فل کورٹ
چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے پہلے دن ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے پہلے دن ہی فل کورٹ کا نہ صرف اجلاس بلایا بلکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فل کورٹ سماعت بھی کی۔ یہ سماعت پوری قوم نے لائیو دیکھی۔ اس سماعت پر مختلف تجزیہ نگار نے مختلف رائے دی ہے۔
بہر حال 2019سے اس ملک کی سپریم کورٹ میں کوئی فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا۔ جو کام چار سال سے نہیں ہوا تھا وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دن میں ممکن کر دیا ہے۔
جس کام کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اناکا مسئلہ بنایا ہوا تھا، وہ کام موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہایت آسانی سے کر دیا۔
ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز میں بہت تقسیم ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے فل کورٹ ممکن نہیں۔ یہ سب دلیلیں اور مفروضے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ فل کورٹ سماعت ہو گئی ہے،ساری قوم نے دیکھ لیا ہے۔
کچھ دوستوں نے ا س بات پر بہت شور مچایا ہے کہ فل کورٹ سماعت کے دوران ججز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اختلاف کر کے پہلے دن ہی ان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
مجھے ان دوستوں سے بہت ہمدردی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی رائے الگ الگ ہے، یہ سب کو معلوم ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر ججز کی اپنی اپنی سوچ ہے، اس لیے آئینی و قانونی تشریحات میں اختلاف ہونا، معمول کا عدالتی عمل ہوتا ہے ، لہٰذا یہ کوئی خبر نہیں ہے۔
خبر یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں برادرججز کو ایک دوسرے کے ساتھ قانونی دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے کا پورا موقع دیا ہے۔ ہمیں ججز کے دلائل کو دیکھنا چاہیے، ان دلائل کو اختلاف نہیں کہنا چاہیے۔ یہ ایک صحت مند نظام انصاف کی نشانی ہے، اس کو بند کرنا غلط تھا، اس کو ہونے دینا درست ہے۔
میں سمجھتا ہوں ججز کے درمیان ایک بہترین مکالمہ تھا۔ ججز کی تیاری بھی خوب تھی۔ سب کے دلائل انتہائی مدلل اور پرمغز تھے تاہم وکلاء کی تیاری نہایت بری تھی۔
صاف لگ رہا تھا کہ ان کی تیاری پوری نہیں تھی، ان کے پاس ججز کے دلائل اورسوالات کے کوئی جواب نہیں تھے۔ وہ قانونی سوالات پر ایسے کھڑے نظر آرہے تھے جیسے طالب علم کو امتحانی سینٹر میں پیپر نہ آتا ہو تو وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کسی بھی وکیل کی کوئی تیار ی نہیں تھی۔ کسی کے پاس بھی ججز کے قانونی سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ اگر چیف جسٹس خود یہ نہ چاہتا ہو کہ مقدمے کا فیصلہ کیاہونا چاہیے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ساتھی ججز کی کیا رائے ہے اور وہ مقدمے کا کیا فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رائے ضرور دی ہے لیکن کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو، انھیں قبول ہوگا، اس لیے ان کو کوئی پریشانی نظر نہیں آئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پہلی دفعہ قوم کو دیکھنے کا موقع ملا کہ ان کے ججز کی قانون اور آئین کے بارے میں کیا سوچ ہے۔ وہ اہم قانونی اور آئینی معاملات کو کیسے دیکھتے ہیں،ان کی سوچ اور منطق کیا ہے۔
ایک طرف جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کی سوچ نظر آئی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل جب کوئی برا قانون نہیں ہے، جب سب مان رہے ہیں کہ یہ ایک اچھا قانون ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ کیا صرف یہ مسئلہ ہے کہ یہ قانون پارلیمان نے بنایا ہے، اس لیے ہمیں قبول نہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ عوام کے نمایندے یہ قانون بنائیں تو غلط ہے لیکن ہم غیر منتخب پندرہ جج یہی قانون بنا دیں توٹھیک ہے۔
کیوں ؟ دوسری طرف جسٹس منیب اختر کا موقف تھا کہ بات صحیح یا غلط قانون کی نہیں ہے۔ بات اصول کی ہے اگر آج ہم ایک اچھے قانون کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ پارلیما ن کو عدلیہ کے بارے میں قانون بنانے کی اجازت ہے تو کل ہمیںکسی غلط قانون کے لیے بھی ان کا یہ حق ماننا پڑے گا۔ جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف تھا کہ صرف اس مفروضے پرکہ کل کوئی غلط قانون بن جائے گا، آج ایک ٹھیک قانون کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔
ایک جج صاحب نے یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ پھر تین سینئر ترین ججز بنچ کیوں بنائیں، پانچ یا سات کیوں نہیں، تین کی کیا منطق ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کچھ ممالک میں فل کورٹ بیٹھ کر بنچ بناتا ہے۔ کہیں بیلٹ سے بنتے ہیں۔ سب ممالک میں الگ الگ طریقہ کار موجود ہے۔ لیکن معاملے میں شفافیت لانے کی سب ممالک کے نظام انصاف نے کوشش کی ہے۔
ہمیں بھی اس طر ف ٖ قدم بڑھانا چاہیے۔ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا چیف جسٹس کے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے سے عدلیہ کمزور ہوگی یا عدلیہ مضبوط ہوگی۔ عدلیہ کی مضبوطی کا مطلب مضبوط چیف جسٹس ہے یا مضبوط سپریم کورٹ ۔ کیا ہم چیف جسٹس کو تمام اختیارات دے کر عدلیہ کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
ویسے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹول نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کھلی عدالت میں کہا کہ انھیں زیادہ اختیارات نہیں چاہیے۔ اگر ان کے اختیارات کم ہوتے ہیں تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ وہ خوش ہوںگے۔ شاید وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہوںگے جو اپنے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے کے لیے تیارہیں۔ یہی فرق چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس صاحبان عمر عطاء بندیال، ثاقب نثار اور گلزار سے ممتا ز کر رہا ہے۔
ایک طرف طاقت واختیارات کے دلدادہ نظر آرہے جنھوں نے اپنے اختیارات اور طاقت کے لیے سب کچھ کیا، دوسری طرف طاقت سے بے نیاز چیف جسٹس نظر آرہا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں سب کو پتہ ہے کہ ججز میں تقسیم ہے، چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو بھی پتہ ہے کہ کون ان کا ہم خیال ہے کون نہیں ہے۔ لیکن وہ سب کی رائے سے چلنے کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے پہلے دن ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ انھوں نے مارشل لا کی توثیق سے لے کر تمام غلط فیصلوں کی بات کی ہے۔ ریکوڈک میں پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانے کی بھی بات کی ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے، مطلب وہ ایسے فیصلے بھی نہیں کرنا چاہتے۔
بہر حال 2019سے اس ملک کی سپریم کورٹ میں کوئی فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا۔ جو کام چار سال سے نہیں ہوا تھا وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دن میں ممکن کر دیا ہے۔
جس کام کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اناکا مسئلہ بنایا ہوا تھا، وہ کام موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہایت آسانی سے کر دیا۔
ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز میں بہت تقسیم ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے فل کورٹ ممکن نہیں۔ یہ سب دلیلیں اور مفروضے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ فل کورٹ سماعت ہو گئی ہے،ساری قوم نے دیکھ لیا ہے۔
کچھ دوستوں نے ا س بات پر بہت شور مچایا ہے کہ فل کورٹ سماعت کے دوران ججز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اختلاف کر کے پہلے دن ہی ان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
مجھے ان دوستوں سے بہت ہمدردی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی رائے الگ الگ ہے، یہ سب کو معلوم ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر ججز کی اپنی اپنی سوچ ہے، اس لیے آئینی و قانونی تشریحات میں اختلاف ہونا، معمول کا عدالتی عمل ہوتا ہے ، لہٰذا یہ کوئی خبر نہیں ہے۔
خبر یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے کھلی عدالت میں برادرججز کو ایک دوسرے کے ساتھ قانونی دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے کا پورا موقع دیا ہے۔ ہمیں ججز کے دلائل کو دیکھنا چاہیے، ان دلائل کو اختلاف نہیں کہنا چاہیے۔ یہ ایک صحت مند نظام انصاف کی نشانی ہے، اس کو بند کرنا غلط تھا، اس کو ہونے دینا درست ہے۔
میں سمجھتا ہوں ججز کے درمیان ایک بہترین مکالمہ تھا۔ ججز کی تیاری بھی خوب تھی۔ سب کے دلائل انتہائی مدلل اور پرمغز تھے تاہم وکلاء کی تیاری نہایت بری تھی۔
صاف لگ رہا تھا کہ ان کی تیاری پوری نہیں تھی، ان کے پاس ججز کے دلائل اورسوالات کے کوئی جواب نہیں تھے۔ وہ قانونی سوالات پر ایسے کھڑے نظر آرہے تھے جیسے طالب علم کو امتحانی سینٹر میں پیپر نہ آتا ہو تو وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ کسی بھی وکیل کی کوئی تیار ی نہیں تھی۔ کسی کے پاس بھی ججز کے قانونی سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ اگر چیف جسٹس خود یہ نہ چاہتا ہو کہ مقدمے کا فیصلہ کیاہونا چاہیے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ساتھی ججز کی کیا رائے ہے اور وہ مقدمے کا کیا فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی رائے ضرور دی ہے لیکن کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو، انھیں قبول ہوگا، اس لیے ان کو کوئی پریشانی نظر نہیں آئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پہلی دفعہ قوم کو دیکھنے کا موقع ملا کہ ان کے ججز کی قانون اور آئین کے بارے میں کیا سوچ ہے۔ وہ اہم قانونی اور آئینی معاملات کو کیسے دیکھتے ہیں،ان کی سوچ اور منطق کیا ہے۔
ایک طرف جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کی سوچ نظر آئی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل جب کوئی برا قانون نہیں ہے، جب سب مان رہے ہیں کہ یہ ایک اچھا قانون ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ کیا صرف یہ مسئلہ ہے کہ یہ قانون پارلیمان نے بنایا ہے، اس لیے ہمیں قبول نہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ عوام کے نمایندے یہ قانون بنائیں تو غلط ہے لیکن ہم غیر منتخب پندرہ جج یہی قانون بنا دیں توٹھیک ہے۔
کیوں ؟ دوسری طرف جسٹس منیب اختر کا موقف تھا کہ بات صحیح یا غلط قانون کی نہیں ہے۔ بات اصول کی ہے اگر آج ہم ایک اچھے قانون کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ پارلیما ن کو عدلیہ کے بارے میں قانون بنانے کی اجازت ہے تو کل ہمیںکسی غلط قانون کے لیے بھی ان کا یہ حق ماننا پڑے گا۔ جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف تھا کہ صرف اس مفروضے پرکہ کل کوئی غلط قانون بن جائے گا، آج ایک ٹھیک قانون کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔
ایک جج صاحب نے یہ نقطہ بھی اٹھایا کہ پھر تین سینئر ترین ججز بنچ کیوں بنائیں، پانچ یا سات کیوں نہیں، تین کی کیا منطق ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کچھ ممالک میں فل کورٹ بیٹھ کر بنچ بناتا ہے۔ کہیں بیلٹ سے بنتے ہیں۔ سب ممالک میں الگ الگ طریقہ کار موجود ہے۔ لیکن معاملے میں شفافیت لانے کی سب ممالک کے نظام انصاف نے کوشش کی ہے۔
ہمیں بھی اس طر ف ٖ قدم بڑھانا چاہیے۔ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا چیف جسٹس کے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے سے عدلیہ کمزور ہوگی یا عدلیہ مضبوط ہوگی۔ عدلیہ کی مضبوطی کا مطلب مضبوط چیف جسٹس ہے یا مضبوط سپریم کورٹ ۔ کیا ہم چیف جسٹس کو تمام اختیارات دے کر عدلیہ کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
ویسے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹول نہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے کھلی عدالت میں کہا کہ انھیں زیادہ اختیارات نہیں چاہیے۔ اگر ان کے اختیارات کم ہوتے ہیں تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ وہ خوش ہوںگے۔ شاید وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہوںگے جو اپنے اختیارات ایک کمیٹی کو دینے کے لیے تیارہیں۔ یہی فرق چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس صاحبان عمر عطاء بندیال، ثاقب نثار اور گلزار سے ممتا ز کر رہا ہے۔
ایک طرف طاقت واختیارات کے دلدادہ نظر آرہے جنھوں نے اپنے اختیارات اور طاقت کے لیے سب کچھ کیا، دوسری طرف طاقت سے بے نیاز چیف جسٹس نظر آرہا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں سب کو پتہ ہے کہ ججز میں تقسیم ہے، چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو بھی پتہ ہے کہ کون ان کا ہم خیال ہے کون نہیں ہے۔ لیکن وہ سب کی رائے سے چلنے کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے پہلے دن ہی یہ تسلیم کیا ہے کہ عدلیہ سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ انھوں نے مارشل لا کی توثیق سے لے کر تمام غلط فیصلوں کی بات کی ہے۔ ریکوڈک میں پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانے کی بھی بات کی ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے، مطلب وہ ایسے فیصلے بھی نہیں کرنا چاہتے۔