ہنگامی صورتحال میں زندگی کیسے بچائیں
’بنیادی لائف سپورٹ‘ کی تربیت ناگہانی صورتحال میں بہت موثر ہے
ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے کو لائف سیورز یعنی جان بچانے کی تربیت کے لیے منسوب کیا گیا ہے۔ اس سال بھی 30 ستمبر کو یہ دن دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔
جب کسی انسان کو اچانک دل کا دورہ پڑ جائے یا سانس بند ہو جائے تو شعبہ طب سے وابستہ افراد اس مریض کو جو ابتدائی طبی امداد دیتے ہیں، اْس عمل کو بیسک لائف سپورٹ (BLS) کہا جاتا ہے۔ اس کی تربیت ہیلتھ کئیر ورکرز کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
'ورلڈ ہارٹ فیڈریشن' کے اندازے کے مطابق دل کی بیماریاں دنیا بھر میں اموات کا سبب بننے والی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق ہر سال تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد ان بیماریوں کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر اموات کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں دل کی بیماریوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دل کی بیماریاں پاکستان میں اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہیں۔
ہم اپنے دائیں بائیں اکثر اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اچانک کسی کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی ہے یا سانس کی بندش کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر وہاں موجود کسی فرد کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل ہو تو وہ تکنیکی مہارتیں بروئے کار لاتے ہوئے فوری طبی امداد کے ذریعے مریض کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
موجودہ دور میں اس ابتدائی طبی امداد کی ضرورت کے پیش نظر 2014ء میں برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (BIMA) نے مساجد اور اسلامک سینٹرز میں BLS کی ٹریننگ دینے کا آغاز کیا۔ اگلے سالوں میں 12سے زائد ممالک کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز نے بھی BLS ٹریننگ دینے کا آغاز کر دیا۔
ان تربیتی پروگرام کے مرکزی مخاطب عام لوگ ہوتے ہیں اور اسی بناء پر مساجد/ اسلامک سینٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان میں شریک کیا جا سکے اور انہیں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا سکے۔ پاکستان میں 2019ء سے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے تحت ''لائف سیورز ڈے'' منایا جارہا ہے اور گزشتہ سال 48 مساجد میں BLS ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا۔
بیسک لائف سپورٹ (BLS)
بی ایل ایس (BLS) کیا ہے؟ یہ بنیادی طور پر ایسے عمل کا نام ہے، جس میں شعبہ طب سے وابستہ افراد، مریضوں کو سانس بند ہونے یا دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد دیتے ہیں۔ بنیادی لائف سپورٹ کی تربیت مختلف ناگہانی صورتحال میں مریض کی جان بچانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔
دل کے دورے میں یا سانس بند ہونے کی صورت میں اگر مریض کو فوری اور مناسب توجہ نہ دی جائے تو مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ ایسے میں نہ صرف طبی عملے کو بلکہ معاشرے کے عام افراد کو بھی 'بی ایل ایس' کی تربیت لینے کی ضرورت ہے۔
اس تربیت میں طبی عملے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح اہم طبی ہنگامی حالتوں میں مناسب طریقے سے مریض کی زندگی کو بنیادی سپورٹ دی جا سکتی ہے۔
اگر آپ کو کبھی کسی جان لیوا ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں آپ کے کسی عزیز و اقارب کو دل کا دورہ پڑا ہو یا ان کی سانس بند ہوئی، تو آپ جان سکتے ہیں کہ یہ کس قدر تکلیف دہ اور خوفزدہ کردینے جیسا ہے۔
اس ہنگامی صورتحال میں اگر آپ اس شخص کی جان بچانے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسی تکنیکوں میں مہارت حاصل کریں جو اس موقع پر کسی انسان کی زندگی کو بچانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
بی ایل ایس کی ضرورت کب پڑتی ہے؟
'بی ایل ایس' میں ایسے کئی طرح کے طریقے شامل ہیں جن کا ضرورت کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف ناگہانی صورتحال جیسا کہ دل کا دورہ پڑنا، سانس بند ہونا، منہ میں کوئی چیز پھنس جانا، تو بی ایل ایس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس میں پیشہ ور افراد سی پی آر (Cardiopulmonary resuscitation) یا AED (Automated external defibrillator) یعنی خودکار ڈیفبریلیٹر سے مریض کے سینے پر دباؤ ڈالتے ہیں، یا کرنٹ دیتے ہیں، جس سے اس انسان کی زندگی کو کافی سپورٹ مل جاتی ہے اور اس کی زندگی بچ جاتی ہے۔
اس سپورٹ کو بروقت مہیا کرنے کے لیے اس طریقہ کو سیکھنا یعنی بی ایل ایس کی تربیت ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ عین وقت پر صحیح انداز میں مریض کی ابتدائی طبی امداد کی جا سکے۔
جب کوئی بی ایل ایس کی تربیت حاصل کرلیتا ہے تو انہیں اس بات کا کافی اعتماد آجاتا ہے کہ وہ اس طرح کی ناگہانی صورتحال میں کہ جس وقت عام لوگ خوف کی وجہ سے مریض کے قریب نہیں جا سکتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شائد اْن کے مریض کے قریب جانے سے مزید کوئی نقصان یا تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
اس مہارت کی بدولت ہم مریض کی جان بچا لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں سی پی آر یا اے ای ڈی مشین کے ذریعے مریض کی چھاتی کو ایک خاص طریقے سے ایسے دبایا جاتا ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن شروع ہو جاتی ہے اور اس کے جسم میں سانسوں کو بحال کر لیا جاتا ہے۔ اس میں منہ کے ذریعے بھی سانس دی جاتی ہے۔
ابتدائی طبی امداد کے فوائد
اس تربیت کے کئی بنیادی فوائد ہیں۔ اس سے نہ صرف مریض کو فائدہ ہوتا ہے جسے ایک نئی زندگی مل جاتی ہے بلکہ جو اس کی مہارت حاصل کرلیتا ہے وہ بھی اس بارے میں پر اعتماد بن جاتا ہے یعنی کسی کی قیمتی جان بچانے کے لیے، اور یہ مہارت اسے اعتماد فراہم کرتی ہے۔ جب حادثات اور طبی ہنگامی حالات پیش آتے ہیں، تو علم اور معلومات کی کمی کی وجہ سے عام لوگ نہیں جانتے کہ متاثر ہونے والے شخص کی کس طرح مدد کرنی ہے۔
بسا اوقات یہ خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں ان کا کوئی عمل متاثر ہونے والے مریض کو نقصان یا تکلیف نہ پہنچا دے۔ ہم اکثر مہارت اور تجربے کی کمی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر متاثرین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بی ایل ایس کی تربیت ہمیں وہ مہارت اور تجربہ فراہم کرے گی، جو حادثات کی صورت میں محض خاموش تماشائی بننے کی بجائے کسی کی جان بچانے میں مددگار بنا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی مصیبت زدہ کی زندگی بچانے کے لیے مہارت اور علم کا ہونا ہمارے لیے عملی زندگی میں انتہائی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ کیو نکہ جس مریض کو دل کا دورہ پڑتا ہے، اسے جان بچانے میں زیادہ وقت نہیں ملتا۔ متاثرہ شخص کو جتنی جلدی CPR اور AED ملے گا، اتنے ہی اس کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
سی پی آر (Cardiopulmonary resuscitation) :
اس کورس سے سی پی آر اور AED (خودکار ڈیفبریلیٹر) کی مہارت پیدا ہوتی ہے جو کہ صرف ہسپتالوں کے اندر ہی نہیں بلکہ راہ چلتے، گھروں، دفاتر اور بازاروں میں بھی کسی کی زندگی بچانے کی ایک اہم تکنیک ہے۔ جب معاشرے میں صحت کے مراکز سے دور کسی کو دل کا دورہ پڑتا ہے تو یہ ایک خطرناک صورتحال ہوتی ہے۔
اگر سی پی آر کم سے کم وقت میں پیش نہیں کیا گیا تو متاثرہ مریض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی متاثرہ فرد کو CPR دے تو یہ عمل خون کی گردش کی مسلسل فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ یہ عمل دل پر دباؤ کے ذریعے ہوتا ہے، جو دل کو مصنوعی دھڑکن فراہم کرتا ہے۔ یہ دباؤ جسم کے باقی حصوں میں خون کے بہاؤ کو بھی آسان بناتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی جسم میں موجود خون میں اتنی آکسیجن ہوتی ہے کہ وہ کچھ منٹوں تک زندگی کو برقرار رکھ سکے۔ نتیجتاً، جب صرف سینے کو دبایا جاتا ہے، یہاں تک کہ منہ سے ہوا کے بغیر بھی، متاثرہ شخص کسی پیشہ ورانہ مدد کی رسائی سے قبل کچھ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ چونکہ دل کا دورہ بالکل صحت مند لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے، اور یہ کسی بھی پیشگی علامت کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔
اس لیے دل کا دورہ پڑنے والے مریض کی زندگی کا انحصار ایک ایسے شخص کی موجودگی پر ہوتا ہے، جسے بنیادی طبی امداد کے طریقوں پر مہارت حاصل ہو۔
آس پاس کے لوگوں یعنی دوستوں، رشتہ داروں، راہ گیروں میں سے کسی کو یہ مہارت حاصل ہو، جو سی پی آر جانتا ہو اور اس عین وقت پر ابتدائی طبی امداد فراہم کرے۔ ہمارے اردگرد کسی کو ایسا کوئی واقع پیش آئے تو ہم چاہتے ہیں کہ ان کی جان بچانے کے لیے ہم سب جو بھی ہو سکے، وہ بروئے کار لائیں، لیکن ہم جتنی بھی مدد کرنا چاہیں، سی پی آر کی مہارت کے بغیر یہ بے کار ہو گا۔
اے ای ڈی کیا ہے؟
یہ ایک برقی آلہ ہے۔ جب دل کی دھڑکنیں بے ترتیب یا بند ہوجاتی ہیں تو طبی عملہ دھڑکنوں کو ترتیب دینے یا سانسیں بحال کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں اور مریض کے سینے پر دباؤ ڈالتے ہیں جس سے اس کی سانسیں بحال ہوتی ہیں۔ 'بنیادی لائف سپورٹ' کی تربیت ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے بھی فائدہ مند ہے کیونکہ مختلف ادارے تربیت یافتہ افراد کو ملازمت کے مواقع دیتے ہیں۔ ا
گر آپ نے بی ایل ایس کی سرٹیفیکیشن حاصل کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تربیت یافتہ ہیں اور ان ضروری بنیادی تیکنیکوں میں مہارت رکھتے ہیں جو کسی کی جان بچانے میں مددگار ہیں تو اس مہارت کی بنیاد پر کسی بھی ملازمت میں آپ کو زیادہ توجہ اور ترجیح دی جائے گی۔
بی ایل ایس کی تربیت ایک ایسے ماحول کا احساس دلاتی ہے ، جس میں ارد گرد کے لوگ یا کسی ادارے کے لوگ تحفظ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہیں کسی بھی ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو اْن کے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جن سے انہیں ابتدائی طبی امداد مہیا ہو سکتی ہے۔
اکثر اوقات ایسی صورتحال سے متاثرہ مریض اس بات سے بھی خوف کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اْن کے ارد گرد ایسی مہارتیں رکھنے والے لوگ موجود نہیں جو ان کو طبی امداد فراہم کر سکیں اور یہ احساس ان کے لئے مزید نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ اس بناء پر یہ تربیت ہمارے اندر تحفظ کا احساس بھی پیدا کرتی ہے اور ہم زندگی کے کسی بھی موڑ پر دوسروں کے لیے بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
(ڈاکٹر سعید اللہ شاہ، شفاء انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں بطور کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر رکن ہیں۔)