ارتقائی سفرجاری ہے

ارتقاء کے اس اصول کے تحت جو ’’عضو‘‘ استعمال نہیں کیاجاتا، وہ آہستہ آہستہ کمزورہوتے ہوئے معدوم ہوجاتاہے

barq@email.com

عام طور پر سمجھا گیاہے اوربالکل غلط سمجھا گیا ہے کہ ''ارتقائ'' کا عمل جو کروڑوں، اربوں سال سے اورکروڑوں، اربوں حیوانوں اور دیگر جانداروں سے ہوتا ہوا ''انسان'' تک پہنچاہے لیکن اس دوپائے یعنی حضرت انسان پر آکر ختم ہوگیا ہے یا رک گیا ہے بلکہ وہ پونچھ سے ہوتا ہوا بغیر پونچھ ہوکر دو پاؤں پر کھڑا ہوا ہے، وہاں آگے اس میں ارتقا نہیں ہو رہا۔ چارلس ڈارون بھی یہی سمجھا تھا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اس کائنات میں ایسا ہوہی نہیں سکتا۔ارتقا کا عمل کبھی رک ہی نہیں سکتا۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک ''تغیر'' کو ہے زمانے میں

ہماری کائنات بھی حرکت میں ہے اور ہماری زمین پر ہر ہرلمحہ متحرک ہے، کوئی چیزرکتی نہیں ہے اور نہ سست رفتار ہوتی ہے۔ ''رکنا'' اس کائنات میں ممکن نہیں ہے کیونکہ قدرت کا اصول یہی ہے اور یہ اصول کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔

ایک یونانی دانشور اینکی مینڈر نے کہاہے کہ ہم کسی دریا میں اپنے ہاتھ دوبار نہیں دھوسکتے کیونکہ اگلے لمحے دوسرا دریا اوردوسرا پانی ہوتاہے ۔کیا کمال کی بات کی ہے یعنی دریاکا پانی مسلسل بہتا ہے اور جو قطرہ آگے ہے 'وہ پیچھے نہیں جا سکتا 'اس لیے ایک مقام پر کھڑے ہو کر پانی میں ہاتھ دھوئیں تو ہر لمحے نیا دریا اور نیا پانی ہو گا ۔

ہمارے اپنے دانشور ڈاکٹر پروفیسر چشم گل چشم عرف کووئڈ نائینٹین کا بھی کہنا ہے کہ آپ بازار میں سے کوئی بھی چیز دومرتبہ اسی قیمت پر نہیں خرید سکتے کیونکہ دوسرے دن، دوسرے گھنٹے، دوسرے منٹ اوردوسرے سیکنڈ قیمت آگے بڑھ چکی ہوتی ہے'اسی طرح ایک ہی چیز دوسری بار نہیں کھائی جاتی بلکہ ہر لقمہ ایک نیا لقمہ ہوتا ہے۔

تو ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ارتقا کاسفر انسان پر آکر ختم ہوگیا ہو یا رک گیاہے بلکہ ہمارے خیال میں تو اصل ارتقا کا سفر اب شروع ہوا ہے کیونکہ اس کی رفتار بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس لیے چیزوں میں بھی تبدیلی کا عمل بہت زیادہ ہو گیا ہے 'اب منٹوں سیکنڈوں سے بھی بات آگے بڑھ چکی ہے۔ اب پلک جھپکنے کا معاملہ بھی بہت پیچھے رہ چکا ہے۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا؟

آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا؟

مطلب کہنے کایہ ہے کہ ایک بگ بینگ سے جو سلسلہ ارتقائی سفر کاشروع ہواہے، وہ مسلسل آگے بڑھ رہاہے اوردوسرے بگ بینگ تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، مسلسل متحرک اورآگے بڑھتا ہواجب تک دوسرے بگ بینگ تک نہیں پہنچتا' ارتقائی سفر کبھی نہیں رک سکتا۔

اب دوسرا بک بینگ کب رونما ہو گا 'اس کے بارے میں آج کے وقت میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ میں نے جو ابھی لفظ لکھے ہیں' اب وقت اس سے آگے چلا گیا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزار جانوروں کو اپنے اجداد بناتا ہوا ''انسان'' آگے مزید ارتقا نہ کرے۔


وہ کررہاہے، مسلسل کررہاہے بلکہ کہیں کہیں تو کرچکا ہے اورانسان سے بڑھ کر کچھ ''اور'' بن چکاہے لیکن علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ ارتقاء کے سفر میں ایک مرحلے کے آخر اوردوسرے مر حلے کی ابتدا ایک جیسی ہوتی ہے، لگتا نہیں کہ اس میں تبدیلی آچکی ہے لیکن حقیقت میں وہ بدل چکا ہوتاہے ۔اوریہ ہم یونہی اڑا نہیں رہے ہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق کرکے تجربات ومشاہدات سے کام لے کر ہم نے پتہ چلایا ہے کہ انسان، انسان سے ارتقا کرکے اب انسان نہیں کچھ اوربن چکاہے۔

اب اس کچھ اورکا نام تو ابھی ہمارے ذہن میں نہیں آرہاہے لیکن فی الحال اس کا نام ''چیز'' فرض کرلیجیے یعنی بہت سے لوگ بظاہر انسان لگتے ہیں لیکن اصل میں انسان سے ایک سیڑھی اوپر ہوکر ''چیز'' ہوچکے ہیں، فرداً فرداً تو ہم ان''چیزوں'' کی نشان دہی تو نہیں کرسکیں گے کیوں کہ جو انسان چیز بن جاتے ہیں، وہ نہایت خونخوار بھی ہوجاتے ہیں ۔

یہ جب تک ''حیوان '' تھے تو بھوک لگنے پرانسان بنے، پیٹ بھرنے کے بعد دوسروں کوکھانے لگے اوراب جو جو ان میں ''چیزیں'' بن چکے ہیں وہ ''سب کچھ'' اورہروقت کھاتے رہتے ہیں بلکہ ''پیتے'' بھی ہیں اورصرف انسانوں کا لہو پیتے ہیں ۔یہی ان کی خوراک بن چکی ہے کیونکہ ارتقا کا عمل جاری ہے۔اس لیے ان کی کھانے اور پینے کی صلاحیت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔

ارتقائی مراحل میں اگرچہ فرق کرنا مشکل ہوتاہے لیکن پھربھی کچھ علامتوں سے پتہ لگایا جاسکتا ہے مثلاً ''بندر'' کے مرحلے میں یہ ''خوغیاتے'' تھے، انسان کے مرحلے میں بولنے اورباتیں کرنے لگے اوراب جب ''چیز'' بن چکے ہیں تو ''بیان'' دیتے ہیں ،لیکن اس سے بھی واضح ایک بات جو ہم نے معلوم کی ہے۔

وہ یہ ہے کہ ارتقاء کے ہرمرحلے سے اگلے مرحلے میں جانے کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کرتے رہتے ہیں ، حیوانی مرحلے سے انسانی مرحلے میں داخل ہونے کے لیے انسان نے ''دم'' کی قربانی دی تھی اوراب آگے کے مرحلے میں یعنی چیزبننے کے لیے شرم وحیا کی قربانی تو لازمی ہے وہ تو دینا ہی پڑتی ہے ۔

لیکن ایک اورنشانی بھی ہے لیکن اس کے لیے یہ جانکاری ضروری ہے کہ انسان کا تعلق کس کیٹگری سے ہے کیوں کہ انسان بننے کے بعد ان میں طبقات اورگروہ بھی بننے لگے ، ایک گروہ ان عام انسانوں کاہے جنھیںپیار سے کالانعام بھی کہتے ہیں اوراسٹوپڈ بھی ۔یہ انسان لگتے تو ہیں لیکن ہوتے نہیں دوسرا طبقہ یاگروہ ان لوگوں کا ہے ، لگتے تو انسان ہیں لیکن خود کو فرعون سمجھتے ہیں۔

اب ظاہرہے کہ جب دونوں کے درمیان اتنافرق انسانی مرحلے میں پیداہوا ہے تو اب ''چیز'' کے مرحلے میں تو اورزیادہ فرق ہوناچاہیے۔جس طرح بندروں نے انسان بننے کے لیے ''دم'' کی قربانی دی، اسی طرح انسانوں کے ان دوگروہوں نے بھی قربانی دی ہے لیکن الگ الگ۔وہ جو عوام ہیں انھوں نے ''دماغ'' کی قربانی دے کرخود کو ''چیز'' بنایاہے۔

ارتقاء کے اس اصول کے تحت جو ''عضو'' استعمال نہیں کیاجاتا، وہ آہستہ آہستہ کمزورہوتے ہوئے معدوم ہوجاتاہے چنانچہ انسانوں کی یہ دوسری کیٹگری جو اب ''چیز''بن چکی ہے، اپنے دماغ کو عدم استعمال سے کھوچکی ہے۔

اس کے برعکس وہ جو دوسرا طبقہ یاگروہ ہے انھوں نے دماغ کو کثرت استعمال سے بے پناہ طاقتوربنایا ہواہے جب کہ ''دل'' کو عدم استعمال کی وجہ سے کھو چکے ہیں چنانچہ اب چیزتو دونوں ہیں لیکن ایک کے پاس دل ہے دماغ نہیں جب کہ دوسرے طبقے کے پاس دماغ تو بڑا جمبو قسم کا ہوتاہے لیکن دل خشخاش کے دانے جتنا بھی نہیں ہوتا، اس وجہ سے ہم پہلے والوں کو ''شے'' بھی کہہ سکتے ہیں اوردوسرے والوں کو ''مہاشے''

عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے

عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

اورارتقا کایہ سفر جاری رہے گا جب بات وہاں نہیں پہنچ جاتی جہاں سے چلی تھی ۔
Load Next Story