مٹی پائو پالیسی نہیں چلے گی

نواز شریف کی تقریر سے واضح ہوا ہے کہ ان کے پاس ایک واضح سیاسی ایجنڈا موجود ہے


مزمل سہروردی September 21, 2023
[email protected]

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بالآخر اپنی سیاسی خاموشی توڑ دی۔ ن لیگ کے ایک اعلیٰ سطح کے مشاورتی اجلاس سے اپنے خطاب میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی مٹی پاؤ پالیسی نہیں ہوگی۔

جس کا مطلب ہے کہ میاں نواز شریف کسی درگزر اور کسی مفاہمتی موڈ میں نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں جو ہوگیا اس کو پیچھے چھوڑنے کا وقت نہیں بلکہ اس کا حساب لینے کا وقت ہے۔

انھوں نے اپنے ساتھیوں کو ن لیگ کے ہی نہیں بلکہ ان کی رائے میں پاکستان کو آج اس نہج تک جنھوں نے پہنچایا ہے ان کی نام بھی بتا دیے ہیں۔ نواز شریف کی اس پہلی تقریر سے لگ رہا ہے کہ وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں گوجرانوالہ کی تقریر کے موقع پر کھڑے تھے۔ ان کی سوچ اور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

نواز شریف کی تقریر سے واضح ہوا ہے کہ ان کے پاس ایک واضح سیاسی ایجنڈا موجود ہے۔ اور وہ ایک سیاسی ایجنڈے کے ساتھ وطن واپس آرہے ہیں۔ اس ایجنڈے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ نواز شریف کے سیاسی اہداف کیا ہیں۔

نواز شریف نے سب سے آگے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ آج پاکستان جن حالات کا شکار ہے اس کے بنیادی ذمے دار یہ دو کردار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس بار مٹی پاؤ پالیسی نہیں چلے گی تو ان کا احتساب کیسے ہوگا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا مشکل ہے۔

پاکستان کے معروضی حالات ابھی ایسے کسی احتساب کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے نواز شریف ان دو کرداروں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام کی عدالت میں تو مجرم ٹھہرا سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کا احتساب مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ بات کہنے سے نواز شریف نے ان سب دوستوں کی رائے کو غلط ثابت کر دیا ہے جن کے مطابق نواز شریف کی سوچ میں کوئی تبدیلی آگئی ہے۔

نواز شریف نے اس بار بات کو آگے بڑھایا ہے۔ انھوں نے جہاں مرکزی کرداروں کے نام لیے ہیں۔ وہاں ان کے مطابق ان کے سہولت کاروں کو بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں میاں نواز شریف نے اس بار پہلی دفعہ عدلیہ کے بڑے نام لیے ہیں۔

انھوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور پاناما بنچ کے دیگر ججز کے نام بھی لیے ہیں۔ انھوں نے انھیں بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے سہولت کاروں میں شامل کیا ہے۔

پاکستان کے نئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے فل کورٹ کی سماعت کے دوران اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے ماضی میں بہت غلط فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے برملا کہا ہے کہ وہ ان فیصلوں کا دفاع نہیں کریں گے بلکہ ان کو غلط مانتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اس فہرست میں پاناما کے فیصلے کو بھی شامل کیا ہوگا۔ کیا پاکستان کی سپریم کورٹ پاناما کے فیصلے کو درست کرنے کے لیے تیار ہے۔ ویسے تو پاکستان کی سپریم کورٹ میں غلط فیصلوں کو درست کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ بلکہ غلط فیصلوں پر قائم رہنے کی ایک روش موجود ہے۔

آپ دیکھیں پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں ذوالفقار بھٹوکا ریفرنس بھیجا تھا۔اس ریفرنس کا واحد مقصد تاریخ کی درستگی کے لیے یہ طے کرنا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ غلط تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے آج تک یہ ریفرنس سننا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ اس سے بھٹو نے کوئی زندہ نہیں ہوجانا۔ لیکن تاریخ کی درستگی ہو جائے گی۔

ایسے میں جب نواز شریف زندہ ہیں تو کیا سپریم کورٹ پاناما کے حوالے سے اپنی غلطی مانے گی۔ آج نواز شریف کے مخالف بھی مانتے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ کیا اس بار سپریم کورٹ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی یہ بہت بڑا سوال ہے۔

اس لیے نواز شریف عوام کی عدالت میں تو ان ججز کے خلاف بھر پور مہم چلا سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ عدلیہ کی موجودہ قیادت کواس پر کوئی اعتراض ہوگا۔

میاں نواز شریف جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کی ایک کارروائی کی کوشش کر چکے ہیں، اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ لیکن کیا اس بار ایسی کوئی کارروائی ممکن ہے۔ میں سمجھتا ہوں نواز شریف اس دفعہ پہلے عوامی رائے عامہ ہموار کریں گے۔ باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ پہلے ان کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کے عوام ان کو اور ان کے کردار کو پہچان لیں۔ باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔

یہ ایک اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ عوامی دباؤ کے بعد دیکھیں گے آگے کیا کرنا ہے۔ اگر لوگوں نے نواز شریف کی بات مان لی تو پھر اگلے اقدامات آسان بھی ہو سکتے ہیں۔

مشرف کی دفعہ یہ مان لیا گیا تھا کہ عوام ساتھ ہیں۔ اس لیے کوئی عوامی مہم نہیں چلائی گئی تھی۔ اس لیے اس بار حکمت عملی میں تبدیلی واضح ہے۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ نواز شریف پھر ایک جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا اس بار جیت جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔