بھارت کینیڈا تنازع کیا رخ اختیار کریگا
کسی سفیر کو علانیہ طور پر خفیہ ایجنسی کا اہلکار ڈیکلیئر کر کے ملک بدر کرنا ایک انوکھا واقعہ ہے
کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل کے معاملے میں اوٹاوا اور نئی دہلی نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا ہے۔
کئی ممالک نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت قتل کے پیچھے ہو سکتی ہے، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے اتحادیوں ''فائیو آئیز '' کے ساتھ معاملہ اٹھانے پر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے کینیڈا کے بھارت پر سنگین الزامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کردیا ہے، جب کہ کینیڈا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات معطل ہوگئے ہیں۔
سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل پر کینیڈا اور بھارت کے درمیان تنازع نے بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسے اس معاملے پر 'گہری تشویش'ہے، وہ کینیڈا سے رابطے میں رہے گا، تحقیقات جاری رہنی چاہیں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
کسی سفیر کو علانیہ طور پر خفیہ ایجنسی کا اہلکار ڈیکلیئر کر کے ملک بدر کرنا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اب تک سفراء کو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ڈیکلیئر کر کے ملک بدر کرنے کے زیادہ تر واقعات انڈیا، پاکستان اور انڈیا، چین کے درمیان ہوئے ہیں لیکن عام طور پر ان تفصیلات کو خفیہ رکھا جاتا ہے، لیکن کینیڈا کی حکومت نے بھارتی سفیر کو علانیہ طور پر خفیہ ایجنسی کا اہلکار ڈیکلیئر کر کے ملک بدر کیا۔
کسی سفارت کار کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ خفیہ ایجنسی کا اہلکار ہے تو اس کی تفصیلات کو خفیہ رکھتے ہوئے یا علانیہ طور پر اسے ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح سے مختلف ممالک کرتے ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کی موت کے پیچھے بھارت کے ریاستی اہلکاروں کے ہونے کے ''الزامات''کی تحقیقات جاری ہیں۔ ٹروڈو نے پارلیمان کو بتایا، کینیڈا کی سیکیورٹی ایجنسیاں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے درمیان ممکنہ روابط کے الزامات کی تفتیش کر رہی ہیں۔
جون میں کینیڈا میں سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ چند روز قبل کینیڈین حکام نے اس قتل میں ممکنہ طور پر بھارت کے ملوث ہونے کا بیان دیا ۔ اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ،کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ ہماری سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری اور جمہوری معاشروں کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے معاملہ امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے سامنے بھی اٹھایا ہے۔ ہردیپ سنگھ کے خلاف بھارتی حکومت نے متعدد جعلی مقدمات درج اور انھیں دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔ انھیں بھارتی سفارت خانے کی جانب سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔
سکھ مذہب کی ابتدا بھارت میں ہوئی تھی اور اس کے پیروکار بھارت میں ایک آزاد سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں ،کینیڈا ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بھارت سے باہر کسی بھی ملک میں سکھوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
علیحدہ سکھ ریاست (خالصتان) کی مہم اور جد وجہد کی جڑیں ہندوستان کی آزادی کی تحریک اور مذہبی خطوط پر برصغیر ہند و پاک کی تقسیم سے وابستہ ہیں۔سن 1947میں تقسیم ہند کی وجہ سے مسلمانوں کو نیا بننے والا ملک پاکستان ملا جب کہ ہندو، سکھ اور مسلمانوں کی ایک تعداد بھارت میں ہی رہے۔
اس دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہونے والے صوبے پنجاب میں ہلاکت خیز تشدد پھوٹ پڑا تھا۔اس کے بعد کے سالوں میں بھارتی حکومت نے خالصتانی تحریک کو، خاص طور پر 1980 کی دہائی میں، کچل دیا تھا۔ اسی دوران پرتشدد سکھ مخالف فسادات بھی ہوئے جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور اس تحریک پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔
بھارتی حکام نے اسے سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا۔تاہم آج کل یہ تحریک پھر سے سرخیوں میں ہے اور آئے دن اس کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کے بہت دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ سکھ ہندوستان میں اپنی خود مختاری کی جدوجہد کر رہے ہیں اور بھارت میں کوئی اقلیت بھی محفوظ نہیں۔ مسلمانوں کو بھارت میں بہت بے دردی سے مارا گیا ہے لیکن سکھ ایک نسبتاً بڑی قوت ہیں۔
اس وقت انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں جو تناؤ نظر آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔کینیڈا میں خالصتان کی حامی تحریک اتنی زور شور سے چل رہی ہے کہ سکھوں کے لیے الگ ملک خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کرایا جا چکا ہے۔
اس بار بھی جس دن جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات ہوئی، سکھ علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں انڈین پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔
انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس تصویر کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان 'کشیدگی' کے طور پر دیکھا گیا۔اس کے بعد ٹروڈو سے بات چیت کے دوران نریندر مودی کی جانب سے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا گیا۔
کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تلخی کے درمیان، کینیڈا کی حکومت کی طرف سے تجارتی معاہدے پر بات چیت بھی کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔تقریباً ایک دہائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی تھی۔
اس معاہدے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں۔مارچ 2022 میں، دونوں ممالک نے ای پی ٹی (تجارتی معاہدے پر مذاکرات میں ابتدائی پیشرفت) پر ایک عبوری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز کیا۔
ایسے معاہدوں کے تحت دونوں ممالک باہمی تجارت کی زیادہ تر اشیا پر ڈیوٹی کو نمایاں طور پر کم یا ختم کر دیتے ہیں۔انڈین کمپنیاں کینیڈا کے بازاروں میں اپنے ٹیکسٹائل اور چمڑے کے سامان کے لیے ڈیوٹی فری رسائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی انڈیا کی جانب سے کینیڈا میں پیشہ ور افراد کے لیے ویزا قوانین کو آسان بنانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف کینیڈا اپنی ڈیری اور زرعی مصنوعات کے لیے انڈین مارکیٹس کو کھولنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ 2022 میں انڈیا کینیڈا کا دسواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ مالی سال 2022-23 میں انڈیا نے کینیڈا کو 4.10 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا جب کہ مالی سال 22-2021 میں یہ تعداد 3.76 ارب ڈالر تھی۔
جب کہ کینیڈا نے 2022-23 میں انڈیا کو 4.05 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا جب کہ 2021-22 میں یہ حجم 3.13 ارب ڈالر تھا۔جہاں تک سروس ٹریڈ کا تعلق ہے تو کینیڈا کے پنشن فنڈز نے انڈیا میں55 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کینیڈا نے 2000سے انڈیا میں 4.07 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے۔کم از کم 600 کینیڈین کمپنیاں انڈیا میں کام کر رہی ہیں جب کہ مزید 1000 کمپنیاں یہاں اپنے کاروبار کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔
دوسری طرف انڈین کمپنیاں کینیڈا میں آئی ٹی، سافٹ ویئر، قدرتی وسائل اور بینکنگ کے شعبوں میں سرگرم ہیں۔انڈیا کی طرف سے کینیڈا کو برآمد کی جانے والی اہم اشیا میں زیورات، قیمتی پتھر، فارما پروڈکٹس، ریڈی میڈ گارمنٹس، آرگینک کیمیکل، لائیٹ انجینئرنگ کا سامان، آئرن اور اسٹیل کی مصنوعات شامل ہیں،جب کہ انڈیا کینیڈا سے دالیں، نیوز پرنٹ کا سامان، لکڑی کا گودا، آئرن اسکریپ، معدنیات، صنعتی کیمیکلز درآمد کرتا ہے۔
ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان اب تک تجارتی بات چیت کے 6 دور ہو چکے ہیں۔کینیڈا کے ساتھ گزشتہ 10 سالوں سے آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے۔
بلاشبہ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کا قتل دہشت گردی ہے، یہ قتل اس امر کا غماز ہے کہ بھارت نا صرف اپنے ملک بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اپنی اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کی سرگر میوں میں ملوث ہے اور اس کے سفارتکار، سفارتکاری کی آڑ میں اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
دوسری جانب بھارت کے خلاف کینیڈا کے الزامات پر پاکستان کو حیرت نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے بھی ملک میں بھارتی حاضر سروس افسر پکڑا تھا، بھارت پاکستان میں عدم استحکام کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اقوام متحدہ اور جی 20 ممالک کو بھارت سے تعلقات رکھنے اورمعاہدے کرنے سے پہلے اس کا یہ قبیح چہرہ بھی پڑھ لینا چاہیے تھا۔