نئے چیف جسٹس سے توقعات
گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہرکرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔
گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کردیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی تھی۔ کوئٹہ میں 8اگست 2016کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کودہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔
اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔
اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پررپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
2018میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔
صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کردیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریرکیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔
بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔
گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔
گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کردیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی تھی۔ کوئٹہ میں 8اگست 2016کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کودہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔
اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔
اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پررپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
2018میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔
صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کردیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریرکیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔
بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔
گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔
گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔