بندیال صاحب کا دورِ قضاء دوسری قسط
بندیال صاحب اپنے ایک ایسے کولیگ کی کھل کر حمایت اور سرپرستی کرتے رہے
ریٹائرڈ چیف جسٹس بندیال صاحب کے ماضی کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوچکا تھا کہ وہ Rule of law کے قانونی تصور پر یقین نہیں رکھتے تھے اور قانون کو اپنی مرضی اورمنشا کے تابع سمجھتے تھے۔
انصاف اور قانون کی حکمرانی کے نقطۂ نظر سے ان کا دورِ قضائ، دورِ سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے نہ صرف عدلیہ کی اعلیٰ روایات سے انحراف کیا بلکہ وہ کئی بار سنگین غلطیوںکے بھی مرتکب ہوئے، چند کیسوں کا ذکر ضروری ہے۔
منحرف ممبران اسمبلی کے ووٹ ہمیشہ کاؤنٹ ہوتے ہیں، اس میں کوئی ابہام نہیں۔ آئین میرے سامنے موجود ہے جس کے آرٹیکل 63-A کی کلاز بی میں لکھا ہے If a member votes or abstains from voting... یعنی اگر کوئی رکن پارٹی سربراہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا ووٹ دینے سے گریز کرتا ہے۔
مطلب واضح ہے کہ کسی منحرف رکن کے خلاف کارروائی اس کے دو افعال کے سبب ہوگی، ایک یہ کہ جب وہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دے اور دوسرا جب وہ پارٹی فیصلے کے برعکس ووٹ دینے سے اجتناب کرے۔ آئین میں منحرف ارکان کے ووٹ دینے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، یعنی وہ ووٹ دے کر ہی قابلِ مواخذہ جرم کے مرتکب ہوں گے۔
اگر ان کا ووٹ شمار ہی نہ ہوتا تو مواخذہ کی ساری کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے اور آئین میں اس کی ساری تفصیل اور طریقۂ کار لکھنے کا کوئی جواز ہی نہ رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعظم کے اٹارنی جنرل نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ ہوں گے۔ خود چیف جسٹس بندیال صاحب کے ریمارکس تھے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار ہوںگے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے شدید مخالف اور چیئرمین پی ٹی آئی کے پرجوش حمایتی چوہدری اعتزاز احسن بھی کئی چینلز پر دوٹوک انداز میں کہتے رہے ہیں کہ '' منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا''۔ قومی اسمبلی کے منحرف ارکان کے ووٹ شمار کرنے کی تو ضرورت پیش نہ آئی مگر پنجاب اسمبلی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو چیف جسٹس بندیال نے حیرت انگیز یو ٹرن لیا اور فیصلہ سنایا کہ منحرف ارکان اسمبلی کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔
یوں سابق چیف جسٹس نے ایک پارٹی کی کھلم کھلا مدد کرکے ان کی حکومت بنوادی۔ اس پر سپریم کورٹ کے کئی جج صاحبان کو کہنا پڑا کہ''یہ تو آئین کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے جس کا سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں''۔
چیف جسٹس بندیال صاحب نے دوسرا غلط کام یہ کیا کہ سپریم کورٹ کے 1996 میں جسٹس سجاد علی شاہ کیس میں دیے گئے مشہور فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینئر ججز کو نظر انداز کرکے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرادیا۔
اس ضمن میں حکومتی ارکان کے ووٹ اپنے حق میں ڈلوانے کے لیے انھوں نے جنرل باجوہ سے درخواست کی، یہ درخواست مان کر انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے سفارش کی، یوں انھوں نے بھی ایک غلط کام میں معاونت کی ۔
پارلیمنٹ مطالبہ کرتی رہی اور بار ایسوسی ایشنز شور مچاتی رہیں کہ انتہائی حساس نوعیّت کے متنازعہ کیسوں کی سماعت فل کورٹ کرے، تاکہ پوری عدالتِ عظمیٰ کا نقطہء نظر سامنے آجائے۔
تب اسے سب تسلیم کرلیں گے۔ مگر بندیال صاحب انتہائی حساس اوراہم کیس مخصوص ججوں کے پاس لگاتے رہے۔ اس طرح وہ انصاف اور عدل کے بنیادی اصولوں کی پروا نہیں کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے دامن پر بدنامی کے داغ لگوالیے مگر وہ ایک پارٹی کو سپورٹ کرنے کی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
بندیال صاحب اپنے ایک ایسے کولیگ کی کھل کر حمایت اور سرپرستی کرتے رہے جس کے خلاف ریفرینس سپریم جوڈیشنل کونسل میں دائر ہوچکے ہیں، ایسا کر کے انھوں نے واضح طور پر بتادیا کہ انھیں کرپشن سے کوئی نفرت نہیں ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرح اگر ان کے اپنے ساتھی پرکرپشن میں ملوّث ہونے کا الزام ہے تو وہ اس کی مدد اور سرپرستی کریں گے۔ ایسی سوچ کسی عدالتی منصب دار کی نہیں ہوسکتی۔
اپنی ساس کی آڈیو لیک کے معاملے پر تو بندیال صاحب نے قانون، انصاف، عدالتی روایات اور اخلاقیات کی تمام حدود پار کردیں۔ ایک مجسٹریٹ یا تفتیش کرنے والے سب انسپکٹر پر بھی ایک فریق عدمِ اعتماد کا اظہار کردے تو وہ کیس چھوڑدیتا ہے۔
اور تفتیش کسی اور افسر کو بھیج دیتا ہے۔ اخلاقیات ہی نہیں عدالتی پروسیجر کا بھی بنیادی تقاضا ہے کہ اگرکسی کیس میں آپ کا کوئی قریبی عزیز ملوّث ہے یا دلچسپی رکھتا ہے تو اس کے لیے ایسا بنچ تشکیل دیا جاتا ہے جس پر آپ کے مخالفین کو بھی اعتماد ہو۔ بندیال صاحب ان چیزوں سے بالکل بے نیاز رہے کہ کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا۔
انھوں نے اپنے دامن پر دااغ لگوالیے مگر وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو out of the way جاکر مدد اور سپورٹ کرنے کرتے رہے۔ انھوں نے غیرجانبداری کی ، میرٹ اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کی مثال قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور ریٹائر ہوکر ثاقب نثار، کھوسہ اور گلزار کے قافلے میں شامل ہوگئے۔
چند سال پہلے جب طاقتور حلقوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعظم اور صدر عارف علوی نے ان کے ہمنوائی بلکہ تابعداری میں ریفرنس بھیج دیا، اس وقت کوئی بھی ڈر کی وجہ سے قاضی صاحب کا نام لینے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
راقم نے اس وقت ان کے حق میں مسلسل پانچ آرٹیکل لکھے تھے۔ ثاقب نثار، گلزار اور بندیال کی ڈسی ہوئی اور قانون اور انصاف کی حکمرانی کے لیے ترسی ہوئی قوم نے ان سے بے پناہ امیدیں لگا رکھی ہیں۔ ایک شہری کی حیثیّت سے میں بھی ملک کے چیف جسٹس کو چند تجاوز پیش کرنا چاہوں گا۔
1۔چیف جسٹس کے حلف کے وقت متعلقہ عدالت کے جج صاحبان اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور کو مدعو نہ کیا جائے۔ ہمارے جج صاحبان کو قابلِ فخر جج صاحبان جسٹس عبدالرشید اور جسٹس کارنیلئیس کی تقلید کرنی چاہیے۔ جنھوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی دعوت کو ٹھکرادیا اور صدر ایوب کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے انکار کردیا تھا۔
2۔قاضی صاحب کے تین چار پیشرو یورپ اور امریکا سے پڑھے ہوئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے اہم ترین مقدمات میں انصاف کی اعلیٰ ترین نظیر قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ خرابی کہاں تھی؟ ان میں کس چیز کی کمی تھی؟ کیاکمی اور کمزوری کردار کی تھی؟ تعیناتی کے وقت سب سے زیادہ اہمیّت کردار کو دی جانی چاہیے۔
3۔اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے فرسودہ معیار اور طریقۂ کار کو تبدیل کرنا چاہیے۔ سب سے زیادہ اہمیّت integrity اور کریکٹر کو دی جانی چاہیے، اس سلسلے میں سی ایس ایس کی طرز پر لاء گریجواٹیس کے لیے جوڈیشل سروس آف پاکستان کے اجراء پر بھی سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔
4۔جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو وکلاء نے Hostage بنارکھا ہے، قاضی صاحب ڈسٹرکٹ ججوں کی عزّت، توقیر اور آزادی بحال کرا دیں تو یہ ان کا تاریخی کارنامہ سمجھا جائے گا۔
5۔برطانوی سامراج کے دور میں جج انگریز ہوتے تھے جو بجلی نہ ہونے کے باعث گرمیوں میں برطانیہ چلے جاتے تھے، اب تو اعلیٰ عدلیہ کی عمارت کے ہر کمرے اور کار میں اے سی لگے ہوئے ہیں اس لیے چھٹیوں کی سامراجی روایت ختم کردی جائے۔
6۔پاکستان جیسے غریب ملک میں ججوں نے اپنی پنشن غیرمعمولی حد خود ہی مقرر کردی ہے، اسے Rationalise کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کی تنخواہ پانچ لاکھ اور پنشن تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اِس وقت ملک کے لیے ایثار کی ضرورت ہے اور یہ نیک کام قاضی صاحب اپنے ادارے سے شروع کریں۔
7۔عام لوگوں کے پینڈنگ کیسوں کو اہمیّت دی جائے اور روزانہ سماعت کرکے انھیں ختم کیا جائے۔
8۔انگریز حاکم عدالتوں اور دفتروں میں ادنیٰ اہلکاروں کو پگڑی ، اچکن اور جناح کیپ پہنا کر مسلم تہذیب کی علامتوں کی توہین کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بند کیا جائے اور کرسی ہٹانے کے لیے ملازم رکھنے کی سامراجی روایت ختم کردی جائے۔
انصاف اور قانون کی حکمرانی کے نقطۂ نظر سے ان کا دورِ قضائ، دورِ سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے نہ صرف عدلیہ کی اعلیٰ روایات سے انحراف کیا بلکہ وہ کئی بار سنگین غلطیوںکے بھی مرتکب ہوئے، چند کیسوں کا ذکر ضروری ہے۔
منحرف ممبران اسمبلی کے ووٹ ہمیشہ کاؤنٹ ہوتے ہیں، اس میں کوئی ابہام نہیں۔ آئین میرے سامنے موجود ہے جس کے آرٹیکل 63-A کی کلاز بی میں لکھا ہے If a member votes or abstains from voting... یعنی اگر کوئی رکن پارٹی سربراہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا ووٹ دینے سے گریز کرتا ہے۔
مطلب واضح ہے کہ کسی منحرف رکن کے خلاف کارروائی اس کے دو افعال کے سبب ہوگی، ایک یہ کہ جب وہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دے اور دوسرا جب وہ پارٹی فیصلے کے برعکس ووٹ دینے سے اجتناب کرے۔ آئین میں منحرف ارکان کے ووٹ دینے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، یعنی وہ ووٹ دے کر ہی قابلِ مواخذہ جرم کے مرتکب ہوں گے۔
اگر ان کا ووٹ شمار ہی نہ ہوتا تو مواخذہ کی ساری کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے اور آئین میں اس کی ساری تفصیل اور طریقۂ کار لکھنے کا کوئی جواز ہی نہ رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعظم کے اٹارنی جنرل نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ ہوں گے۔ خود چیف جسٹس بندیال صاحب کے ریمارکس تھے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار ہوںگے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے شدید مخالف اور چیئرمین پی ٹی آئی کے پرجوش حمایتی چوہدری اعتزاز احسن بھی کئی چینلز پر دوٹوک انداز میں کہتے رہے ہیں کہ '' منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا''۔ قومی اسمبلی کے منحرف ارکان کے ووٹ شمار کرنے کی تو ضرورت پیش نہ آئی مگر پنجاب اسمبلی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو چیف جسٹس بندیال نے حیرت انگیز یو ٹرن لیا اور فیصلہ سنایا کہ منحرف ارکان اسمبلی کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔
یوں سابق چیف جسٹس نے ایک پارٹی کی کھلم کھلا مدد کرکے ان کی حکومت بنوادی۔ اس پر سپریم کورٹ کے کئی جج صاحبان کو کہنا پڑا کہ''یہ تو آئین کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے جس کا سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں''۔
چیف جسٹس بندیال صاحب نے دوسرا غلط کام یہ کیا کہ سپریم کورٹ کے 1996 میں جسٹس سجاد علی شاہ کیس میں دیے گئے مشہور فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینئر ججز کو نظر انداز کرکے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرادیا۔
اس ضمن میں حکومتی ارکان کے ووٹ اپنے حق میں ڈلوانے کے لیے انھوں نے جنرل باجوہ سے درخواست کی، یہ درخواست مان کر انھوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے سفارش کی، یوں انھوں نے بھی ایک غلط کام میں معاونت کی ۔
پارلیمنٹ مطالبہ کرتی رہی اور بار ایسوسی ایشنز شور مچاتی رہیں کہ انتہائی حساس نوعیّت کے متنازعہ کیسوں کی سماعت فل کورٹ کرے، تاکہ پوری عدالتِ عظمیٰ کا نقطہء نظر سامنے آجائے۔
تب اسے سب تسلیم کرلیں گے۔ مگر بندیال صاحب انتہائی حساس اوراہم کیس مخصوص ججوں کے پاس لگاتے رہے۔ اس طرح وہ انصاف اور عدل کے بنیادی اصولوں کی پروا نہیں کرتے رہے۔ انھوں نے اپنے دامن پر بدنامی کے داغ لگوالیے مگر وہ ایک پارٹی کو سپورٹ کرنے کی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
بندیال صاحب اپنے ایک ایسے کولیگ کی کھل کر حمایت اور سرپرستی کرتے رہے جس کے خلاف ریفرینس سپریم جوڈیشنل کونسل میں دائر ہوچکے ہیں، ایسا کر کے انھوں نے واضح طور پر بتادیا کہ انھیں کرپشن سے کوئی نفرت نہیں ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرح اگر ان کے اپنے ساتھی پرکرپشن میں ملوّث ہونے کا الزام ہے تو وہ اس کی مدد اور سرپرستی کریں گے۔ ایسی سوچ کسی عدالتی منصب دار کی نہیں ہوسکتی۔
اپنی ساس کی آڈیو لیک کے معاملے پر تو بندیال صاحب نے قانون، انصاف، عدالتی روایات اور اخلاقیات کی تمام حدود پار کردیں۔ ایک مجسٹریٹ یا تفتیش کرنے والے سب انسپکٹر پر بھی ایک فریق عدمِ اعتماد کا اظہار کردے تو وہ کیس چھوڑدیتا ہے۔
اور تفتیش کسی اور افسر کو بھیج دیتا ہے۔ اخلاقیات ہی نہیں عدالتی پروسیجر کا بھی بنیادی تقاضا ہے کہ اگرکسی کیس میں آپ کا کوئی قریبی عزیز ملوّث ہے یا دلچسپی رکھتا ہے تو اس کے لیے ایسا بنچ تشکیل دیا جاتا ہے جس پر آپ کے مخالفین کو بھی اعتماد ہو۔ بندیال صاحب ان چیزوں سے بالکل بے نیاز رہے کہ کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا۔
انھوں نے اپنے دامن پر دااغ لگوالیے مگر وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو out of the way جاکر مدد اور سپورٹ کرنے کرتے رہے۔ انھوں نے غیرجانبداری کی ، میرٹ اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے کی مثال قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور ریٹائر ہوکر ثاقب نثار، کھوسہ اور گلزار کے قافلے میں شامل ہوگئے۔
چند سال پہلے جب طاقتور حلقوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعظم اور صدر عارف علوی نے ان کے ہمنوائی بلکہ تابعداری میں ریفرنس بھیج دیا، اس وقت کوئی بھی ڈر کی وجہ سے قاضی صاحب کا نام لینے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
راقم نے اس وقت ان کے حق میں مسلسل پانچ آرٹیکل لکھے تھے۔ ثاقب نثار، گلزار اور بندیال کی ڈسی ہوئی اور قانون اور انصاف کی حکمرانی کے لیے ترسی ہوئی قوم نے ان سے بے پناہ امیدیں لگا رکھی ہیں۔ ایک شہری کی حیثیّت سے میں بھی ملک کے چیف جسٹس کو چند تجاوز پیش کرنا چاہوں گا۔
1۔چیف جسٹس کے حلف کے وقت متعلقہ عدالت کے جج صاحبان اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور کو مدعو نہ کیا جائے۔ ہمارے جج صاحبان کو قابلِ فخر جج صاحبان جسٹس عبدالرشید اور جسٹس کارنیلئیس کی تقلید کرنی چاہیے۔ جنھوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی دعوت کو ٹھکرادیا اور صدر ایوب کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے انکار کردیا تھا۔
2۔قاضی صاحب کے تین چار پیشرو یورپ اور امریکا سے پڑھے ہوئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے اہم ترین مقدمات میں انصاف کی اعلیٰ ترین نظیر قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ خرابی کہاں تھی؟ ان میں کس چیز کی کمی تھی؟ کیاکمی اور کمزوری کردار کی تھی؟ تعیناتی کے وقت سب سے زیادہ اہمیّت کردار کو دی جانی چاہیے۔
3۔اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے فرسودہ معیار اور طریقۂ کار کو تبدیل کرنا چاہیے۔ سب سے زیادہ اہمیّت integrity اور کریکٹر کو دی جانی چاہیے، اس سلسلے میں سی ایس ایس کی طرز پر لاء گریجواٹیس کے لیے جوڈیشل سروس آف پاکستان کے اجراء پر بھی سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔
4۔جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو وکلاء نے Hostage بنارکھا ہے، قاضی صاحب ڈسٹرکٹ ججوں کی عزّت، توقیر اور آزادی بحال کرا دیں تو یہ ان کا تاریخی کارنامہ سمجھا جائے گا۔
5۔برطانوی سامراج کے دور میں جج انگریز ہوتے تھے جو بجلی نہ ہونے کے باعث گرمیوں میں برطانیہ چلے جاتے تھے، اب تو اعلیٰ عدلیہ کی عمارت کے ہر کمرے اور کار میں اے سی لگے ہوئے ہیں اس لیے چھٹیوں کی سامراجی روایت ختم کردی جائے۔
6۔پاکستان جیسے غریب ملک میں ججوں نے اپنی پنشن غیرمعمولی حد خود ہی مقرر کردی ہے، اسے Rationalise کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں کسی بھی سرکاری عہدیدار کی تنخواہ پانچ لاکھ اور پنشن تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اِس وقت ملک کے لیے ایثار کی ضرورت ہے اور یہ نیک کام قاضی صاحب اپنے ادارے سے شروع کریں۔
7۔عام لوگوں کے پینڈنگ کیسوں کو اہمیّت دی جائے اور روزانہ سماعت کرکے انھیں ختم کیا جائے۔
8۔انگریز حاکم عدالتوں اور دفتروں میں ادنیٰ اہلکاروں کو پگڑی ، اچکن اور جناح کیپ پہنا کر مسلم تہذیب کی علامتوں کی توہین کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بند کیا جائے اور کرسی ہٹانے کے لیے ملازم رکھنے کی سامراجی روایت ختم کردی جائے۔