چولستان کے عوام کی جدوجہد
چولستان کے لوگوں کا سرمایہ صحرا میں بکنے والے جانور مثلاً اونٹ، بکریاں اور بھیڑیں ہیں
چولستان جنوبی پنجاب کا صحرائی علاقہ ہے جو بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان سے لے کر بھارت کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ 76 برسوں سے صرف ریت کے ٹیلوں پر مشتمل چولستان غربت اور پسماندگی کی انتہاؤں پر ہے۔
اس صحرا کا رقبہ 26300کلومیٹر (10200 Sq...) ہے۔ اس صحرا کو روحی بھی کہا جاتا ہے۔ صحرائے تھرکا مغربی حصہ ہے ۔ چولستان میں کبھی دریائے ہیکڑا بہتا تھا ۔ جب دریائے ہیکڑا بہتا تھا تو علاقہ میں زراعت ہوتی تھی۔ چولستان کی آبادی 1,55,000 ہے۔ چولستان میں 13,18,000 جانور ہیں۔ چولستان کے تینوں اضلاع میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہندو آباد ہیں۔ پنجاب کے 25 ضلعوں میں یہ ہندوؤں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔
چولستان کے لوگوں کا سرمایہ صحرا میں بکنے والے جانور مثلاً اونٹ، بکریاں اور بھیڑیں ہیں۔ یہ جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کے بال قالین بانی میں کام آتے ہیں۔ چولستان کی سفید گائے دودھ دینے کے اعتبار سے شہرت رکھتی ہے۔ سفید گائے روزانہ 13 سے 15 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائی چولستان کے ٹوبوں کے گرد مسکن بناتے ہیں۔ ٹوبا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہا جاتا ہے۔
برسات کے دنوں میں یہ ٹوبے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر ہندو بھی یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔
چولستان کے باسیوں کی زندگیوں کا دارومدار بارش کے پانی پر ہوتا ہے مگر پانی کی سطح میں خاصی کمی پیدا ہوئی ہے، یوں آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چولستان کی زمین پر غیرچولستانیوں کی نظریں گڑی ہوئی ہیں، یوں زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کی ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے چولستان کا دورہ کیا اور ایک جامع رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2010سے زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ چل رہا ہے۔ پہلے بے زمین چولستان کے باشندوں سے الاٹمنٹ کے لیے درخواستیں وصول کی گئیں۔
ان درخواستوں کی اسکروٹنی کا عمل مکمل ہوا مگر الاٹمنٹ آرڈر جاری نہیں کیے گئے، دوبارہ 2013ء میں درخواستیں طلب کی گئیں۔ اب تقریباً 53000 درخواستیں موصول ہوئیں۔ بعد از اسکروٹنی تقریباً 4 ہزار درخواستوں کی قرعہ اندازی کی گئی لیکن پھر الاٹمنٹ آرڈر جاری نہیں ہوسکے۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت قائم ہوئی تو الاٹمنٹ کی پالیسی کو تبدیل کردیا گیا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء میں پھر درخواستیں طلب کی گئیں اور اس سال تک اسکروٹنی کا عمل جاری رہا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے تقریباً 41 ہزار درخواستوں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا اہل قرار دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت کچھ زمینیں الاٹ کی گئیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں جب چولستان کے مقامی لوگوں کی عرض داشت پر فوری طور پر الاٹمنٹ جاری کرنے کے احکامات ہوئے تو چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ 15 اگست 2023تک قرعہ اندازی کے لیے تمام درخواستوں کی فہرستیں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو بھیج دی گئی ہیں۔
عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ عمل 16 اگست 2023 تک مکمل کردیا جائے گا، مگر یہ کام ہنوز مکمل نہیں ہوسکا۔ چولستان کے عوام چاہتے ہیں کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ جلد سے جلد الاٹمنٹ آرڈی جاری کیے جائیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔ چولستان کے انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایچ آر سی پی سے رابطہ کیا۔
ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن حنا جیلانی کی قیادت میں فیکٹ فائنڈنگ وفد نے چولستان کے تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور حقائق جمع کیے۔ ان حقائق پر مشتمل جامع رپورٹ تیار کی گئی جسے ذرایع ابلاغ پر نشر کیا گیا۔
معاملات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو 11 ستمبر کو بہاولپور میں احتجاجی مظاہرے اور ایک کنونشن منعقد کرنے کا اعلان ہوا اور پریس کانفرنس کی جائے گی۔ بعض لوگوں نے ایچ آر سی پی کے کنونشن اور مظاہرہ کے خلاف مہم شروع کردی اور یہ الزام لگایا کہ ایچ آر سی پی کی اس جدوجہد کا مقصد پی پی 247 کی نشست پر ٹکٹ کا حصول ہے۔
یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون شخص انتخاب میں حصہ لینا چاہتاہے مگر اس مہم کے نتائج سامنے آئے اور مقامی انتظامیہ نے ایچ آر سی پی کے مظاہرہ اورکنونشن پر پابندی عائد کر دی۔ ایچ آر سی پی نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے مظاہرہ اور کنونشن کا پروگرام منسوخ کیا۔ ایچ آر سی پی کے متحرک کارکن خواجہ آصف کا بیانیہ ہے کہ چولستان میں ہندو برادری استحصال کا شکار ہے، ان کے گاؤں بجلی اور گیس وغیرہ سے محروم ہیں۔
اس صحرا کا رقبہ 26300کلومیٹر (10200 Sq...) ہے۔ اس صحرا کو روحی بھی کہا جاتا ہے۔ صحرائے تھرکا مغربی حصہ ہے ۔ چولستان میں کبھی دریائے ہیکڑا بہتا تھا ۔ جب دریائے ہیکڑا بہتا تھا تو علاقہ میں زراعت ہوتی تھی۔ چولستان کی آبادی 1,55,000 ہے۔ چولستان میں 13,18,000 جانور ہیں۔ چولستان کے تینوں اضلاع میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہندو آباد ہیں۔ پنجاب کے 25 ضلعوں میں یہ ہندوؤں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔
چولستان کے لوگوں کا سرمایہ صحرا میں بکنے والے جانور مثلاً اونٹ، بکریاں اور بھیڑیں ہیں۔ یہ جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کے بال قالین بانی میں کام آتے ہیں۔ چولستان کی سفید گائے دودھ دینے کے اعتبار سے شہرت رکھتی ہے۔ سفید گائے روزانہ 13 سے 15 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائی چولستان کے ٹوبوں کے گرد مسکن بناتے ہیں۔ ٹوبا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہا جاتا ہے۔
برسات کے دنوں میں یہ ٹوبے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر ہندو بھی یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔
چولستان کے باسیوں کی زندگیوں کا دارومدار بارش کے پانی پر ہوتا ہے مگر پانی کی سطح میں خاصی کمی پیدا ہوئی ہے، یوں آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چولستان کی زمین پر غیرچولستانیوں کی نظریں گڑی ہوئی ہیں، یوں زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم HRCP کی ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے چولستان کا دورہ کیا اور ایک جامع رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2010سے زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ چل رہا ہے۔ پہلے بے زمین چولستان کے باشندوں سے الاٹمنٹ کے لیے درخواستیں وصول کی گئیں۔
ان درخواستوں کی اسکروٹنی کا عمل مکمل ہوا مگر الاٹمنٹ آرڈر جاری نہیں کیے گئے، دوبارہ 2013ء میں درخواستیں طلب کی گئیں۔ اب تقریباً 53000 درخواستیں موصول ہوئیں۔ بعد از اسکروٹنی تقریباً 4 ہزار درخواستوں کی قرعہ اندازی کی گئی لیکن پھر الاٹمنٹ آرڈر جاری نہیں ہوسکے۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت قائم ہوئی تو الاٹمنٹ کی پالیسی کو تبدیل کردیا گیا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء میں پھر درخواستیں طلب کی گئیں اور اس سال تک اسکروٹنی کا عمل جاری رہا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے تقریباً 41 ہزار درخواستوں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا اہل قرار دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت کچھ زمینیں الاٹ کی گئیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں جب چولستان کے مقامی لوگوں کی عرض داشت پر فوری طور پر الاٹمنٹ جاری کرنے کے احکامات ہوئے تو چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ 15 اگست 2023تک قرعہ اندازی کے لیے تمام درخواستوں کی فہرستیں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو بھیج دی گئی ہیں۔
عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ عمل 16 اگست 2023 تک مکمل کردیا جائے گا، مگر یہ کام ہنوز مکمل نہیں ہوسکا۔ چولستان کے عوام چاہتے ہیں کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ جلد سے جلد الاٹمنٹ آرڈی جاری کیے جائیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔ چولستان کے انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایچ آر سی پی سے رابطہ کیا۔
ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن حنا جیلانی کی قیادت میں فیکٹ فائنڈنگ وفد نے چولستان کے تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور حقائق جمع کیے۔ ان حقائق پر مشتمل جامع رپورٹ تیار کی گئی جسے ذرایع ابلاغ پر نشر کیا گیا۔
معاملات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو 11 ستمبر کو بہاولپور میں احتجاجی مظاہرے اور ایک کنونشن منعقد کرنے کا اعلان ہوا اور پریس کانفرنس کی جائے گی۔ بعض لوگوں نے ایچ آر سی پی کے کنونشن اور مظاہرہ کے خلاف مہم شروع کردی اور یہ الزام لگایا کہ ایچ آر سی پی کی اس جدوجہد کا مقصد پی پی 247 کی نشست پر ٹکٹ کا حصول ہے۔
یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون شخص انتخاب میں حصہ لینا چاہتاہے مگر اس مہم کے نتائج سامنے آئے اور مقامی انتظامیہ نے ایچ آر سی پی کے مظاہرہ اورکنونشن پر پابندی عائد کر دی۔ ایچ آر سی پی نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے مظاہرہ اور کنونشن کا پروگرام منسوخ کیا۔ ایچ آر سی پی کے متحرک کارکن خواجہ آصف کا بیانیہ ہے کہ چولستان میں ہندو برادری استحصال کا شکار ہے، ان کے گاؤں بجلی اور گیس وغیرہ سے محروم ہیں۔