۔

یہاں سے سالانہ 3 ہزار سے زیادہ قرنیے ساری دنیا کو بھیجے جاتے ہیں اور اس وقت کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہزاروں افراد سری لنکا سے آنے والے قرنیوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔

اس کے لیے ہم سب کو ڈاکٹر ہڈسن ڈی سلوا کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ' دیش بندھو ' کہلاتے ہیں۔1961 میں انھوں نے اپنی بیوی ارانگنی ڈی سلوا کے ساتھ مل کر قرینے اکٹھا کرنے اور ملک سے باہر عطیہ بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔ سری لنکا میں رہنے والوں کی اکثریت بودھ مت کے ماننے والوں کی ہے جن کے یہاں 'دان' سے بڑی کوئی نیکی نہیں۔

ڈاکٹر ادیب رضوی اپنی پوری زندگی دکھی انسانوں کی خدمت کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ جب کورونا کی وبا آئی تو ان کے ادارے نے اپنے کام کو پہلے سے تیز کر دیا۔ ایس آئی یو ٹی کا پورا عملہ باقاعدگی سے مریضوں کے علاج میں مصروف رہا۔ انھوں نے اس وقت کورونا کے شکار لوگوں کا علاج کیا جب کوئی دوسرا اسپتال انھیں قبول کرنے پر تیار نہیں تھا۔


اپنے مقصد سے ان کی لگن کا یہ عالم ہے کہ انھیں جو بھی ایوارڈ اور انعام ملے اس کی تمام رقم اپنے ادارے کو عطیہ کردی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے موقع پر مہمانوں نے جو پیسے اور تحائف دیے انھوں نے وہ بھی ایس آئی یو ٹی میں جمع کروا دیے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی ادارے کے قیام کے اولین دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ہمارے پاس نہ بستر تھے اور نہ دواؤں کے لیے پیسے تھے۔ میرا کوئی دوست جب بھی ملنے آتا تھا تو میں اس کے بٹوے سے سارے پیسے نکال لیا کرتا تھا۔

جس دوست سے بھی ملنے اس کے گھر جایا کرتا تھا تو وہاں جہاں بھی کوئی سفید چادر بچھی یا رکھی نظر آتی میں بغیر پوچھے اسے اسپتال کے بیڈ پر بچھانے کے لیے اٹھا لاتا تھا۔ یہ کام میں نے اتنے بڑے پیمانے پر کیا کہ دوستوں نے مجھے چادر چور کے نام سے مشہور کردیا۔

ڈاکٹر ادیب رضوی عبدالستار ایدھی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی صحت کا ہر طرح سے خیال رکھا کرتے تھے۔ ایدھی صاحب اپنی صحت کی پروا کیے بغیر خدمت خلق میں دن رات مصروف رہا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے گردے تیزی سے متاثر ہونے لگے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی نے ایدھی صاحب کا دس سال تک علاج کیا۔ ایدھی صاحب کے گردوں نے کام کرنا ختم کردیا تھا لہٰذا ایس آئی یو ٹی میں کئی سال تک ان کا ڈائیلائسز ہوتا رہا۔ مجھے آج بھی وہ پریس کانفرنس یاد آتی ہے جس میں ایدھی صاحب، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پریس کانفرنس میں ڈاکٹر ادیب رضوی نے بتایا کہ ایدھی صاحب کے گردوں کی پیوند کاری ہوگی اور اس دوران ان کا مشین سے خون صاف کیا جاتا رہے گا۔

ایدھی صاحب بالکل مطمئن نظر آرہے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ایدھی صاحب نے اپنی پوری زندگی دو سوتی جوڑوں میں گزار دی۔ ایک دھویا تو دوسرا پہنا۔ جب ایک جوڑا پھٹ کر پہننے کے قابل نہ رہا تو دوسرا جوڑا سلوا لیا۔ بڑے بڑے حادثوں کے جائے وقوع پر پہنچتے اور خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں یا نیم مردہ لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے۔ اپنی ایمبولنسوں میں لٹاتے اور پھر ان کے ساتھ قریب ترین ایدھی سینٹر جاتے جہاں مُردوں کو نہلانا، دھلانا، کفنانا ان کی ذاتی ذمے داری تھی۔

ہمارے ملک میں انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والوں کے دشمن بہت ہوتے ہیں۔ ایدھی صاحب کے دشمنوں نے انھیں کبھی ہندوستان اور کبھی اسرائیل کا ایجنٹ کہا۔ انھوں نے ہزاروں لاوارث لاشیں دفن کیں تو ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ان لاشوں سے گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں۔ کون سے دشنام اور الزام سے وہ اور بلقیس محفوظ رہے لیکن دونوں کی پیشانی پر شکن نہ آئی اور وہ اپنا کام کرتے رہے۔

پاکستان کے لیے اس سے بڑا اعزازکیا ہوگا کہ ایس آئی یو ٹی دنیا کا واحد اسپتال ہے جہاں گردوں اور جگر کی پیوند کاری، آپریشن کے بعد باقاعدہ معائنہ اور عطیہ کرنے والوں کی مکمل دیکھ بھال بالکل مفت کی جاتی ہے۔

ادیب رضوی کے ساتھ گارڈ نہیں چلتے، وہ بلٹ پروف گاڑی میں سفر نہیں کرتے ۔ یہ سب قصہ کہانیوں کی سی باتیں محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ہم نے پون صدی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے دیا ہے جہاں انسان دوستی کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے، میری آرزو ہے کہ ڈاکٹر ادیب رضوی کی یہ روایت چلتی رہے۔
Load Next Story